نئی دہلی: انصاف نیو ز آن لائن
کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ مسجد کے اندر ’’جئے شری رام‘‘کا نعرہ لگانے سے ’کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی ہے‘‘
’’بار اینڈ بنچ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ فیصلہ سناتے ہوئے دوافراد جن کے خلاف شہریوں کے مذہبی عقائد کی توہین کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھاکے خلاف فوجداری کی کارروائی کو منسوخ کردیا تھا۔
’’دفعہ 295A جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کارروائیوں سے متعلق ہے جس کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا ہے۔ جسٹس ایم ناگاپراسنا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اگر کوئی ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگائے تو اس سے کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو کس طرح مشتعل ہوسکتا ہے۔ جب شکایت کنندہ خود یہ کہتا ہے کہ ہندو – مسلمان علاقے میں ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں تو اس واقعے کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے۔
دونوں افراد کے خلاف مقدمے کے مطابق ان دونوں گزشتہ سال ستمبر میں ایک مقامی مسجد میں داخل ہوئے تھے اور ’’جئے شری رام‘‘ کے نعرے لگائے۔ ان دونوں افراد کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات بشمول دفعہ 295A، 447 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ملزمین پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 447 (مجرمانہ خلاف ورزی)، 505 (عوامی فساد پھیلانے والے بیانات)، 506 (مجرمانہ دھمکی)، 34 (مشترکہ ارادہ) اور 295 اے (مذہبی جذبات کو مجروح کرنا) کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بینچ نے اس بات پر زور دیا کہ درخواست گزاروں کے خلاف مزید کارروائی کی اجازت دینا قانون کا غلط استعمال ہوگا۔ سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے بینچ نے کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ 295A کے تحت کوئی بھی اور ہر عمل جرم نہیں بنے گا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں اس بات پر انتہائی تعجب اور افسوس کا اظہار کیا کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں رات کے دس بجے مسجد میں داخل ہوکر کچھ سرپھروں کے ذریعہ موجود لوگوں کو دھمکیاں دینے اور ”جے شری رام“ کا نعرہ لگانے کو ایک معمولی بات قرار دیا۔ جسٹس ایم ناگاپراسانا کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے ملزمین کی اپیل کی درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ”جے شری رام“ کے نعرے لگانے سے کسی بھی برادری کے مذہبی جذبات کو کیسے ٹھیس پہنچے گی۔
واضح رہے کہ ”جے شری رام“ کا نعرہ محض ایک مذہبی نعرہ نہیں ہے، بلکہ آج کل یہ فرقہ وارانہ نفرت، کشیدگی، تصادم اور سماج میں انتشار پھیلانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گوکہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں اس طرح کا نعرہ لگانا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ عدالتوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا عمل کس مقصد کے تحت کیا گیا ہے اور کسی دوسرے طبقے کی عبادت گاہ میں دیر رات گئے داخل ہوکر نعرے لگانے کے پس پردہ کیا مقاصد کارفرما تھے۔ مسلمان ایک خدا کی عبادت اور بندگی کرتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، مساجد اسی کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی مندر یا کسی اور فرقہ کی عبادت گاہ میں داخل ہوکر نعرہ ”اللہ اکبر“ لگانے لگتا تو کیا وہاں موجود لوگ اسے برداشت کر لیتے؟ اور کیا اس وقت بھی عدالت کا فیصلہ یہی ہوتا؟