ٕ
انصاف نیوز آن لائن
عازمین حج کی روانگی کے پہلے دن ہی عازمین حج کو جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ اب تک جاری ہے۔ریاستی حج کمیٹی اور مرکزی حج کمیٹی کے درمیان رابطے کے فقدان کی وجہ سے باربار فلائٹ شیڈول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد ہوٹل پر صحیح نمائندگی نہیں کرنے والوں کی وجہ سے اپنے کمرے تک پہنچنے میں بھی پریشانی درپیش ہے۔مدینہ منورہ میں ایک کمرے میں چار عازمین کو رکھا جاتا ہے۔مگر اطلاعات مل رہی ہے ایک کمرے میں 8عازمین کو رکھا جارہاہے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد ہر ایک عازمین کی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد غسل اور کپڑے تبدیل کرکے مسجد نبوی میں حاضری دے اور مزار اقدس پر سلام پیش کرے ۔مگر مدینہ منورہ میں ہوٹل کے باہر لمبی قطار ، 8ساتھیوں کا انتخاب کرنے کی ذمہ داری بھی خود عازمین کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ان 8ساتھیوں کو انتخاب کرنے میں کافی وقت گزرجارہا ہے۔
ایسے مدینہ منورہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے۔یہاں بلند آواز سے بولنا بھی بے ادبی میں شمار ہوتا ہے۔یہاں کی گلیوں میں ہونے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔چناں چہ عازمین مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں ہونے والی مشکلات کا ذکر زبان نہیں لایا جائے ۔اس لئے کئی ساری شکایات عازمین حج نظر انداز کردیتے ہیں۔تاہم دلجمعی سے مسجد نبوی میں حاضری کےلئے ضروری ہے کہ قیام و طعام کے انتظامات بہتر ہوں تاکہ ذہن و دماغ کسی طرف نہ جائے۔
مدینہ منورہ پہنچنے والے عازمین اور حج انسٹرکٹر مفتی مجیب الرحمن نے ایک صوتی پیغام میں کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات نہیں ہے کہ ریاستی حج کمیٹی کی انتہائی بدانتظامی کی وجہ سے بنگال کے عازمین حج مدینہ میں مشکلات کا شکار ہیں۔ ہوٹلوں میں استقبالیہ مقامی وقت کے مطابق صبح 6.30بجے سے رات11 بجے تک کھلا رہتا ہے۔ حج فلائٹ کے شیڈول میں تبدیل کی وجہ سے رات 11بجے کے بعد پہنچنے والوں کےلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ایک کمرے میں 6یا 8افراد کو رکھا جارہا ہے۔جب کہ پہلے چار افراد کو رکھا جاتا تھا۔جو عازمین دو یا تین عازین کے قافلے پر مشتمل ہیں ان سے کہا جاتا ہے کہ پانچ افراد کو مزید لے کر آئیں ۔ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مجیب نے مزید الزام لگایا کہ سعودی حکومت کے اصولوں کے مطابق ہر عازمین حج کو نسخ ایپ پر رجسٹر کرنا ضروری ہے۔ لیکن جب نام کے اندراج کے لیے جاتے ہیں تو یہ جون تک داخلہ دکھاتا ہے۔ جناب مجیب نے کہا کہ اس مسئلے کے لیے سب سے پہلے نگراں سے رابطہ کیا گیا تھا۔ پھر وہ اسے آبزرور کے پاس لے گیا۔ وہ اسے منیجر کے پاس لے گیا۔ منیجر نے کہا آپ کا ٹیم لیڈر کہاں ہے؟ ٹیم لیڈر کا مطلب خادم الحجاج ہے۔ منیجر نے اس بارے میں کہا کہ خادم الحجاج کے پاس جو لسٹ ہے وہ لے آؤ۔ خادم الحجاج کے بارے میں مجیب نے کہاکہ میں نے مغربی بنگال حج کمیٹی کے ایگزیکٹیو آفیسر کو فون کیا اور انہیں مطلع کیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک خادم الحزج کے پاس کوئی نہیں گیا۔
اس سلسلے میں مغربی بنگال حج کمیٹی کے ایگزیکٹیو آفیسر محمد نقی فون پر کہا، ’’بہتر ہوتا اگر حج کمیٹی تھوڑی زیادہ چوکس رہتی۔ جب سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کے ویزوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے تو اگر صرف ان حاجیوں کو بلایا جاتا جن کے پاس ویزہ ہے تو یہ مسئلہ نہ ہوتا۔
دوسری جانب جھار کھنڈ کے عازمین کو مدینۃ الحجاج راجر ہاٹ میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ایک عازمین نے کہا کہ کائونٹر پر جو افراد بیٹھے ہوئے ہیں وہ ہندی یا پھر اردو میں بات نہیں کرتے ہیں ۔وہ بنگلہ بولتے ہیں۔ہم لوگوں کو بنگلہ نہیں آتا ہے۔ریاستی حج کمیٹی کی ذمہ داری تھی کائونٹر پر ایسے شخص کو بیٹھایا جاتا جسے ہندی یا پھر اردو آتی ہے۔کئی عازمین نے کہا کہ شیڈول میں تبدیلی کی اطلاع نہیں دی گئی اس کی وجہ سے وہ کافی پہلے یہاں پہنچ گئے ہیں ۔انہیں روانہ کرنے کےلئے رشتہ دار و اقارب بھی آئے ہیں مگر رشتہ دار و اقارف کو ٹھہرانے کا انتظامات نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزارت اقلیتی امور نے اس سال حج کی کارروائی تاخیر سے شروع کی اور اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی حج کمیٹی کو اس کا علم نہیں تھا؟۔ریاستی حج کمیٹی نے اس کے تدارک کےلئے کی اقدامات کئے ہیں ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ اس سال سعودی عرب کی ائیرلائنس کو کلکتہ کا ٹھیکہ ملا ہے ۔سعودی حکومت نے ایک دوسری کمپنی کوذمہ داری دیدی ۔مگر سوال یہ ہے کہ وزارت اقلیتی امور ممتا بنرجی کے پاس ہے۔ریاستی حج کمیٹی بھی اس کے تحت آتا ہے۔کیا ممتا بنرجی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس معاملے میں مرکزی وزارت اقلیتی امور کی توجہ صرف ایک ٹوئیٹ کے ذریعہ مطلع کرتی۔