Saturday, July 27, 2024
homeخصوصی کالماپنے مذہب’ہندو مت‘ سے خوش ہوں پھر مجھے ہندوتو کی کیا ضرورت...

اپنے مذہب’ہندو مت‘ سے خوش ہوں پھر مجھے ہندوتو کی کیا ضرورت ہے

پی چدمبرم ترجمہ : عبد العزیز
آج21.11.2021)) انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس میں سابق وزیر خزانہ اور سابق وزیر داخلہ مسٹر پی چدمبرم کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ مضمون کا عنوان ہےHappy With My Hinduism(اپنے ہندو مذہب سے خوش ہوں)۔ اپنے اس مضمون میں صاحبِ مضمون نے تامل ناڈو کے ایک مشہور شاعر کنیان پُن گن رانر کی ایک نظم کا ذکر کیا ہے۔ نظم کی پہلی سطر کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا ہے :”ہر جگہ ہر مقام میرا گاو¿ں ہے۔ ہر ایک سے میرا رشتہ ہے۔“ کوئی شاعر ، ادیب یا دانشور ، اگر کوئی بات بغیر کسی تصنع اور تعصب کے کہتا ہے تو اس میں سچائی ہوتی ہے۔ تامل ناڈو کے شاعر کا یہ کہنا کہ” ہر گاو¿ں اس کا گاو¿ں ہے، اور ہر ایک سے اس کا رشتہ ہے“۔ سچائی اور صداقت کا شاہکار ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ” لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہیں قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تم سے سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔“ ( سورہ الحجرات، آیت:13)

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کی اصل ایک ہے۔ ایک ہی مرد اور عورت سے سارے انسان وجود میں آئے ہیں۔ آج دنیا میں جتنی نسلیں پائی جاتی ہیں وہ سب ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں باپ سے شروع ہوئی تھی، اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی تفرقے اور اونچ نیچ میں کوئی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ ایک ہی خاندان سے سارے ماں باپ تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ہی مادہ ¿ تخلیق سے سب بنے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کچھ انسان پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بنے ہوں۔ ایک ہی طرح سے تمام انسان پیدا ہوئے ہیں یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کے طریقہ پیدائش الگ الگ ہوں اور ایک ہی ماں باپ کی سارے لوگ اولاد ہیں۔ یہ بھی نہیں ہوا ہے کہ ابتدائی انسانی جوڑے بہت سے رہے ہوں۔ جن سے دنیا کے مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں۔ اسلام کی اس آفاقی تعلیم کا مطلب یہی ہے کہ ہر ایک انسان کا ایک دوسرے انسان سے رشتہ اور تعلق ہے۔ تامل ناڈ وکے مشہور شاعر نے اسی بات کو اپنے الفاظ و زبان میں پیش کیا۔ مسٹر چدمبرم نے ان کی نظم کے ایک سطر کے بارے میں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی در و دیوار پر تامل ناڈ کے اس شاعر کی نظم کی پہلی سطر سنہرے حرفوں سے لکھی گئی ہے۔ جو لوگ اپنے اپنے ملکوں کے چمپئن یا قومی ہیرو تھے وہی لوگ اقوام متحدہ کے ہیرو اورچمپئن بنے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ” اصل تہذیب احترامِ آدم است(اصل تہذیب انسان کا احترام ہے)۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اقوام کا تحاد ممکن نہیں ہے۔ اتحادِ آدمیت اور اتحادِ انسانیت ہی ممکن ہے۔ مسٹر چدمبرم نے آج کے حالات میں جو مضمون لکھا ہے وہ بہت ہی پُر اثر اور جامع ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو:
میں تامل ناڈ کے ایک گاو¿ں جو اس وقت کیو گنگئی ضلع میں واقع ہے، پہلے یہ راما ناتھا پورم ضلع میں تھا۔ مجھے فخر ہے کہ کنیان پُن گن رانر ( مہی پالن پٹی) گاو¿ں میں پیدا ہوئے جو میرے گاو¿ں سے چند میل دوری پر واقع ہے۔ وہ سنگم لٹریچر کے دور میں پیدا ہوئے۔ جو زمانہ تیسری صدی بی سی اور چوتھی اے ڈی کے درمیان پایا جاتاہے۔ موصوف اپنی تیرہ سطور پر مشتمل ایک نظم کی وجہ سے کافی مشہور و معروف ہیں۔ نظم جن الفاظ میں شروع ہوتی ہے اس کا سیدھا سادہ ترجمہ کچھ اس طرح ہے۔ ”ہر مقام اور ہر جگہ میرا گاو¿ں ہے اور سب سے میرا رشتہ ہے۔“ نظم میں اور ہیرے جواہرات ہیں جو قابل ذکر ہیں۔ اقوام متحدہ کی دیوار پر نظم کی پہلی سطر سنہرے حرفوں سے لکھی ہوئی ہے ۔ یہ نظم تامل ناڈو کی دو ہزار سالہ زمانے اور اس سے پہلے کے زمانے کا آئینہ دار ہے۔ تامل لٹریچر میں سیوم اور ویشنادم مذاہب کا ریکارڈ ملتا ہے ۔ جین مت اور بدھ مت اس کے بعد کے مذاہب ہیں ہندو یاہندو ازم کی اصطلاح یا لفظ تامل لٹریچر میں نہیں پایا جاتا ہے۔مسٹر ششی تھرور کے مطابق ”کسی بھی ہندوستانی زبان یا لٹریچر میں ہندو ازم یا ہندو کی اصطلاح یا لفظ نہیں پایا جاتا ہے جب تک ملک بیرونی زبان یا بیرونی لٹریچر میں ہندو یا ہندو ازم کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ اس کا استعمال ہندوستان کی کسی زبان میں نہیں ہوتا تھا۔ بہت سے تامل ہندو ازم پر عمل کر نے والے خاندانواں میں پیدا ہوئے وہ بہت سارے خداو¿ں اور اپنے گاو¿ں کے دیوی دیوتاو¿ں کی پوجا کرتے ہیں۔ پونگل اور دیو پاولی مناتے ہیں اور رسومات جیسے پونگل اور پال کوڈم او رکواڈی بھی مانتے ہیں اور مناتے ہیں۔ تامل ہندو تقریباً دو ہزار سال سے عیسائیوں اور آٹھ سو سال سے مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں مسلمانوں اور عیسائیوں نے تامل لٹریچر کو مالا مال کرنے میں بہت بڑا کر دار ادا کیا ہے۔ میری معلومات کی حد تک کسی تامل راجہ نے کسی دوسرے مذہب پر برتری قائم کرنے کے لئے کوئی لڑائی نہیں کی۔
ہندو ازم ایک قابل احترام نام کے علاوہ کیا ہے؟ میں نے ڈاکٹر رادھا کرشنن اور سوامی وویکا نند کی کتابیں پڑھی ہیں۔میںسب نے ان کتابوں کے مطالعہ کے بعد کبھی بھی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جو کچھ میں نے سنا ، پڑھا، معلومات حاصل کی اس سے سمجھا کہ ہندو ازم (ہندو مت) میرے نزدیک کیا ہے؟ چند عبارتوں میں اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
سادہ سچائی: ہندو مت کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہی وچا مذہب ہے۔ وویکا نند نے کہا ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتا ہوں جو مجھے تحمل اور آفاقیت کا درس دیتا ہے۔ میں نہ صرف آفاقی تحمل پر یقین رکھتا ہوں بلکہ میں مانتا ہوں کہ تمام مذاہب سچے ہیں۔ ہندو مت میں ایک چرچ، ایک پوپ، ایک پیغمبر، ایک آسمانی کتاب، عبادت اور وراثت کا ایک طور طریقہ نہیں پایا جاتا ہے۔ کچھ اسکالر کہتے ہیں ہندو جیسے ہندو مت پر یقین رکھتا ہے وہ بھی ہندو ہے جیسے کوئی یقین ہندو مت پر نہیں رکھتا۔ دہریہ یا لا مذپہب ہے وہ بھی ہندو ہو سکتا ہے۔
اس کا سیکولر پہلو: ہندو مت میں شادی بیاہ کے نظام یا وراثت کا ایک طور طریقہ نہیں پایا جاتا ہے۔1955-1956 میں ہندوقانون کا ریفارم(اصلاح) ہوا یکسانیت کی کوشش کی گئی لیکن آج بھی مختلف قسم کے ریتی رواج پائے جاتے ہیں۔ ہندو مت ہندوو¿ں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسرے خداو¿ں اور سنتوں کی پوجا پاٹ کر سکتے ہیں ۔ ہزاروں ہندو ویالیکاتی، گولڈن ٹمپل امرتسر جاتے ہیں اور اجمیر شریف جا کر عقیدت کے پھول چڑھاتے ہیں۔ تاریخ دان اس نکتہ پر اتفاق نہیں رکھتے کہ سائیں بابا ہندو تھے یا مسلمان۔ غالباً وہ ہندو بھی تھے او رمسلمان ا سلئے کہ ان کو دونوں میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیتا تھا۔ ان کا ایک مشہور قول ہے کہ ”اللہ مالک ہے۔“
= ڈاکٹر ونڈی ڈونیگر جو شکا گو میں مذاہب کی تاریخ کے پروفیسر ہیں جنہوں نے سنسکرت اور قدیم ہندوستانی مذہب کا پچاس سال تک مطالعہ کیا ہے ان کا مشاہدہ ہے کہ ”صدیوں سے اسکالر کہتے اور لکھتے رہے ہیں کہ قدیم زمانے کے ہندو گائے کا گوشت کھاتے تھے۔ انہوں نے رگ وید، برہما منس،یحنا ویلکیا اور ایم این سرنوس کاحوالہ بھی دیا ہے اس وقت بہت ہند وگوشت اور انڈا استعمال کرتے ہیں مگر گائے کا گوشت نہیں کھاتے بہت سے ہندو سبزی خور ہیں۔
ڈاکٹر ڈونی گر نے لکھا ہے کہ گاندھی جی نے کبھی بھی گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کرنے کی بات نہیں کہی۔ گاندھی جی کہتے تھے کہ ”میں کیسے زبردستی ان کو گائے کا گوشت کھانے سے روک سکتا ہوں جب تک وہ خود نہ رک جائیں۔ ہندوستان میں صرف ہندونہیں رہتے ہیں۔ یہاں مسلمان، پارسی ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ بہت سے مسلمان اور عیسائی گائے کا گوشت استعمال نہیں کرتے اور بہت سے غیر سبزی خور سور کا گوشت نہیں کھاتے۔
مجھے ہندوتو کی کوئی ضرورت نہیں ہے: بابا صاحب امبیڈ کر نے انڈین کانگریس(1985) سے الگ ہونے کے بعد نیشنل سوشل کانفرنس(1887) کی بنیاد ڈالی۔1936 میں ڈاکٹر بی آر امبیڈ کر اپنی غیر تقسیم شدہ تقریر ”ذات پات کی بربادی“(1936) میںAnnihilation of Caste میں دونوں جماعتوں کے تنازعے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ” سیاسی مصلح (ریفارمر) نے سماجی مصلح کو شکست دیدی ہے۔ جیسے لوگ بھی سیاسی اقتدار کے لئے موزوں ہو سکتے ہیں جو دوسروں کو ان کے مطابق کپڑے یا زیور پہننے کی اجازت نہیں دے سکتے اور ایسے لوگ بھی سیاسی اقتدار کی کرسی پر فائز رہنے کے لئے موزوں ہیں جو دوسروں کو وہ چیز کھانے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کھانا پسند کرتے ہیں۔
آج بھی یہ سوالات ختم نہیں ہوئے ہیں مگر پس منظر کچھ بدل سا گیا ہے مسٹر ششی تھرور جیسا کہ کہتے ہیں:” میں ہندو پیدا ہوا، ہندو مت میں میری پر ورش ہوئی اور زندگی بھر اپنے آپ کو ہندو سمجھتا رہا۔ میو سروے میں بتایا گیا کہ81.3 لوگوں نے ہندوستان میں اپنے آپ کو ہندو بتایا ہے جو اپنے کو ہندو کہتے ہیں اور اپنی شناخت ہندو بتاتے ہیں انہی میں سے ایک ہندو میں بھی ہوں۔ میں اپنے ہندو مذہب سے خوش ہوں اور کنیان پُن گن رانر کی اس سیدھی سادی بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ”سب سے میرا رشتہ ہے۔“ پھر مجھے کیوں ہندو تو کی ضرورت ہو؟ (اس مضمون کو لوگوں میں تقسیم کیا جائے، خاص طور سے ہندو بھائیوں میں تو ماحول اچھا ہو سکتا ہے۔ دیگر زبانوں میں ترجمہ کے بعد)

متعلقہ خبریں

تازہ ترین