ناصر عابدی،کینیڈا
مرحوم احمد ندیم قاسمی صاحب نے دعا کی تھی کہ ان کے کسی بھی ہم وطن کے لئے ”حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو“ مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ ”جو بھیجی تھی دعا، وہ جا کے آسمان سے یوں ٹکڑا گئی کہ آ گئی ہے لوٹ کے صدا“۔ صدا اور دعا کیوں نہ لوٹ کر آئے۔ کسی معاشرے میں جب صبح شام مذہب مذہب، نماز، روزہ، حج، عمرے کی گردان ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ وہ معاشرہ اپنی اخلاقی پستی کی آخری سیڑھی پر کھڑا ہے۔
اس معاشرے کے لوگ مذہب کو اپنے کاروبار اور سیاست کے لئے استعمال کریں گے اور ہر ناجائز کام کرنے کے بعد نماز، عمرہ، حج اور روزہ رکھ کر یہ سمجھ بیٹھے گے کہ گناہ دھل گئے اور ان سے اچھا کوئی نہیں ہے۔ کچھ اسی خوش فہمی کا شکار ہمارا معاشرہ ہے حالانکہ ان مذہبی دہشتگردوں اور قاتلوں سے لاکھ درجے بہتر وہ جسم فروش عورت ہے جو صرف اپنا جسم بیچتی ہے، ضمیر اور ایمان نہیں۔ وہ قاتل نہیں ہے۔ وہ دوسروں کا گھر نہیں جلاتی جس طرح دو دن پہلے پاکستان کے فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مذہبی قاتلوں اور دہشتگردوں نے توہین مذہب کے نام پر عیسائیوں کے 16 گرجا گھر اور 215 گھروں کو آگ لگا دی۔ عیسی نگری کے سب ہی رہائشی اپنی جان بچانے کے لئے علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔ کچھ عیسائی بھائیوں نے رات کھلے آسمان کے نیچے کھیتوں میں گزاری۔
مذہبی دہشتگردوں نے ان کے مویشی اور گھر کا سامان بھی نہ چھوڑا۔ کچھ اوراق پر قرآن کی آیتیں لکھی تھیں اور کچھ تحریر۔ جنگ رپورٹ کے مطابق صبح آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر 70 سے 80 افراد نے احتجاج کیا۔ قریبی دیہاتوں کی مسجدوں سے توہین مذہب کا اعلان ہوا اور مجمع زیادہ ہو گیا۔ پھر پوری عیسائی بستی کو آگ لگا دی گئی۔ قریب میں کھڑی مسلمان پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔
یہ ہے ہمارا مذہبی جنون جس کی شدت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ کسی مسلمان کو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اجرت نہ دینی ہو، قرض نہ لوٹانا ہو، کاروبار کا منافع نہ دینا ہو، کسی لڑکی پر دل آ جائے تو اس سے مسلمان کر کے نکاح کرنا ہو، اس کا حل صرف توہین مذہب کا نعرہ ہے۔ ہم نے کتنے ہندو لڑکوں کو دیکھا جو اسلام قبول کرتے ہیں؟ صرف سولہ، سترہ اور اٹھارہ سال کی ہندو لڑکیاں ہی اسلام قبول کیوں کرتی ہیں؟
لیکن ان مذہبی دہشتگردوں سے کون نمٹے۔ آرمی ان سے مذاکرات کرتی ہے اور سیاستدان سیٹ ایڈجسٹمنٹ۔ ابھی تو شاید دوسرے مذاہب کے لوگ اس توہین مذہب اور ناموس رسالت سے متاثر ہو رہے ہیں لیکن بہت جلد ایک وقت آئے گا جب ہم خود بھی اس کا شکار ہوں گے۔ یہ مذہبی جنونی کسی بھی تعلیم یافتہ اور شعور رکھنے والے مسلمان پر بھی یہ جھوٹا الزام لگا کر آگ میں جھونک سکتے ہیں۔
تلخ نوائی معاف، میں اگر ان مذہبی لوگوں کا مقابلہ جسم فروش عورت سے کروں تو مذہبی قاتلوں سے زیادہ عزت کے لائق جسم فروش عورت ہے۔ شاید منٹو ہی نے لکھا تھا کہ ”طوائف سے زیادہ ایمان دار بیوپار نہیں دیکھا جو خالص عزت بیچتی ہے جس میں بے ایمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وہ نہ تو اللہ کی قسم کھاتی ہے
نہ واللہ خیر الرازقین کا بورڈ لگاتی ہے
نہ کوٹھے پر ماشاء اللہ لکھواتی ہے
نہ ہی مرد کے سامنے لیٹنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتی ہے
نہ تو ثواب کمانے کا ڈھونگ رچاتی ہے
نہ بچوں اور بھوک کا واسطہ دے کر خیرات لیتی ہے
نہ ہی ثواب دارین حاصل کرنے کا نعرہ لگا کر چندہ اکٹھا کرتی ہے ”۔
کاش ہمارے مذہبی لوگ اس طوائف جیسی برداشت اور رواداری ہی اپنے اندر پیدا کر لیتے۔ ندا فاضلی کی نظم دوبارہ یاد آ رہی ہے۔
وہ طوائف
کئی مردوں کو پہچانتی ہے
شاید اسی لیے
دنیا کو زیادہ جانتی ہے
اس کے کمرے میں
ہر مذہب کے بھگوان کی ایک ایک تصویر لٹکی ہے
یہ تصویریں
لیڈروں کی تقریروں کی طرح نمائشی نہیں
اس کا دروازہ
رات گئے تک
ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی
ہر مذہب کے آدمی کے لیے کھلا رہتا ہے
خدا جانے
اس کے کمرے کی سی کشادگی
مسجد اور مندر کے آنگنوں میں کب پیدا ہو گی!