کلکتہ، 15 نومبر (انصاف نیو ز آن لائن)
اسلام اور ہندو ازم کو دہشت سے جوڑنے والے بیان پر ریاستی وزیر فرد حکیم نے آج ٹوئیٹ کرتے ہوئے وضاحت دی ہے کہ میرے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا ہے جب کہ میں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں اور اسلام میرا مذہب ہے جو امن کا مذہب ہے اور تمام مذاہب کااحترام سکھاتا ہے۔
خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل بدھشٹ کے ایک پروگرام میں شرکت کے بعد میڈیا اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے ریاستی وزیر نے کہا کہ ہندتو اور اسلام میں تشدد ہے اور پوری دنیا ا ن دونوں کے تشدد سے پریشا ن ہے۔گاندھی جی نے اہنسا کی تعلیم بدھ ازم سے لی تھی اور بدھ ازم کی راہ پر چل کر ہی دنیامیں امن لایا جاسکتا ہے۔
I respect all religions, and if my words have hurt anyone’s sentiments, my apologies. I didn’t mean that, my statement was misinterpreted.
My religion Islam is a religion of peace & teaches me to respect humanity & every other religion.— FIRHAD HAKIM (@FirhadHakim) November 15, 2021
ممتا بنرجی کے کابینہ کے مسلم چہرہ کے طورپرمعروف فرہاد حکیم کے اس بیان پر کلکتہ کے مسلم حلقے میں بے چینی تھی۔گرچہ کلکتہ شہر کے مشہور علمائے کرام نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے مگر سوشل میڈیا پر اس پر تبصرہ ہونے لگے تھے۔یہ معاملے دھیرے دھیرے طول پکڑرہا تھا۔مسلم تنظیموں کی ایک ہفتے تک خاموشی کے بعدآج اچانک مغربی بنگال جماعت اسلامی کے ایک وفد ریاستی وزیر فرہاد حکیم کی رہائش گاہ جاکرخط سونپا اور انہیں چند کتابیں سونپیں۔اس کے چند گھنٹوں بعد ہی جماعت اسلامی یہ دعویٰ کرنے لگی ان کے خط کی وجہ سے ریاستی وزیر نے معافی مانگی ہے۔اشرافیہ طبقے کی نمائندگی کرنے والی جماعت نے آنا فانا میں سوشل میڈیا پر کریڈٹ لینے لگی اورمبارک باد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
جب کہ جماعت اسلامی سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ وہ 8دنوں تک کہاں تھی؟ جب ایک شخص کھلے عام اسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑے اور اب وضاحت میں کہے کہ اس کے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا ہےتو پھر وہ 8دنوں تک کس بات کا انتظار کررہی تھی۔کیا وہ ریاستی وزیر کے اثر و رسوخ کی وجہ سے خوف کے شکار تھے۔
اس سے قبل کانگریس کے سینئر لیڈر سید شاہد امام نے ریاستی وزیر فرہاد حکیم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فرہاد کے اس بیا ن پر انہیں کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔پہلے بھی وہ اپنی مذہبی شناخت سے رضاکارانہ طور پر دست برداری کرچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر فرہاد حکیم کے اس بیا ن پر کوئی رد عمل نہیں دیا گیا تو اس بیانیہ کوعام لوگ بھی اختیار کرلیں گے۔
کلکتہ شہر کے مشہور سماجی کارکن عبد العزیز نے فرہادحکیم نے اس بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے لیڈروں کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مسلم کے نام پر سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہیں مگراسلام اور مسلمانوں کو بدنام بھی کرتے ہیں۔
کلکتہ شہر کے ایک مسجد کے امام مولانا اشرف علی قاسمی نے کہا کہ فرہاد حکیم کے بیان پر مسلم علما کی خاموشی حیرت انگیز ہے۔اس سے قبل سیاسی لیڈروں یاپھر عام شخصیات کے متنازع بیانات پر علمائے کرام نے سخت تیور دکھایا گیا ہے۔مگر ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود نہ علمائے کرام نے کوئی ردعمل دیا ہے اور نہ ریاستی وزیر فرہاد حکیم نے کوئی وضاحت پیش کی ہے۔