سنبھل : انصاف نیوز آن لائن
اترپردیش کے سنبھل میںشاہی جامع مسجد کے سروے کے خلاف احتجاج کرنے والے مقامی لوگوں پر اتر پردیش پولیس کی فائرنگ کے بعد اتوار کو سنبھل میں کم از کم تین مسلم نوجوانوں کی موت ہوگئی ہے۔مقامی لوگوں نے عدالت کے حکم پر سروے ٹیم کے خلاف مزاحمت کے بعد کشیدگی پھیل گئی۔اس کے نتیجے میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔
ہلاک ہونے والوں کی شناخت نعمان، نعیم (28) اور محمد بلال انصاری (25) کے طور پر ہوئی ہے۔ اے بی پی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق، سی او انوج چودھری نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مقامی عدالت کے مقرر کردہ کمشنر اور ان کی ٹیم کے چھ ارکان صبح سات بجے کے قریب دوسرے سروے کے لیے مسجد میں داخل ہوئے۔ ایک مبینہ ویڈیو میں سروے ٹیم کے ارکان کو ہندوتوا گروپ کے ساتھ نعرے لگاتے دکھایا گیا ہے۔
پہلا سروے 19 نومبر کو کیا گیا تھا۔یہ سروے ہندتوگروپوں کی شکایت پر مبنی عدالتی حکم کے بعد کیا گیا۔اس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مغلوں نے تاریخی مسجد کی تعمیر کے لیے ایک مندر کو منہدم کیاتھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہندوتوا گروپ کے ارکان سروے ٹیم کے ساتھ تھے۔
سنبھل کے سول جج کی عدالت میں سینئر ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین کی طرف سے دائر کی گئی ایک عرضی کے بعد یہ سروے مبینہ طور پر منگل کی شام کو عدالت کے حکم کے چند گھنٹے بعد شروع ہوا تھا۔عدالت نے اس سروے کی نگرانی کے لیے وکیل رمیش راگھو کو ایڈوکیٹ کمشنر مقرر کیا تھا، جو ضلع مجسٹریٹ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی میں کیا گیا تھا۔
جامع مسجد 16ویں صدی کی مغلیہ دور کی مسجد ہے۔ اس مسجد کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے پہلے مغل بادشاہ بابر کی ہدایت پر تعمیر کیا گیا تھا، سنبھل ضلع کی سرکاری ویب سائٹ پر اسے ’’تاریخی یادگار‘‘ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کےصدر مولانا محمود اسعد مدنی نےسنبھل ( یوپی ) کی جامع مسجد سرو ے کے دوران پولس فائرنگ میں تین مسلم نوجوانوں کے مجرمانہ قتل اور پرتشدد صورت حال پر سخت ناراضی اور گہرے رنج و الم کا اظہار کیا ہے۔ مولانا مدنی نے اس صورت حال کے لیے اترپردیش حکومت او رپولس انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم پرتشدد رویہ اختیار کرنے والے کسی فریق کے ساتھ نہیں ہیں ، لیکن پولس انتظامیہ کے اس اقدام کو ظالمانہ اور تفریق پر مبنی عمل سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے تین لوگوں کی جانیں چلی گئیں ۔ چاہے کسی بھی مذہب ، ذات اور عقیدے سے تعلق رکھنے والا انسان ہو ، اس کو ملک کے آئین میں یکساں طور پر جینے کا حق حاصل ہے۔ اگر کوئی حکومت تفریق پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہوئے کسی مخصوص طبقے کی عزت اور جان و مال کو کم تر سمجھتی ہے تو وہ ملک کے آئین اور قانون کو پامال کرنے کی قصور وار ہے ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند نے پہلے بھی خبردار کیا تھا کہ جو لوگ مسجدوں میں مندر تلاشتے پھر رہے ہیں ، وہ درحقیقت ملک کے امن وامان کے دشمن ہیں ، آج جو کچھ بھی ہوا ، اس نے ہمارے موقف کی تصدیق کردی ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سنبھل کے لوگوں نے پہلے دن ہوئے سروے کے دوران عدالت کی ٹیم کے ساتھ تعاون کیا تھا اور کسی طرح کی مخالفت نہیں کی گئی۔ لیکن آج جب سروے کمشنر جارہے تھے تو اطلاعات کے مطابق سروے ٹیم کے ساتھ موجود کچھ افراد نے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے نعرے لگائے، جس سے ماحول خراب ہوا اور پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔انھوں نے سوال اٹھایا کہ آخر پولس انتظامیہ نے ایسے لوگوں کو سروے ٹیم کے ساتھ جامع مسجد جانے کی اجازت کیوں دی اور پھر ان کو نعرے لگانے اور ایک کمیونٹی کو بھڑکانے سے کیوں نہیں روکا ؟
مولانا مدنی نے کہا کہ مقامی عالت نے مسجد فریق کے موقف کو سنے بغیر جس طرح فوری سروے کا حکم دیدیا ، اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا ، اونچی عدالتوں میں یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہ فیصلہ ملک کے قانونی نظام اور عبات گاہوں کو لے کر مذہبی حساسیت کے خلاف ہے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ آئین کے تحت تمام مذہبی مقامات کی 1947 والی حیثیت کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہےجو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے بہت ضروری امر ہے ۔ اسے سیاسی یا نظریاتی مقاصد کے لیے بگاڑنے کے خلاف متحدہ آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہم حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ امن وامان کو ترجیح دیں اور سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔جمعیۃ علماء ہند مطالبہ کرتی ہے کہ عدالت کی نگرانی میں پورے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق کر کے قصوروار پولس افسران کو سزا دی جائےاور جولوگ مارے گئے ہیں ان کے اہل خانہ کو انصاف ملے۔ جمعیۃ علماء ہند لوگوں سے امن وامان بنائے رکھنے کی اپیل کرتی ہے اور مغموم اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتی ہے ۔ اس درمیان جمعیۃ علماء ہند کے جنرل مولانا حکیم الدین قاسمی سنبھل کے ذمہ دار لوگوں کے رابطے میں ہیں اور لگاتار امن وامان کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔