Saturday, December 21, 2024
homeتجزیہشناخت کی سیاست: شواجی کی غیر مستند سوانح عمریاں، مراٹھا سیاسی شناخت...

شناخت کی سیاست: شواجی کی غیر مستند سوانح عمریاں، مراٹھا سیاسی شناخت اور ہندوتوا

محمد سجاد

ہندوتوا کی سیاست میں شواجی کے تعلق سے بہت کچھ منسوب کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بھگوا جھنڈا کو، اور “ہر ہر مہادیو” جیسے جنگی نعرے کو بھی اسی تاریخ سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ یعنی شناخت کی اس سیاست میں سترہویں صدی کا مہاراشٹر نا گزیر طور پر بحث میں آ جاتا ہے۔ یوں بھی آر ایس ایس پر مراٹھی چتپاون برہمنوں کا تسلط سمجھا جاتا ہے۔
شواجی (1627-1680) کا تعلق اس خاندان سے تھا جو احمد نگر کے نظام شاہی حکمرانوں کے سردار ہوا کرتے تھے۔ یوں تو اس خاندان نے نظام شاہی سے قطع تعلق کر کے مغل حکمراں شاہ جہاں کی نوکری میں آ گئے تھے۔ لیکن شواجی کے والد، نظام شاہی کو چھوڑ کر پہلے بیجاپور کے عادل شاہی کی نوکری میں آگئے۔ دوسری شادی کر کے، بنگلور کے گورنر مقرر ہوئے۔
شواجی کی ماں جیجا بائ کا تعلق، دیو گیری کے یادو خاندان سے تھا۔ یادو خاندان کا زوال 1308ء میں علاءالدین خلجی کے ہاتھوں ہوا تھا۔ یوں تو اپنی شجاعت، بہادری، سپہ گری، حکمرانی، انتظامی اصلاحات، سماجی اصلاحات کی وجہ سے سترہویں صدی عیسوی کے اخیر میں ہی میں انہیں [ہندو] ہیرو بنایا جا چکا تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں کئ لیجنڈ اور روایات ان کی ذات سے منسلک ہوتے چلے گئے۔ اور یہ سب شناخت کی سیاست کے اہم مواد بھی بنتے چلے گئے۔
اٹھارہویں صدی میں شواجی کو کئ سادھو سنتوں کے نام سے اور بھکتی آندولن کے کئ مرکزوں سے منسوب اور منسلک کر دیا گیا، یا ان کے معتقد کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ انیسویں صدی میں انہیں برطانوی سامراجیت کی مخالفت کے لئے ایک حوالہ بنایا گیا، اور تحریک آزادی کے دوران صوبائی اور ملک گیر [ہندو] ہیرو کی پہچان کے طور پر ایک سمبل یا استعارہ قرار دے دیا گیا۔ یعنی برطانوی سامراجی عہد میں شواجی کو اچھا رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کے چکر میں مسلم حکمرانوں کو برا ثابت کرنا مزید ناگزیر ہوتا گیا۔ یہیں سے شناخت کی متصادم سیاست کا استعماری کھیل شروع ہو گیا۔
اب مسلم حکمرانوں ہی کو نہیں، عام مسلمانوں کو بھی غاصب اور ظالم کے طور پر پیش کرنے والا بیانیہ تیار اور مقبول کروایا جانے لگا۔ سنہ 1980ء کی دہائی میں تو مہاراشٹر حکومت کے اسکولی نصاب میں بھی شواجی کو ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا جس میں انہیں ساڑھے تین سو برسوں کے “غیر ملکی حملہ آوروں” کی مزاحمت کرنے والا بتایا جانے لگا۔ سماجی تاریخ دانوں کے لئے یہ حیرت کی بات ہے کہ شیو مت کے عقیدت مند شواجی، ویشنو مت کے عقیدت مندوں میں کیسے شمار کئے جانے لگے۔ اور اس طرح مہادیو گووند راناڈے اور بال گنگا دھر تلک نے دو الگ الگ طریقوں سے شواجی کی شجاعت کو، تحریک آزادی کے دوران، ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ اٹھارہویں صدی میں شواجی کی جاں نشیں ریاستوں نے مہاراشٹر سے بہت دور تک ریاستیں اور حکومتیں قائم کیں۔ لیکن عظمت شواجی ہی کو بخشا گیا ہے۔
جیمس ڈبلیو لین نام کے تاریخ داں نے دو برس کے وقفے(2001 اور 2003) کے ساتھ، شواجی (1627-1680) پر متواتر دو کتابیں لکھیں۔ دوسری کتاب تقریبا 127 صفحات پر مشتمل ہے، جس کا عنوان، شواجی: ہندو کنگ ان اسلامک انڈیا، ہے۔ اس کتابچہ کی ایک بڑی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں شواجی پر لکھی قدیم اور جدید تمام تر سوانح عمریوں (بایوگرافیز) اور سیرت نگاریوں (hagiographies) کا اور اس کے پیچھے کی سیاست کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔ عادل شاہی فوجی جرنیل افضال خاں کا قتل (1659)، اورنگ زیب کے گورنر اور ماموں، شائستہ خاں کی شکست (1663)، آگرہ سے فرار ہونے میں کامیابی(1666)، سمہاگڑھ کی فتح (1670)، وغیرہ، جیسے واقعات کو مذہبی رنگ، اور شواجی کو مبینہ طور پر ملنے والی خداداد مدد، ماں بھوانی دیوی کی کرپا، وغیرہ کی مبالغہ آمیز کہانیاں، اور ان کے پیچھے کی سیاست کے ارد گرد ہندو بہ نام مسلم کی متصادم سیاست کو وجود میں لانے کی کلچرل سیاست کا تنقیدی جائزہ بہت گہرائ سے لیا گیا ہے۔ مغربی اور جنوبی ہند کے علاوہ بھارت کے گہرے جنوب، تانجور (تامل ناڈو)، تک کے علاقوں میں شواجی کے تاریخی استعارہ کا استعمال کرکے ہندو فرقہ پرست سیاست اور مسلم مخالف نفرت کی سیاست کو ہوا دینا آسان سمجھا جانے لگا۔
اس کتاب کی اشاعت پر شیو سینا والوں نے کافی واویلا مچایا تھا۔
اسی تنازعہ پر، پینسلوینیا یونیورسٹی کے کرسچن لی نویتزکے نام کے پروفیسر نے سنہ 2004ء میں تقریبا 19 صفحات پر مشتمل ایک اہم مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون کے ایک حصہ کو اردو قارئین کے لئے یہاں شئیر کرتا ہوں۔ اس حصہ کا تعلق ذات پات پر مبنی علاقائی سیاست سے ہے:
“مراٹھا” اصطلاح کا مفہوم مسلسل بدلتا رہا ہے۔ چودہویں صدی عیسوی تک اس اصطلاح کا اطلاق ان سبھی لوگوں پر ہوتا تھا جو مراٹھی زبان بولنے والے خطوں میں بستے تھے اور مراٹھی زبان کو اپنی مادری زبان تصور کرتے ہوئے بولتے تھے۔
سولہویں صدی عیسوی میں یہ اصطلاح ان کے لئے استعمال ہوتا تھا جو دکن کی علاقائی ریاستوں، مثلا، بیجاپور، گولکنڈہ، احمد نگر، بیرار، بیدر، و دیگر ریاستوں کی ریجیمینٹس میں فوجی کی حیثیت سے ملازم تھے۔ یعنی اب اس اصطلاح میں مارشل بہادری کا عنصر شامل ہونے لگا۔ یہ فوجی کسانی طبقے سے بھی تعلق رکھتے تھے، اور اس طرح، مراٹھا کی اصطلاح مراٹھا کنبی کسانوں کے لئے استعمال ہونے لگا۔ سترہویں صدی میں یہ لوگ علاقائی ریاست کی سیاسی و فوجی طاقت سے منسوب کر دئیے گئے۔ حالاں کہ سبھی مراٹھی صرف شواجی کی فوج تک ہی محدود نہیں تھے۔ ان کی بڑی تعداد ان فوجوں میں بھی شامل تھی، جو شواجی کے حریف تھے۔ لیکن شواجی کے عہد میں انہیں ایک مخصوص ذات، اور پھر، کچھتریہ ورن میں شامل ذات، مانا جانے لگا۔ اور کئ برہمنوں کی نظر میں یہ اب بھی شودرا ہی مانے جاتے رہے، چہ جائے کہ شواجی کو کچھتریہ کا رتبہ دے دیا گیا تھا۔
شواجی کے بعد، اٹھارہویں صدی میں، یہ سیاسی۔ریاستی طاقت، صحیح معنوں میں ان کے وزیر اعظم، پیشوا کی اولاد، کے پاس چلی گئ، جو چتپاون برہمن تھے۔ ان لوگوں نے شجرہء نسب کی فہرست کو از سر نو تیار کرنا شروع کیا۔
اب مراٹھا کمیونٹی میں جو خواص تھے (تقریبا 96 خاندان) انہیں اونچا رتبہ دیا گیا اور دیگر مراٹھوں کو شودر ہی مانا گیا۔ شواجی کے والد کا تعلق ان 96 خواص کنبے سے نہیں تھا۔ ان کا کنبہ بھونسلے کہلاتا تھا۔
سنہ 1818ء میں یعنی 19 ویں صدی میں، انگریزوں کا تسلط قائم ہونے کے بعد، مراٹھوں کو پھر سے اعلی ذات تصور کیا جانے لگا۔ اس طرح، انگریزی حکومت کی ریکارڈس میں، سماجی اعتبار سے ان کا رتبہ تو غیر معتبر (porous) رکھا گیا، لیکن سیاسی اعتبار سے انہیں مضبوطی فراہم کی گئ، اور اس طرح مراٹھوں کے اندر رتبے کے حصول کے لئے باہمی کشمکش چلتے رہے۔ ایسے میں جیوتی را ؤ پھولے (1827-1890) کی تحریک کے زیر اثر، مراٹھوں کے اندر، برہمن مخالف جذبہ ابھرا۔ اس طرح، بیسویں صدی میں، مراٹھوں کی سیاسی و سماجی شناخت سازی دو طرح سے ہوئ۔ ایک خواص طبقہ تھا جس کے نمائندہ، کولہاپور، گوالیار، ودربھا، بڑودا، (اور شاید، اندور بھی)، جیسی ریاستیں تھیں۔
جب کہ دوسرا حصہ عام مراٹھا کا تھا جن کے اندر برٹش مخالف اور برہمن مخالف مادہ دیکھا جانے لگا۔ اور یہی طبقہ جنگ آزادی میں گاندھی۔نہرو دھارا کی عوامی تحریکوں کی حمایت میں دکھائ دیا۔
لیکن اسی زمانے میں، یعنی ، سنہ 1930ء کی دہائ آتے آتے، خواص مراٹھا ہی اپنا غلبہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائ دینے لگے۔ اور ان خواص کا ہی غلبہ کانگریس، تعلیم، سیاست، اور ایوان اقتدار میں رہا۔
ما بعد آزادی بھی یہی لوگ کانگریس، اور بعد کو بی جے پی میں بھی حاوی رہے۔ آزادی کے پچاس برس بعد کی اتھل پتھل، اور مہاراشٹر صوبہ کی مانگ کی سیاست نے شیو سینا کو عروج دیا، جو غیر مراٹھی و تمل مخالف سے گزر کر کمیونسٹ مخالف ہوئے اور پھر مسلم مخالف طاقت بھی بن گئے۔ جن میں بے روزگار نوجوانوں کی شمولیت رہی۔ اس طرح مراٹھا شناخت کی یہ سیاست، لسانی و طبقاتی سے ہوتے ہوئے مذہبی بنیاد اختیار کر لی۔ اور سنہ1980ء کی دہائی کی شروعات تک اس کا بھگوائ کردار نسبتا کمزور تھا، کسی حد تک برہمن مخالف کردار بھی تھا، لیکن ناگ پور میں صدر مقام رکھنے والی برہمن وادی تنظیم آر ایس ایس سے بھی ان کے تعلقات ہموار ہوتے رہے۔
سنہ 1990 میں مراٹھا سیوا سنگھ اور شامبھا جی بریگیڈ، جیسی تنظیمیں جیوتیبا پھولے کے نام پر، اور برہمن دانشوروں کی مخالفت میں وجود میں آئیں۔
اب، جو لوگ خود کو مراٹھا کہتے ہیں ان کی آبادی 40 فی صد ہوگی۔ لیکن یہ homogenous گروپ نہیں ہیں۔ یہی لوگ، ایس۔ بی۔ چوان اور شرد پوار جیسے رہنماؤں کے زیر اثر کانگریس اور این سی پی کے حامی ہیں، جبکہ اسی مراٹھا کمیونٹی کا دوسرا حصہ شیو سینا اور بی جے پی میں بھی ہے۔
اب یہ مراٹھا کمیونٹی اپنا برہمن مخالف جذبہ، کم از کم ووٹوں کی سیاست کی سطح پر، تقریبا ترک کر چکی ہے۔
تاریخ داں جیمس ڈبلیو لین نے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ شواجی کے سمبل کے ارد گرد ایک متحدہ ہندو قومیت بنانے کی سیاسی کوشش عرصے سے کی گئ، اور یہ کوشش، صرف برطانوی حکومت ہی نے نہیں، بلکہ، دیگر ملکی نظریاتی گروہوں نے بھی کی۔
سترہویں صدی کے اخیر میں انہیں مسلم حکمرانوں کے خلاف ایک رزمیہ ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ اٹھارہویں صدی کے اخیر اور انیسویں صدی کے آغاز میں انہیں ہندو ہیرو کے طور پر اور ہندو سنتوں کے بھکت کے طور پر پیش کیا گیا۔ انیسویں صدی کے اخیر (1869ء کے بعد سے) انہیں ہندو سیاسی شناخت کا حوالہ بنا دیا گیا۔ یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی مسلسل جاری ہے۔
یعنی، بہ الفاظ دیگر، شواجی کے بہانے، ہندو ازم کو اسلام ہی کی طرح semitize کرکے مسلم امہ و ملت کی طرح سیاسی طور پر متحد ہندو قوم کی تشکیل کرنے کی کوشش کی گئ، جس کے مضمرات و نتائج کئ شکل میں نمودار ہوئے، اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ لہذا، سماجیات اور آج کی سیاست میں شناخت کی سیاست کے مضمرات کو سمجھنے کی تجسس رکھنے والے اہل علم کو جیمس ڈبلیو لین کے اس کتابچہ کا مطالعہ بہ طور خاص کرنا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین