انصاف نیوز آن لائن
کینیا کے شہر نیروبی کی توئی مارکیٹ میں چاولوں کا کاروبار کرنے والے دوکاندار فرانسس ندیگے چاولوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پریشان ہیں ۔ انہیں خدشہ ہے کہ افریقہ کی سب سے بڑی کچی آبادی میں ان کے صارفین چاول خریدنا بند کر دیں گے۔
کھاد کی قیمتوں میں اضافے اور قرن افریقہ میں برسوں سے جاری خشک سالی کی وجہ سے کینیا میں کاشت کیے جانے والے چاولوں کی پیداوار کم ہوئی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ۔
بھارت سے درآمد کیے گئے چاولوں کی کم قیمت نے اس خلا کو پُر کر دیا تھا اور نیروبی کی کبیرا کچی آبادی کے لاکھوں رہائشیوں میں سے متعدد افراد کو کھانا میسر ہوا تھا جن کی گزراوقات روزانہ دو ڈالر سے بھی کم پر منحصر ہے ۔لیکن اب یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور 25 کلوگرام (55 پاؤنڈ) چاول کے تھیلے کی قیمت میں جون کے بعد سے پانچویں بار اضافہ ہوا ہے۔ چاول فروخت کرنے والوں کو ابھی تک نئے سٹاک موصول نہیں ہوئے ہیں۔
بھارت کی جانب سے چاول کی برآمدات پر جزوی پابندی کے بعد دنیا بھر کو فراہم کئے جانے والے چاولوں کی سپلائی میں پانچ حصے کمی واقع ہو گئی ہے۔
دنیا کے کئی ملک چاولوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش میں اضافی چاول خرید کر ذخیرہ کررہے ہیں ، دوسری طرف ایل نینو موسمی رجحان کے نتیجے میں بھی چاولوں کی پیداوار متاثر ہوئی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
عالمی غذائی تحفظ کو پہلے ہی خطرے کا سامنا ہے ۔ روس نے پہلے ہی یوکرین کو گندم برآمد کرنے کا اختیار دینے والے معاہدے کو معطل کر دیا ہے، جس سے افریقہ سمیت کئی ملکوں میں غذائی قلت کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
چاولوں کی قیمتیں بڑھنے سے غریب ترین ممالک میں مقیم وہ آبادی متاثر ہو رہی ہے، جو مہنگا چاول خرید نے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ مثال کے طور پر ویتنام میں چاول کی برآمدی قیمتیں 15 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
بنکاک میں مقیم اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے قدرتی وسائل کے افسر بیو ڈیمن کہتے ہیں کہ دنیا ’’تبدیلی کے موڑ‘‘پر ہے۔
بھارت نے چاول کی برآمد پر جزوی پابندی کیوں لگائی؟
چاولوں کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا میں چاول کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ملک بھارت نے گزشتہ ماہ چاولوں کی بعض برآمدات پر پابندی لگانےکا اعلان کیا تھا۔
بھارت کی حکومت کی جانب سے چاولوں کی برآمد پر یہ جزوی پابندی ملک کے اندر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے طور پر لگائی گئی ہے اور ایک ایسے وقت پر، جب ملک میں عام انتخابات کی تیاریوں کا سال شروع ہو چکا ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں عالمی سطح پر چاول کی فراہمی میں تقریباً 9.5 ملین میٹرک ٹن (10.4 ٹن) کمی ہو گئی ہے۔ جو عالمی سطح پر چاول کی بر آمدات کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔
کینیا میں تیس سال سے چاول کا کاروبار کرنے والے اکاون سالہ فرانسس ندیگے نے کہا کہ ’’ میں امید کر تا ہوں کہ چاول کی سپلائی بہتر ہو جائے گی۔‘‘لیکن وہ اس صورتحال کا سامنا کرنے والے واحدفرد نہیں ہیں ۔
دوسرے ممالک کا رجحان
بھارت کی جانب سے پابندیوں سے پہلے ہی مختلف ممالک چاول کی فراہمی میں قلت کی توقع کرتے ہوئے چاول خرید رہے تھے اور بعد میں ایل نینو موسمی رجحان سے سپلائی میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
اب جو چیز صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے چاولوں کی برآمد میں کمی دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کرسکتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے بھی اپنی ضروریات بھر اسٹاک کو برقرار رکھنے کے لیے چاول کی برآمدات معطل کر دی ہیں۔ ایک اور خطرہ یہ ہے کہ اگر شدید موسم کے نتیجے میں دوسرے ممالک میں چاول کی کاشت کو نقصان پہنچتا ہےتو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔
گوہاٹی، انڈیا میں چاول کے کھیت میں کام کرتا کسان ، جسے علم نہیں کہ موسمی تبدیلیوں سے چاول کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ فوٹو اےپی
گوہاٹی، انڈیا میں چاول کے کھیت میں کام کرتا کسان ، جسے علم نہیں کہ موسمی تبدیلیوں سے چاول کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ فوٹو اےپی
ال نینوایک ایسا موسمی رجحان ہے جس میں بحرالکاہل کے ایک حصے میں پانی گرم ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر معمول کے موسم میں تبدیلی آتی ہےجبکہ آب و ہوا کی تبدیلی اس میں اور بھی شدت کا باعث بنتی ہے۔
سائنس دان توقع کرتے ہیں کہ جاری موسمی رجحان میں شدت آئے گی اور اسکے نتیجے میں خشک سالی سے لے کر سیلاب تک کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔
افریقہ میں چاول کی کھپت مسلسل بڑھ رہی ہے، اور بیشتر ممالک درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں جبکہ سینیگال ان ملکوں میں شامل ہے جو چاول کی زیادہ سے زیادہ کاشت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔
سینیگال کے شہر ڈاکار میں پانچ بچوں کے بے روزگار والد عماد وخان کہتے ہیں کہ ان کے بچے ناشتے کے علاوہ ہر کھانے کے ساتھ چاول کھاتے ہیں لیکن اگر ان کے پاس روزگار نہ ہو تو وہ اس سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
ایشیائی ممالک میں چاول کی پیداوار پر موسمی تبدیلیوں کے اثرات
ایشیائی ممالک میں دنیا بھر میں استعمال ہونے والے چاول کا 90 فیصد اگایا اور کھایا جاتا ہے۔تاہم وہاں پیداوار کو مسائل کا سامنا ہے۔ فلپائن ایل نینو کےحوالے سے کم بارش کی توقع میں پانی کا محتاط استعمال کر رہا تھا جب طوفان ڈوکسوری نے چاول پیدا کرنے والے شمالی علاقے میں تباہی مچا دی اور جس سے چاول کی 32 ملین ڈالر مالیت کی فصلوں کو نقصان پہنچا جو کہ اس کی سالانہ پیداوار کا 22 فیصد ہے۔
جزیرہ نما فلپائن ، چین کے بعد چاول کا دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اوراس کے صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر نے چاول کے مناسب ذخائر کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
بھارت کی جانب سے چاول کی پابندیاں بھی غیر معمولی موسم کی وجہ سے تھیں۔ بھارت میں فوڈ پالیسی کے ماہر دیویندر شرما نے کہا کہ ایک غیرمتوازن مون سون کے ساتھ ساتھ ال نینو کا مطلب یہ تھا کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے جزوی پابندی درکارتھی۔
کیا بھارت کی پابندیوں سے چاول برآمد کرنے والے دیگر ملکوں کو فائدہ ہوگا؟
انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشن کے اشوک گلاٹی کہتے ہیں کہ پابندیاں اس سال بھارت کی عام چاول کی تقریباً نصف برآمدات کو ختم کر دیں گی۔ انہیں تشویش ہے کہ بار بار کی پابندیاں بھارت کو ناقابل اعتماد برآمد کنندہ بناتی ہیں۔
گلاٹی نے کہا کہ ’’یہ صورتحال برآمدی کاروبار کے لیے اچھی نہیں ہے کیونکہ ان مارکیٹوں کو تیار کرنے میں سالہاسال کا وقت لگتا ہے۔‘‘
چاول برآمد کرنے والا ایک اور کلیدی ملک ویتنام سرمایہ کاری بڑھنے کی امید کر رہا ہے۔ چاول کی برآمدی قیمتیں 15 سال کی بلند ترین سطح پر ہیں اور توقع ہے کہ سالانہ پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں معمول سے زیادہ رہے گی۔ جنوب مشرقی ایشیائی اقوام برآمدات کو بڑھاتے ہوئے مقامی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
فلپائن پہلے ہی ویتنام کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ کم قیمت پر اناج حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکے جب کہ ویتنام بھی برطانیہ کو اپنے چاول کی پیداوار برآمد کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ برطانیہ اپنا زیادہ تر چاول بھارت سے حاصل کرتا ہے۔
“کوئی بھی کاروباری شخص خطرہ مول نہیں لینا چاہتا‘‘
فلپائن کے پڑوسی ملک تھائی لینڈ میں برآمد کنندگان محتاط انداز اپنائے ہوئے ہیں ۔ تھائی لینڈ کی حکومت کو توقع ہے کہ وہ پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ چاول بر آمد کر سکیں گے کیونکہ سال کے پہلے چھ مہینوں میں اس کی برآمدات 2022 کی اسی مدت کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہیں۔
لیکن تھائی رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر لاوتھاماتاس کہتے ہیں کہ بھارت کے آئندہ اقدامات واضح نہیں ہیں اوراس کے ساتھ ال نینو کے بارے میں موجودہ خدشات کا مطلب یہ ہے کہ تھائی برآمد کنندگان آرڈر لینے سے گریز کر رہے ہیں۔ مل آپریٹرز فروخت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور کسانوں نے بھی چاول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ برآمد کرنے والوں کو یہ طے کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے کہ قیمتوں کا تعین کیونکر ہو کیونکہ قیمتیں اگلے ہی روز دوبارہ بڑھ سکتی ہیں۔’’اور کوئی بھی کاروباری شخص خطرہ مول لینانہیں چاہتا۔‘‘