نئی دہلی: امریکہ کی عدالت میں گوتم اڈانی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف عائد الزامات کے بعد کانگریس پارٹی کی جانب سے ایک اہم پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں لوک سبھا کے قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے اڈانی گروپ کے حوالے سے تازہ ترین الزامات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے اڈانی کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا اور کانگریس پارٹی کی جانب سے اڈانی گروپ کے خلاف تحقیقات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے قیام کے مطالبہ کو بھی دہرایا۔
راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں گوتم اڈانی کے خلاف امریکی عدالت میں عائد فرد جرم پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ اڈانی نے امریکی اور ہندوستانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ اڈانی اب تک ہندوستان میں آزادانہ طور پر گھوم رہے ہیں، جبکہ ماضی میں کئی وزرائے اعلیٰ اور عام افراد کو معمولی معاملات میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
راہل گاندھی نے الزام عائد کیا کہ اڈانی نے 2000 کروڑ روپے کا ایک اور دیگر کئی گھوٹالے کیے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ ’’نریندر مودی نے نعرہ دیا تھا کہ ایک ہیں تو سیف ہیں، دراصل، انڈیا میں نریندر مودی اور اڈانی ایک ہیں تو سیف ہیں!‘‘
انہوں نے وزیر اعظم مودی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اڈانی کو وزیر اعظم کی حمایت حاصل ہے، جس کی وجہ سے انہیں کسی بھی تحقیقات سے بچایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’وزرائے اعلیٰ کو معمولی رقم کے الزامات پر جیل بھیج دیا جاتا ہے لیکن اڈانی جیسے افراد آزاد گھوم رہے ہیں، جو وزیر اعظم کی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔‘‘
راہل گاندھی نے مطالبہ کیا کہ گوتم اڈانی کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) کی سربراہ مادھبی پوری بچ کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے، کیونکہ ان کے خلاف کارروائی نہ ہونا سیبی کی غیر مؤثر کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس اس معاملے پر مسلسل آواز اٹھاتی رہے گی اور مادھبی پوری بچ کے کردار پر بھی سوال اٹھائے گی۔ راہل گاندھی نے زور دیا کہ حکومت کو جوابدہ بنایا جائے اور ملک کے عوام کو سچائی سے آگاہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ گوتم اڈانی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف امریکی عدالت میں فرد جرم عائد کی گئی ہے جس میں ان پر حکومت ہند کے حکام کو رشوت دینے اور اڈانی گروپ کے لیے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھانے کے الزامات ہیں۔ ان الزامات میں یہ بھی شامل ہے کہ اڈانی نے ہندوستانی حکومتی افسران سے مل کر سولر انرجی کے منصوبوں کے لیے رشوت لی۔ اس کے بعد کانگریس پارٹی نے دوبارہ اپنے مطالبات کو سامنے لاتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی حکومت اور ادارے اس مسئلے پر ایک موثر اور شفاف تحقیقات کے عمل کو یقینی بنائیں۔
قبل ازیں، کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری انچارج شعبہ مواصلات جے رام رمیش نے بھی گوتم اڈانی اور ان کے ساتھیوں پر امریکی سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) کی جانب سے عائد الزامات کے حوالے سے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فرد جرم سے کانگریس کی اس سال جنوری میں کی گئی وہ مانگ درست ثابت ہو گئی ہے، جس میں پارٹی نے اڈانی گروپ کے مختلف گھوٹالوں کی تحقیقات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ رمیش نے مزید کہا کہ کانگریس نے اس معاملے پر پہلے ہی 100 سوالات اٹھائے تھے جن کا اب تک جواب نہیں دیا گیا۔
جے رام رمیش نے اڈانی گروپ کی ہندوستانی اداروں کی جانب سے تحقیقات میں ناکامی اور اس کے نتائج پر بھی کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اداروں نے جس طرح اڈانی کے خلاف تحقیقات کیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی ادارے مودی حکومت کے زیر اثر آ چکے ہیں، جس کی وجہ سے اڈانی کے خلاف حقیقی تحقیقات ممکن نہیں ہو سکیں۔
اس سے قبل اڈانی گرین انرجی لمیٹڈ (اے جی ای ایل) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور اڈانی گروپ لیڈرشپ کے اہم رکن ساگر اڈانی اس وقت توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ دراصل ان پر رشوت ستانی کے ایک اہم معاملے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ امریکی حکام کے ذریعہ 2023 کی ایک تحقیقات میں اڈانی گروپ کے کئی اعلیٰ عہدیداروں کو ہدف بنایا گیا ہے۔ اس خبر نے ہندوستان کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ’اڈانی گروپ‘ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
امریکہ میں گوتم اڈانی پر رشوت، مالی بدعنوانی اور قوانین کی خلاف ورزی کی فرد جرم عائد
ساگر اڈانی نے براؤن یونیورسٹی (امریکہ) سے اکنامکس میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد 2015 میں اڈانی گروپ میں شمولیت حاصل کی۔ یہاں ساگر نے پروجیکٹ مینجمنٹ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے ’اے جی ای ایل‘ میں قابل تجدید توانائی کے پورٹ فولیو کی تشکیل میں اہم کردار نبھایا۔ اس میں سورج کی روشنی اور ہوا سے توانائی پیدا کرنے والے پروجیکٹس کی ایک وسیع رینج شامل ہے۔ ساگر اڈانی سالوں سے کمپنی کی اسٹریٹجک ترقی اور مالیاتی امور کو آگے بڑھانے میں اہم کردار نبھا رہے ہیں، تاکہ اے جی ای ایل کو پائیدار توانائی کے حل میں رہنما کے طور پر قائم کیا جا سکے۔
اس درمیان تازہ ترین صورت حال نے ساگر اڈانی کی کامیابیوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ مارچ 2023 میں انھیں ایک گرانڈ جوری (جج) کے ذریعہ سمن بھیجا گیا اور امریکی افسران کے ذریعہ ایک سرچ وارنٹ پر عمل درآمد کیا گیا۔ اس سے ساگر کے پاس موجود الیکٹرانک آلات کو ضبط کرنے کی اجازت مل گئی۔ وارنٹ میں تجارتی فوائد حاصل کرنے کے لیے ہندوستانی سرکاری افسران کو رشوت یا دیگر لالچ کی شکل میں مبینہ ادائیگیوں سے متعلق ثبوت کی ضرورت کو نشان زد کیا گیا تھا۔ یہ الزامات ایف سی پی اے (بیرون ملکی بدعنوانی پریکٹس ایکٹ) کی خلاف ورزی اور اڈانی گروپ کے ذریعہ ممکنہ سیکورٹیز دھوکہ دہی کی وسیع جانچ کا حصہ ہیں۔
اڈانی کے شیئرز میں کہرام، 20 فیصد تک کی گراوٹ
اس جانچ نے فنانشیل مارکیٹ میں کھلبلی مچا دی ہے اور اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شیئرس کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں ساگر اڈانی کی قابل ذکر کارگزاری کے باوجود انھیں جانچ کا سامنا ہے۔ اس سے ساگر کے کیریئر کی رفتار متاثر ہو سکتی ہے اور عالمی سطح پر اڈانی گروپ کی موجودہ حالت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
ہندوستان کے بڑے شیئر بازاروں میں ایک بار پھر گراوٹ درج کی گئی اور سینسیکس و نِفٹی کے اہم انڈیکس نیچے گر گئے۔ اس دوران ارب پتی گوتم اڈانی کی کمپنیوں کے شیئرز میں خاصی کمی دیکھنے کو ملی۔ امریکہ سے آئی ایک رپورٹ کے بعد اڈانی گروپ کے شیئرز میں بڑی گراوٹ آئی، جس میں گروپ کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس خبر نے سرمایہ کاروں میں بے چینی پیدا کی اور ان کے شیئرز میں 20 فیصد تک کی کمی دیکھی گئی۔
امریکی الزامات کے مطابق، اڈانی گروپ کی کمپنی اڈانی گرین انرجی نے سولر انرجی پروجیکٹس کے لیے 265 ملین ڈالر (تقریباً 2236 کروڑ روپے) رشوت دینے کی کوشش کی تھی تاکہ ان پروجیکٹس کے لیے معاہدے حاصل کیے جا سکیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ رشوت چھپانے کی کوشش کی گئی تھی۔ امریکی حکام نے گوتم اڈانی، ان کے بھائی ساگر اڈانی اور کمپنی کے دیگر بورڈ ممبروں کے خلاف الزامات عائد کیے ہیں۔
اڈانی گروپ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹے ہیں اور اس معاملے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ گروپ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی عدالت نے ان کے بورڈ ممبران کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، تاہم وہ اس معاملے میں عدالت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
امریکہ سے آئی اس رپورٹ کے بعد اڈانی گروپ کے شیئرز میں گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔ 21 نومبر کو بامبے اسٹاک ایکسچینج (بی ایس ای) کا سینسیکس انڈیکس 400 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 77110 پر کھلا۔ اس دوران، نیشنل اسٹاک ایکسچینج (این ایس ای) کا نِفٹی انڈیکس بھی 124 پوائنٹس کم ہو کر 23383 پر پہنچ گیا۔ جب کاروبار بڑھا تو یہ گراوٹ اور تیز ہو گئی اور سینسیکس 600 پوائنٹس سے زیادہ گر گیا۔ اڈانی گروپ کے شیئرز میں شدید کمی آئی، جیسے اڈانی گرین انرجی (20 فیصد)، اڈانی پاور (13.75 فیصد)، اڈانی پورٹس (10 فیصد) اور اڈانی وِلمار (9.51 فیصد) کے شیئرز میں کمی دیکھی گئی۔