Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںآسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی شکست ۔۔ اے یو ڈی ایف...

آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی شکست ۔۔ اے یو ڈی ایف کا مستقبل دائو پر

آسام مائناریٹی میونائیٹڈ فورم کے بعدکیا اے یو ڈی ایف بھی ختم ہوجائے گی؟

انصاف نیوز آن لائن

لوک سبھا انتخابات میں ملک بھر سے چونکادینے والے نتائج سامنے آئے۔تاہم آسام میں دھوبری سے مولانا بدرالدین اجمل کی کانگریس کے امیدوار رقیب الحسن سے دس لاکھ ووٹو ں سے شکست نے ملک بھر کو حیران کردیا ہے۔مولانا بدرالدین اجمل تعلیمی و سماجی خدمات کی وجہ سے صرف آسام میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں مشہور ہیں ۔اس کے باوجود وہ دھوبری جہاں سے 2009سے ہی کامیاب ہوتے ہوئے آرہے تھے وہاں سے دس لاکھ سے شکست کا سامنا کرنا حیران کن ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر اجمل کو اتنی بڑی شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ انصاف نیوز آن لائن نے ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کیلئے آسام کے صحافیوں اور ماہرین سے بات کی ہےکہ اجمل کے قریبی حلقے کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اجمل کے خلاف سازش رچی گئی تھی مگر اس سازش پر اس وقت یقینا کیا جاسکتا تھا جب اجمل پانچ دس ہزار ووٹوں سے ہارتے مگر ان کے شکست کا مارجن دس لاکھ ووٹوں کا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ عوامی ناراضگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

اے یو ڈی ایف 2005میں مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک کردینے کے حکومت کے طرز کے عمل کے احتجاج میں وجود میں آئی تھی ۔قیام کے وقت اجمل کے ساتھ جمعیۃ علمائے ہند کے ساتھ ایک درجن مسلم سول سوسائٹی کی تنظیمیں شامل تھیں ۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اجمل کے پرانے ساتھی جس میں ایڈوکیٹ عبد الصمد، مشہور وکیل حافظ رشید احمد چودھری جنہوں نے اے یو ڈی ایف کےآئین کو مرتب کیا تھا وہ الگ ہوگئے ۔وقت گزرنے کے ساتھ اے یو ڈ ی ایف اجمل کی شخصیت حاوی ہوتی چلی گئی اور پھر یہ خاندانی سیاسی جماعت بن گئی ۔

اے یو ڈی ایف کے قیام کے وقت 5اہم ایشوز تھے جس میں مسلمانوں کو ووٹ سے محروم کرنے کی کوششوں کے خلاف جدو جہد، این آر سی کے دوران مسلمانوں کی مدد ، قانونی امداد پہنچانا ،مسلمانوں کی زمین کی حفاظت کرنااور دیگر ایشوز بھی شامل تھے۔آسام سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر اپنانا م ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر انصاف نیوز سے کہتے ہیں کہ اجمل بہتر ین سماجی کارکن، بہترین انسان، بہترین شخصیت کے حامل ہیں مگر سیاسی حکمت عملی اورسیاسی ویژن سے خالی ہیں ۔اس لئے انتخابات کے دوران کے اپنے بیانات سے بی جے پی کی فرقہ پرست سیاست کو فائدہ پہنچاتے رہے ہیں ۔سابق بیورو کریٹ کہتے ہیں کہ اہم مواقع پر اجمل کی غیر موجودگی بھی ووٹروں کو ناراض کردیا تھا دوسری طرف اجمل آسامی اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان فاصلے کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔

آسام کے مقامی صحافی حافظ پرویز معروف انصاف نیوز سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اجمل کی شکست سے آسام کی مسلم سیاست یقینا متاثر ہوگی اور اے یو ڈی ایف کا مستقبل کیا ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ بدرالدین اجمل کی شکست سے اے یو ڈی ایف کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے اور اس کیلئے کسی حدتک خود اجمل اور ان کے بھی سراج الدین اجمل ذمہ دار ہیں۔سراج الدین اجمل ایک سال قبل آسام کے وزیر ہیمانت بسواشرما کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ آسام کے سب سے بہترین وزیر اعلیٰ ہیں ۔ان کے اس بیان کی اے یو ڈی ایف نے تردید نہیں کی۔اس کی وجہ سے یہ تاثر قائم ہوگیا کہ اجمل اندرون خانہ بی جے پی کے ساتھ ہیں۔دوسری طرف اجمل کے پرانے ساتھی جس میں حافظ رشید احمد چودھری ، ایڈوکیٹ عبد الصمد اور دیگر سول سوسائٹی الگ ہوتی چلی گئیں ۔

اپنی شکست کے بعد پہلی مرتبہ رد عمل دیتے ہوئے مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ ہم اس کا تجزیہ کرنے میں اپنا وقت لیں گے کہ کیا غلط ہوا… ہم غور کریں گے، اور انکوائری بھی شروع کریں گے۔ جو کچھ بھی ہوا وہ ہمیں 2026 کے الیکشن لڑنے سے نہیں روک سکتا۔ ہم واپسی کریں گے۔انہوں نے جمعہ کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی، جس میں انہوں نے کہا کہ کہ وہ اتوار کو مکہ کی زیارت پر جائیں گے، اور دھوبری اور بارپیٹا حلقوں کے لیے شروع کیے گئے مکمل منصوبوں پر واپس آئیں گے۔اجمل نے جذباتی انداز میں کہیں گے نے کہا کہ قصور ہمارا ہی ہے۔ ہم اس قابل نہیں رہے کہ جس طرح ہمیں خدمت کرنی چاہیے تھی۔ جب میں حج سے واپس آؤں گا، میں ان تمام منصوبوں کو مکمل کروں گا جو میں نے اٹھائے تھے – بارپیٹا میں پل، دھوبری میں یونیورسٹی اور میڈیکل کالج، دھوبری اور بارپیٹا میں ہر ایک میں 100 بستروں کا اسپتال۔ شاید، ہم نے سیلاب اور کٹاؤ پر قابو پانے کے لیے کافی کام نہیں کیا، لیکن میں لوگوں کی حفاظت کے لیے دعا کروں گا۔انہوں نے اس حقیقت پر بھی فخر کیا کہ اجمل فاؤنڈیشن کے تحت اجمل سپر 40 کوچنگ سینٹر کے 500 سے زیادہ طلباء نے اس سال NEET امتحان میں کوالیفائی کیا ہے جن میں سے 60 کا تعلق دھوبری سے ہے۔ اجمل کا سپر 40 پروجیکٹ معاشرے کے پسماندہ طبقوں کے طلباء کو میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے تیار کرتا ہے۔

تاہم، 2011 کی مردم شماری کے مطابق، دھوبری میں خواندگی کی شرح محض 58.35فیصد ہے۔جب کہ آسام میں تعلیم کی شرح 72.19فیصد ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کافی اہم ہے۔
دھوبری جسے مغربی آسام کا گیٹ وے سمجھا جاتا ہے کا شاندار ماضی رہا ہے۔ قدیم ترین قصبوں میں سے ایک یہ تقسیم تک برطانوی راج کے تحت ایک اہم انتظامی مرکز تھا۔ دریائے برہم پترا دھوبری سے بہتا ہے۔یہ 1983 میں سات اسمبلی حلقوں کے ساتھ ایک ضلع بن گیا، جن میں سے چار ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد کے ساتھ واقع تھے۔ حد بندی کے عمل کے بعد، تین اسمبلی حلقے – گولک گنج، دھوبری اور مانکاچار – اب بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد کا اشتراک کرتے ہیں۔حد بندی کی مشق کے بعد، سیاسی ماہرین کا اندازہ ہے کہ دھوبری میں تقریباً 26 لاکھ ووٹرز ہیں، جن میں سے 13 لاکھ مشرقی بنگال کے ہیں، اور دیگر 8 لاکھ دیشی مسلمان ہیں (جسے مقامی سمجھا جاتا ہے)۔ تقریباً 4.8لاکھ ہندو ووٹر بھی ہیں۔

اجمل کی کانگریس کے ہاتھو ں رقیب الحسن کی شکست کے بعد کانگریس کے خیمے میں جشن کا ماحول ہے۔جب کہ کانگریس نے ریاست میں محض تین سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے۔ جورہاٹ، دھوبری اور ناگائوں۔اس شکست کے بعد آسام کے بنگالی مہاجروں میں بدرالدین اجمل کی مسیحا جیسی شبیہ کو سخت نقصان پہنچا ہے۔کیونکہ کانگریس کے پرانے گھوڑے رقیب الحسین نے دھوبری میں بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ دھوبری کی جیت کے ساتھ عظیم پرانی پارٹی یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی ہے کہ اجمل ایک ’’بوڑھا شیر’’ ہے اور AIUDF بی جے پی کی “B ٹیم” ہے۔ عظیم پرانی پارٹی ووٹروں کو یہ بتانے میں کامیاب رہی کہ اگر وہ ریاست میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے اجمل کو روکنا ہوگا۔

آسام سے تعلق رکھنے والے ایک اسکالر سبھرانگشو پرتیم سرما نے اجمل کے نقصان کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل ریاست میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں میں مقبولیت میں نمایا ں کمی ہے۔ کانگریسی لیڈران اس بات کو گھر پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں کہ صرف کانگریس ہی ریاست میں بنگالی بولنے والے عوام کی حقیقی نمائندہ ہو سکتی ہے۔ مہم کے دوران پارٹی یہ بھی بتانے میں کامیاب رہی کہ ریاست میں بی جے پی اور اے آئی یو ڈی ایف کی قیادت کے درمیان خفیہ سمجھوتہ ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اجمل کے شکست کی وجوہات کثیر جہتی ہیں۔ سیاسی مبصرین اجمل کے قائدانہ انداز پر رائے دہندگان میں بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جسے بعض ناقدین نے اس کے حلقوں کی ضروریات اور خواہشات سے بڑھتے ہوئے رابطے سے باہر قرار دیا ہے۔اجمل کا نقصان نہ صرف ایک ذاتی دھچکا ہے بلکہ AIUDF کے لیے بھی ایک اہم دھچکا ہے۔ پارٹی کو اب اپنی بنیاد کو دوبارہ بنانے اور دھوبری اور اس سے باہر کے ووٹروں سے دوبارہ جڑنے کا چیلنج درپیش ہے۔

دھوبری کو بنگالی بولنے والے مہاجر مسلمانوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ہے۔ وسطی آسام کے کچھ حصوں میں اقتدار حاصل کرنے والے حسین کے لیے یہ ان کا پہلا پارلیمانی انتخاب ہے۔ دہائیوں سے کانگریس دھوبری اور اس سے ملحقہ گولپارہ اور بارپیٹا اضلاع میں بااثر رہی ہے۔ پھر، اس نے آہستہ آہستہ AIUDF کو جگہ کھو دی۔ حسین کی جیت کانگریس کے لیے کھوئی ہوئی زمین کو دوبارہ حاصل کرنے کی طرف پہلا قدم ہو سکتاہے۔

زعفرانی پارٹی نے 13 نشستیں حاصل کیں جبکہ آسام میں اس کے اتحادیوں، آسام گنا پریشد (اے جی پی) اور یونائیٹڈ پیپلز پارٹی لبرل (یو پی پی ایل) نے ایک ایک نشست حاصل کی، جس سے این ڈی اے کی تعداد 15 ہوگئی۔ دوسری طرف کانگریس نے سات نشستیں جیتیں۔ ایک ایک سیٹ وائس آف پیپلز پارٹی (VPP) اور زورم پیپلز موومنٹ (ZPM) نے جیتی، جو علاقائی پارٹیاں NDA یا انڈیا بلاک کا حصہ نہیں ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین