کلکتہ (انصاف نیوز آن لائن)
مغربی بنگال میں ان دنوں مشاعرو ں اور ”جشن اردو“کی دھوم ہے، ہر ہفتے کسی نہ کسی ادارے کی طرف سے مشاعرہ اور اردو کے نام جشن کی محفل برپا کی جارہی ہے۔عجب اتفاق ہے کہ وہی چند روایتی سیاست داں جنہیں نہ اردو سے کوئی سرو کار ہے اور نہ وہ اردو کے فروغ کیلئے کچھ بھی کرنے کے حق میں ہے۔مگر اردو کے نام پر برپا ہونے والی محفلوں کی کبھی صدارت کرتے ہیں تو کبھی مہمان اعزازی کے طور پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔پورا مجمع ان کا سراپا ممنون اس طرح ہوتا ہے کہ گویا ان کی ذات بابرکات ہی اردو کے فروغ اور ترقی کی علامت ہے۔اردو آبادی میں پنپنے والا ”چاپلوسی“ کا وائرس اس قدر تیزی سے پھیل گیا ہے کہ کوئی بھی صورت حال کو صحیح طریقے سے پیش کرنے کو تیار نہیں ہے۔مگر سوا ل یہ ہے کہ یہ عنوان ہم نے کیوں لگایا ہے۔اس کیلئے آئی دل تھام کر موجودہ صورت حال جائزہ لیں۔۔
2021کے اسمبلی انتخابات سے قبل اردواسکولوں کا مسئلہ حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے ترنمول کانگریس کا ایک ممبر پارلیمنٹ آج خاموش کیوں؟اردو اسکولوں میں ریزرو سیٹ آخر کب ڈی ریزرو ہوں گے؟اردو کے نام پر سرکار کے روپے پر ہوٹلوں میں دعوت اڑانے والوں کی آنکھوں پر پٹی۔گزشتہ 10سالوں میں سمینار، مشاعراور بریانی پر 100کروڑ روپے اڑادئیے گئے۔مگر اسکولوں دن بدن تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا
دنیا کی کوئی بھی زبان اسی وقت تک زندہ رہتی ہے جب اس کی نئی نسل اسکولوں میں اردو میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔اگر بچے اسکولوں میں اپنی مادری زبان کو نہیں پڑھیں گے نہ مادری زبان محفوظ رہی گے اور نہ ہی نئی نسل اپنی روایات و اقدار سے وابستہ رہ پاتی ہے۔چاہے اس زبان کے نام پر جتنے بھی مشاعرے، سیمینار اور شعروا دب تخلیق کرلئے جائیں اگر نئی نسل میں ز بان منتقل نہیں ہورہی ہے تو پھر یہ تمام کوششیں بیکار اور لا حاصل ہیں۔ہندوستان میں تیزی سے انگریزی تعلیم مقبول ہوئی ہے تو اس کے پیچھے انگریزوں کا انگلش میڈیم پرائمری اسکولوں کو بڑے پیمانے قائم کرنا اور پھر ان اسکولوں کے معیار کو بلند کرنا ہے۔مگر افسوس ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد اردو و ہندی کے نام پر خوب سیاست ہوئی، ہندی کے نام پر اردو کواور اردو کے نام پر ہندی کو نیچادکھانے کی فریقین نے خوب محنت کی مگر کسی نے بھی ان دونوں زبان کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش نہیں کی اور آج صورت حال یہ ہے کہ یہ دونوں زبانیں اپنے دیار میں اجنبی بنتی جارہی ہیں۔ یقینا انگریزی بین الاقوامی زبان ہے اور رابطے کا ایک بڑا ذریعہ ہے مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان کے ذریعہ حصول تعلیم علم و فکر کی پختگی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔چناں چہ یورپ کی ترقی یافتہ قوموں نے اب تک اپنی مادری زبان سے کنارہ کشی اختیارنہیں کی ہے بلکہ اپنی مادری زبان کی حفاظت پر پوری قوت و توانائی صرف کی ہے۔فرانس، اسپین، چین اور دیگر ممالک نے انگریزی کے نام پر اپنی مادری زبان کو نہیں چھوڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی یافتہ بھی ہیں اور انگریزی کے ساتھ قدم ملا کر چل رہے ہیں۔
مغربی بنگال کے اردو اسکولیں اس وقت اساتذہ کے بحران کی وجہ سے بند ہونے کے ڈگار پر ہیں، لازمی حق تعلیم ایکٹ کی پاسداری نہیں ہورہی ہے۔تین تین ہزار طلباء پر حکومت نے تین سے چار اساتذہ دے رکھے ہیں۔کچھ اسکولوں میں مقامی کمیٹی پارٹ ٹائم ٹیچر کے ذریعہ کسی بھی طرح تعلیم جاری رکھے ہوئے ہے۔اردو میڈیم اسکولوں میں سائنس و کامرس کے سیکشن بند ہورہے ہیں۔سائنس او ر کامرس پڑھنے کے متمنی اردو میڈیم کے طلباء میڈیم تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ظاہر ہے کہ جونیئر سیکنڈری تک اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم جب سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری میں دوسرے میڈیم (یعنی بنگلہ یا ہندی یا پھر انگریزی)میں جاتے ہیں تو انہیں وہاں فٹ ہونے میں ایک وقت لگ جاتا ہے جس کا سیدھا اثر ان کی تعلیمی صلاحیت وقابلیت پڑتا ہے۔
آل بنگال اردو میڈیم اسکول ایسوسی ایشن نے ستمبر 2016میں ریاست کے سرکاری جونیئر، سیکنڈری اور ہائی سیکنڈری اردو اسکولوں کیسروے جاری کرنے کے بعد ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ ”بنگال میں سرکاری اردو میڈیم جونیئر سیکنڈری، ہائی سیکنڈری اسکولوں کی تعداد تقریبا 83ہے جس میں سے 58اسکولوں نے سروے میں تعاون کیا۔جس کے مطابق اردو میڈیم سیکنڈری، جونیئر سیکنڈری اور ہائی سیکنڈری اسکولوں میں کل 68585طلباء زیر تعلیم ہیں جس کیلئے اس وقت 1268اساتذہ کی آسامی سیکشن ہیں مگر اس میں ستمبر 2016تک صرف 549اساتذہ تھے۔اور کل 727اساتذہ کی سیٹیں خالی ہیں اور اس میں 451سیٹیں شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب کیلئے ریزرو ہیں اور 276عام سیٹیں خالی ہیں۔چوں کہ 2013کے بعد اردو میڈیم جونیئرسیکنڈری، سیکنڈری اورہائی سیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ کیلئے کوئی بحالی نہیں ہوئی اوراس درمیان بے شمار اساتذہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اس کی وجہ سے اردو اسکولوں میں مزید سیٹیں خالی ہوگئی ہیں۔ اردو اسکولوں کا سب سے بڑا مسئلہ ریزرویشن کا ہے۔چوں کہ شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب کیلئے ریزرو سیٹوں پر کوئی امیدوار نہیں آتا ہے اس کی وجہ سے یہ سیٹیں نہ صرف خالی رہ جاتی ہیں بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلاجارہاہے۔2010میں اردو میڈیم اسکولوں کے اساتذہ کی تحریک کی وجہ سے سابق وزیرا علیٰ بدھا دیب بھٹا چاریہ نے 101 ریزرو سیٹوں کو ڈی ریزرو کردیا تھا او ر اس کے بعد اسکولوں میں بحالی ہوئی۔مگر یہ قدم عارضی ثابت ہوا۔ محکمے تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال میں تقریبا50ہزار پرائمری اسکول ہیں جس میں اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد صرف 5سو کے قریب ہے۔جونیئر سیکنڈری، سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 12ہزار کے قریب ہے جس میں اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد 80کے قریب ہے۔جب کہ ہائی سیکنڈری اسکولوں کی کل تعداد 8ہزار کے قریب ہے جس میں اردو میڈیم ہائی اسکولوں بشمول ہائی سیکنڈری ہائی مدرسہ کی کل تعداد 57کے قریب ہے۔
مغربی بنگال کے اسکولوں کا سب سے بڑا مسئلہ اسکولوں میں سیٹوں کا ریزرو ہونا ہے۔ہرسال گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ریزرو سیٹیں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ضرورت اس بات کی تھی کہ اردو اسکولوں میں ریزرویشن کا مسئلہ حل کرنے کی قانونی پہلو پر پیش قدمی کی جاتی۔مگر گزشتہ 10سالوں میں ایک خاص لابی نے یہ ڈھونڈرا پیٹا کہ بنگال حکومت اردو پر مہربان ہے۔دلیل دی گئی کہ بنگال اردو اکیڈمی کا سالانہ بجٹ جوبائیں محاذ کے دور حکومت میں چند لاکھ روپے تھی وہ آج 10کڑور سے زاید تک ہوگیا۔مگر سالانہ ان 10کروڑ کا کیا ہوا؟ جواب میں خاموشی۔اگر گزشتہ 10سالوں میں اردو اکیڈمی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو صرف سیمینار، مشاعرہ، بریانی اور کمیشن کے علاوہ نیک نامی کے کھاتے میں کچھ بھی نہیں ہے۔کبھی جشن اقبال کے نام پر کرو ڑوں روپ ے بہائے گئے تو کبھی جشن غالب کے نام پر شکم پروری کی گئی اور کبھی جشن صحافت کے نام پر۔مگر اصل مسائل کی حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔جب بھی سوا ل پوچھا گیا تو جواب دیا گیا کہ اردو اکیڈمی کا کام اسکولوں میں اردو پڑھانا نہیں ہے۔مگر اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا گیا کہ اردو اکیڈمی نے اردو کے فروغ کیلئے کیا کیا؟ نئی نسل میں تخلیقی و ادبی صلاحیت کی آبیاری کیلئے اس کے پاس کوئی پروگرام ہے تو جواب ندارد ہے۔
2021کے اسمبلی انتخابات سیقبل بنگال اردو اکیڈمی کے دفتر میں اردو اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر وں کے ساتھ میٹنگ کی گئی اور کل ہوکر اردو اخبارات میں سہ سرخی لگائی گئی کہ اردو اسکولوں کے مسائل کاحل عنقریب، تمام قانونی کارروائیاں مکمل صرف نوٹی فیکشن جاری ہونا باقی ہے۔اردو اسکولوں کے اساتذہ نے ایک دوسرے کو لڈو کھلاکر مبارک باد پیش کی مگر اب اس واقعے کو دو سال ہونے کوہے مگر آج تک وہ یوم مسعود نہیں آیا۔جن ممبر پارلیمنٹ مژدہ جاں فزا سنایا تھا وہ اب ان اسکولوں کے ٹیچروں سے ملاقات کرنے کو تیار نہیں ہے۔کئی لوگ بتاتے ہیں کہ راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ اپنی جیپ میں یہ مژدہ جاں فزا لے کر گھومتے تھے اور اسمبلی انتخابات سے قبل جہاں جاتے وہاں اس چھٹی کو لہرایا جاتا ہے اور خوش خبری سنائی جاتی اس کے بعد فلگ شگاف زندہ باد کے نعروں سے فضائیں گونجنے لگتی۔موصوف کے چہرے پ مسکراہٹ پھیل جاتی مگر آج کوئی بھی ان سے سوال نہیں پوچھ رہا ہے کہ کیا ہوا تیرا وعدہ؟کہاں گئی تیری سیاست۔کیا تیری سیاست صرف اردو والوں کوفریب میں مبتلا کرنے کیلئے تھی؟
جس عہدِ سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی
اس عہدِ سیاست کو مرحوموں کا غم کیوں ہے
غالب جسے کہتے ہیں، اردو ہی کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھا کر غالب پہ کرم کیوں ہے
مغربی بنگال کے کالجوں میں اردو شعبوں کی حالت بھی انتہائی خراب ہے،کئی کالجوں میں ایس سی اور ایس ٹی کوٹوں کی وجہ سے اردو پروفیسروں کی سیٹیں ریزرو ہوگئی ہیں۔یہ تعصب کے تحت کیا جارہا ہے۔دارجلنگ ایک سیاحتی مقام ہے۔وہ تجارت کی غرض سے بہار، اترپردیش،جھاڑ کھنڈجیسی ریاستوں سے بڑی تعداد میں لوگ وہاں بستے ہیں۔دارجلنگ کالج میں اردو کا شعبہ ہوتا تھا مگر ایک پروفیسر کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے وہ سیٹ خالی رہ گئی ہے۔
کسی بھی زبان کی ترقی بیانات اور خوش کن نعروں سے نہیں ہوسکتی ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس زبان کا رشتہ نئی نسل سے جوڑنے کے ساتھ اس زبان کے پڑھنے اور لکھنے والو ں کیلئے روزگار کے مواقع حاصل پیدا کئے جائیں۔یہ تمام کام صرف حکومتو ں کے ذریعہ نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ اس کیلئے اردو آبادی کو خودبیدار ہونا ہوگا۔جہاں تک اردو کے نام پر سیاست کرنے والے اور سرکاری اداروں پر عہدہ حاصل کرنے والوں کی ہے توان سے کوئی خیر کی امید کرنا لاحاصل ہے۔