نئی دہلی —
نیوز پورٹل ‘نیوز کلک’ اور اس سے منسلک صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر صحافتی تنظیموں میں تشویش کی لہر ہے۔
صحافی یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اب بھارت جیسے جمہوری ملک میں پریس کی آزادی چھینی جا رہی ہے اور اختلافِ رائے پر قدغن لگایا جا رہا ہے۔
میڈیا اداروں نے پولیس کارروائیوں کے خلاف بدھ کو نئی دہلی میں ‘پریس کلب آف انڈیا’ میں ایک بڑا احتجاجی جلسہ کیا جس میں صحافیوں کو مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی مذمت کی گئی۔
پریس کلب آف انڈیا سمیت صحافیوں کی 16 تنظیموں اور اداروں نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے نام ایک مشترکہ خط لکھا اور ان سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف تحقیقاتی اداروں کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی قانون یو اے پی اے اور قانونِ بغاوت کی متعدد دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئیں اور مقدمات قائم کیے گئے۔
واضح رہے کہ دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے تین اکتوبر کی صبح ساڑھے چھ بجے نئی دہلی میں نیوز کلک کے دفاتر کے علاوہ نوئڈا، غازی آباد اور گوڑگاؤں میں تقریباً تین درجن ٹھکانوں پر چھاپے ڈالے تھے۔
متعدد سینئر صحافیوں کو دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے ہیڈ کوارٹرز میں لے جایا گیا اور پوچھ گچھ کرنے کے بعد شام کے وقت انہیں چھوڑ دیا گیا۔ انہیں جمعرات کو پھر طلب کیا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔
نیوز کلک کے خلاف رپورٹ درج کرانے والے ادارے ’انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ (ای ڈی) کا الزام ہے کہ نیوز کلک کو چین سے پیسے ملتے ہیں اور وہ چینی پروپیگنڈا کو آگے بڑھا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق نیوز کلک ایسے ایجنڈے کی تشہیر کر رہا تھا جس میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور ارونا چل پردیش کو بھارت سے الگ دکھایا گیا ہے۔
نیوز کلک نے اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کی ہے۔ پولیس نے اس کے دفتر کو سیل کر دیا ہے۔
‘الزامات ہیں تو سامنے لائے جائیں’
صحافیوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر نیوز کلک کے خلاف کچھ الزامات ہیں تو ان کی جانچ ہونی چاہیے۔ لیکن صحافیوں کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے لگانے کا کیا جواز ہے۔
ان کا خیال ہے کہ حکومت اختلاف رائے کو پسند نہیں کرتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اظہار کی آزادی پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں پریس کی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اگر یہی صورتِ حال رہی تو میڈیا کی آزادی ختم ہو جائے گی۔
پریس کونسل آف انڈیا کے رکن اور سوشلسٹ نظریات کے حامل سینئر تجزیہ کار اور صحافی جے شنکر گپتا متعدد تجزیہ کاروں کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس وقت ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی صورتِ حال ہے۔
صحافیوں کے خلاف کارروائیوں سے 1975 کی یاد آ گئی جب اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی اور بہت سے صحافیوں کو جیلوں میں ڈال دیا تھا۔
یاد رہے کہ نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پُرکایستھ کو بھی ایمرجنسی میں گرفتار کیا گیا تھا۔
‘حکومت اپنے خلاف اُٹھنے والی آوازیں دبانا چاہتی ہے’
جے شنکر گپتا کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے جمہوری طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے آمرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
ان کے خیال میں اس بات کا اندیشہ ہے آنے والے دنوں میں حالات اور خراب ہوں گے۔
معروف مصنفہ ارون دھتی رائے موجودہ صورتِ حال کو ایمرجنسی سے بھی خطرناک بتاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ایمرجنسی ایک محدود وقت کے لیے نافذ کی گئی تھی۔ لیکن حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی حکومت جمہوری مزاج کو بدلنے اور عوامی آواز کو دبانے کے لیے آئین کو ہی بدل دینا چاہتی ہے۔
اُنہوں نے ایک میڈیا ادارے ’دی وائر‘ سے گفتگو میں اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اگر بی جے پی 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر بھارت ایک جمہوری ملک نہیں رہے گا۔
کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار جے شنکر گپتا بھی کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اور اگلے سال پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔
ان انتخابات میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے جس کی وجہ سے حکومت پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔
سینئر صحافی اور پریس کلب آف انڈیا کے سابق صدر آنند کے سہائے کہتے ہیں کہ یہ حکومت شروع سے ہی مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس کی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کرنے والے کئی صحافی اب بھی جیل میں ہیں۔
آزادیٔ اظہار کی مہم چلانے والے ایک ادارے ’دی فری اسپیچ کلکٹیو‘ کا کہنا ہے کہ اب تک 16 صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے لگایا گیا ہے۔ آٹھ صحافی اب بھی جیل میں ہیں۔
چیف جسٹس کے نام خط
بعض مبصرین چیف جسٹس کے نام خط کے حوالے سے کہتے ہیں کہ صرف انہی سے امیدیں ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی بھی اپنی حدود ہیں۔ لہٰذا صحافیوں کو ہی اپنی آزادی کی خاطر آواز اٹھاتے رہنا پڑے گا۔
حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ وہ پریس کی آزادی پر پابندی کے خلاف ہے۔ البتہ میڈیا اداروں کو قواعد و ضوابط کے تحت رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اس نے نیوز کلک کے خلاف پولیس کارروائی کی حمایت کی اور کہا کہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کارروائی کی گئی ہے۔
پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا نے رواں سال کے نو اگست کو ’ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹکشن بل‘ (ڈی پی ڈی پی) 2023 کو منظوری دی ہے جس کا مقصد ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا کو پروسس کرنا ہے۔ جب کہ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان کی نگرانی کرنا ہے۔
صحافیوں کو اندیشہ ہے کہ اس سے اطلاعات اور پریس کی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس بل کے ناقدین کے خیال میں اس سے سینسرشپ اور صحافیوں اور ان کے ذرائع کی نگرانی میں اضافہ ہو گا اور حق اطلاعات کے قانون ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ پر اثر پڑے گا۔
صحافیوں کے ایک بین الاقوامی ادارے ’دی انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس‘ (آئی ایف جے) اور بھارت کی ایک تنظیم ’انڈین جرنلسٹس یونین‘ (آئی جے یو) نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بل پر نظر ثانی کرے اور پریس کی آزادی کو یقینی بنائے۔
نیوز کلک کیا ہے؟
بائیں بازو کے نظریات کے حامل سینئر صحافی پربیر پرکایستھ نے 2009 میں ’نیوز کلک‘ نامی میڈیا ادارہ قائم کیا تھا۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ وہ بائیں بازو کے نظریات والی تحریکات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان واقعات کی رپورٹنگ کرتا ہے جن کو کارپوریٹ میڈیا نظرانداز کر دیتا ہے۔
وہ رپورٹنگ کے علاوہ حکومت کے فیصلوں پر تجزیاتی رپورٹس بھی پیش کرتا ہے اور اس کے علاوہ سائنسی موضوعات پر بھی مضامین شائع کرتا ہے۔ اس ادارے میں تقریباً ایک سو افراد کام کرتے ہیں۔
پولیس نے اس سے وابستہ صحافیوں سے یہ سوالات بھی پوچھے تھے کہ کیا انھوں نے شہریت مخالف قانون سی اے اے کے خلاف نئی دہلی کے شاہین باغ میں چلنے والے احتجاج، دہلی فسادات اور کسانوں کے احتجاج کی رپورٹنگ کی تھی۔