ڈاکٹر محمد اشرف علی ندوی ازہری
اسسٹنٹ پروفیسر عالیہ یونیورسٹی کولکاتا
میںنے اپنی بات کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ، چونکہ آج جس کتاب پر کچھ لکھنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے وہ علامہ شوق نیموی کی کتاب’’ آثار السنن‘‘ کی شرح اردو زبان میں ’’تفہیم السنن ‘‘ کے نام سے ہے جس کے شارح مفتی محمد ثناء الھدی صاحب ہیں۔اس تناظر میں یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ پہلے’’ آثار السنن‘‘ اور اس کے مؤلف حضرت نیموی پر چند سطور پیش کردئے جائیں، پھر اس کتاب کی شرح’’ تفہیم السنن ‘‘ پر تبصرہ اور شارح حضرت مفتی صاحب کا مختصر تعارف ہو ، جو اصل موضوع سخن ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ’’ آثارالسنن‘‘ اور اس کے مؤلف کی خوبیوں کو ذکر کرنا اس کتاب کی شرح’’ تفہیم السنن‘‘ اور اس کے شارح مفتی ثناء الھدی صاحب کی اہمیت و افادیت کو مزید اجاگر کریگا۔
’’آثار السنن‘‘ کے مؤلف کا پورا نام ابو الخیر محمد ظہیر احسن شوق نیموی ہے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ، آپ کی ولادت ۱۲۷۸ھ اور وفات ۱۳۲۲ھ ہے، موصوف نے صرف ۴۴ برس عمر پائی ، حدیث اور علوم حدیث میں علامہ نیموی کی مہارت تامہ سے کسی کو انکار نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ متقدمین میں فن رجال پر عبور رکھنے والے بلکہ یہ کہناچاہئے کہ اسماء الرجال کے میدان میں جن کی رائے متاخرین کے نزدیک حتمی سمجھی جاتی ہے ، وہ نام علامہ حافظ ابن حجر ؒ کا ہے، جنھوں نے اپنی’’ تقریب التہذیب میں رجال کے جرح وتعدیل کے متعلق جو آخری اور محتاط رائے دی ہے وہ سند کا درجہ رکھتی ہے ،چنانچہ حافظ ابن حجر کی رائے اور تحقیق پر بھی حضرت شوق نیموی نے قلم اٹھا یا ، نقد رواۃ اور جرح و تعدیل میں ابن حجر سے محققانہ طور پر اختلاف کیا ہے ، اس قبیل کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :’’ تفہیم السنن‘‘ جلد اول صفحہ ۸۲ تا ۸۴۔ اس واقعہ سے صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علا مہ نیمویؒ کا جرح و تعدیل میں علمی اور تحقیقی مقام کیا تھا ؟ ( مزیدتفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو مقدمہ تفہیم السنن صفحہ ۷۱ تا ۱۰۶)
اسی طرح فقہ اسلامی پر بھی موصوف کی گرفت اچھی تھی ، علامہ کی مذکورہ تصنیف ایک عرصہ سے بہار مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ تمام تعلیمی اداروں کے علاوہ دیگر خود مختار دینی درسگاہوں میں بھی داخل نصاب رہی ہے، اس حدیثی مجموعہ میں مؤلف کی توجہ اس امر پر مرکوز رہی ہے کہ فقہ حنفی کی حدیثی استدلالات سبھی کے سامنے آجائیں ۔
ہند و بیرون ہند کے بڑے بڑے علماء کرام نے اس کتاب پر اپنے تاثرات عمدہ اندا زمیں پیش کئے ہیں ،یہاں صرف ہندستان کے ایک بڑے نامور اور فاضل محدث حضرت مولانا حبیب الرحمان اعظمیؒ کے قول پر اکتفا کرتاہوں، حضرت ا عظمی’’ آثار السنن‘‘ کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :’’خالص محدثانہ رنگ میں حنفی نقطہ نظر سے ہندوستان میں جو پہلی کتاب لکھی گئی ، جہاں تک مجھے معلوم ہے ، وہ آثار السنن ہے‘‘۔
اب ہم دوسری شق کی طرف رخ کرتے ہیں اور وہ ہے ’’ تفہیم السنن‘‘ شرح آثار السنن اور اس کے شارح حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدی صاحب قاسمی دامت برکاتہم۔
موصوف شارح کی ولادت ۱۹۵۷ء میں ہے، ضلع ویشالی ،بہار سے آپ کا تعلق ہے، اللہ نے آپ کو مختلف صلاحیتوں سے بھر پور نواز ا ہے، عرصہ دراز سے امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں نائب ناظم کے عہدہ پر فائز ہیں ، بے شمار ملی فلاحی اور دعوتی امور میں مصروف رہتے ہوئے اللہ تعالی نے جوحضرت سے خالص علمی اور حدیثی کام لیا وہ کم از کم مجھ ناچیز کے لئے باعث حیرت ہے، اس اعتراف کے ساتھ کہ اللہ تعالی کو جس بندہ سے کام لینا ہوتا ہے اس کو اپنی خصوصی توفیقات سے نواز دیتا ہے اور راہیں ہموار کردیتاہے ، وما ذلک علی اللہ بعزیز ۔
موصوف کی علمی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے ، آپ کی تصنیفات کی ایک فہرست ہے جس کو’’ تفہیم ‘‘کے اس نئے اڈیشن کی پشت پر دیکھا جا سکتا ہے ، اس طویل فہرست میں آپ کا سب سے نمایاعلمی کارنامہ یہ شرح ہے جو’’ تفہیم السنن ‘‘کے نام سے دو ضخیم جلدوں میں ۹۴۸ صفحات پر مشتمل درمیانی سائز میں ہے ، یہ شرح اردو زبان کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ جرح وتعدیل میں تحقیقات سے مزین، خودنمائی اور مبالغہ سے کوسوں دور نیزعلماء کے مثبت اور مفید تاثرات سے آراستہ ہے ۔مؤلف نے ائمہ فقہ کے اختلافات پرنہایت خوش اسلوبی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ،پھر ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے متعارض روایتوں میں تطبیق وترجیح کو بحسن وخوبی پیش کیاہے ۔
حضرت مولانا عبد الحنان صاحبؒ بالاساتھ نے صرف ایک جملہ میں اس شرح کی اہم خوبیوں کو یوں اجاگر کیاہے، تحریر فرماتے ہیں : ’’شارح نے ایک بیش قیمتی تحفہ پیش کیا جسے حل لغات، سلیس ترجمہ اور مطالب کے ساتھ معلومات، تحقیقات، ترجیحات اور تسہیلات کا مرقع بنادیا ‘‘ ۔
شارح نے اس علمی ضخیم مجموعہ کو تیار کرنے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے ،اور موجودہ دور کے علماء کی جانب سے گویا فرض کفایہ ادا کردیا ہے، میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ شرح نہ مطول ہے اور نہ ہی مختصر ، اور یہی اس دور کی ضرورت بھی تھی، جو اللہ تعالی نے مفتی صاحب کے قلم سے انجام دلوایا ۔’’آثار السنن ‘‘ کی شرح وترجمہ وغیرہ کے تعلق سے اتنا ضرور ہے کہ اب تک کسی نے یا تو نوٹس شائع کئے ،یا ایڈیٹ کیا ، یا ارود میں ترجمہ کیا ، لیکن اب تک کسی نے مستقل شرح نہیں لکھی ۔
مولانا محمد مصطفی مفتاحی دارالعلوم حیدر آباد نے اس کتاب پر اپنے تاثرات میں بہت اہم بات لکھی ہے ، فرماتے ہیں : ’’بہار ہی نہیں بلکہ بر صغیر کے بہت سے دینی مدارس میں یہ کتاب شاملِ نصاب ہے ، اس کا تقاضاتھا کہ بہت پہلے اس کی مفصل شرح منظر عام پر آجاتی ، لیکن ایسا نہ ہو سکا ‘‘۔
مولانا ابو الحسن علی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم بھڑوچ گجرات اپنے پیش لفظ میںصفہ ۸ پر رقم طراز ہیں: ’’مؤلف موصوف نے ’’آثار السنن‘‘ کا وہ حق جو علماء بہار پر واجب تھا الحمد اللہ بہت ہی سنجیدگی اور تحقیق و تفصیل کے ساتھ ادا کردیا ہے ‘‘۔ مزید تحریر فرماتے ہیں :’’مختلف فیہ مسائل میں علماء مجتہدین کے محقق اقوال کو ذکر کرکے نہایت تحقیق کے ساتھ ہر مجتہد کے دلائل کو ذکر کرنے کے بعد حنفی مذہب کی ارجحیت کو مضبوط دلائل سے مبرہن فرمایاہے‘‘۔
’’تفہیم السنن‘‘ جلد اول میں اصل کتاب’’ آثار السنن‘‘ کی شرح کا آغاز صفحہ ۱۰۷ سے ہے ، بسملہ کے بعد مختصر تمہید میں شارح نے اصول حدیث کے اہم مباحث کا خلاصہ پیش کردیا ہے جس سے حدیث کی صحت و ضعف کا سمجھنا بہت حد تک آسان ہو گیا ہے ، صفحہ ۱۲۷ سے کتاب الطہارت کے مسائل کی شروعات ہے،اوراس جلد اول کا اختتام با ب ــــما جاء فی جوازترک الاذان لمن صلی فی بیتہ ــــــــــــ کی حدیث پر ہے ، اور تفہیم السنن کی دوسری جلد کی شروعات باب استقبال القبلۃ اور خاتمہ باب فی الصلوۃ بحضرۃ الطعام کی احادیث پر ہے۔ــــــشرح کے اندر کتاب کے ذیلی عناوین یا مباحث کو پیش کرنے کاا نداز نرالاہے،اس لئے کہ مسائل کے تحت صحیح عنوان کا متعین کرنا بہت آسان کا م نہیں ہو تا ، اس سلسلہ میں یہ کتاب بہت ممتاز نظر آتی ہے ، مزید کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل یہ شرح علمی حلقوں میں داد تحسین حاصل کر چکی ہے ۔ یہاں چند خصوصیات قابل ذکر ہیں :
۱؎ ’’آثار السنن‘‘ کے مؤلف علامہ نیموی کی دونوں تعلیق کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
۲؎ یہ شرح شارح کے علوم حدیث میں مکمل واقفیت کی دلیل اور ائمہ اربعہ کی فقہی بصیرت پر گہری نظر کا واضح ثبوت ہے ۔
۳؎ ’’تفہیم السنن‘‘ کے الفاظ و عبارات سہل اور معنی کی تفہیم بالکل واضح ہے۔
۴؎ حدیث کے ترجمہ کے ساتھ حل لغات ، مسائل کی تشریح اور متعارض روایتوں میں توضیح و تطبیق کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
۵؎ علمی امانت اور مصادر اصلیہ کی نشاندہی میں کہیں بھی کوتاہی نہیں برتی گئی ہے۔
۶؎ مذاہب ائمہ اور ان کے مستدلات کو جمع کردیا گیا ہے ۔
۷؎ محدثین کی تحقیقات ، ترجیحات ، تنقیحات اور تطبیقات کو بحوالہ ذکرکرنے کا اہتمام اور ان چیزوں سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے۔
۸؎ ایک ایک حدیث پر واضح گفتگو کی گئی ہے اور حدیث کی روح کو تشفی بخش انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔
۹؎ اسلوب سہل اور طباعت قابل دید ہے۔ اصحاب علم وفن کے مابین اس شرح کو خوب سراہا گیا ہے ۔
الغرض بلا شبہ فاضل شارح حضرت مولانا مفتی ثناء الہدی صاحب مد ظلہ کی یہ اردو شرح برسوں سے منتظر شدید تقاضوں کی تکمیل ہے، نہ صرف طلبہ کے لئے بلکہ اساتذہ کے لئے بھی ایک قیمتی علمی سرمایہ ہے ۔امید قوی ہے کہ یہ شرح ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔
اب اخیر میں بہت ہی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے احقر اپنی ایک رائے رکھنا چاہتا ہے، جس کا مقصد تنقید نہیں بلکہ مزیدتحسین ہے ۔
وہ یہ کہ گرامی قدر فاضل شارح نے جلد اول میں اپنی شرح کے لئے جو فہرستِ مضامین تیار کی ہے وہ صفحہ ۳۶ سے شروع ہو کر صفحہ ۶۶ پر ختم ہوتی ہے ، اس فہرست کو اگر کتاب کے بالکل شروع میں تاثرات ، پیش لفظ اور تقریظ وغیرہ سے پہلے پہلے رکھا جاتا اور اس فہرست کے اندر مذکورہ تاثرات کے صفحات کی تعیین بالترتیب شامل کر لی جاتی تو شاید بہتر ہوتا اور قارئین کے لئے مزید آسانیاں پیدا ہو جاتیں ۔ اسی طرح کتاب’’ آثار السنن‘‘ کی فہرستِ ابواب’’ تفہیم السنن‘‘ کے اندر صفحہ ۳۱ تا ۳۵ درج ہے ، یہ فہرست شرح کے اندر صفحہ ۱۰۶ کے بعد اور ۱۰۷ سے پہلے رکھی جاتی تو ترتیب یقینا بہتر ہوتی۔اور فہرست کی ترتیب کا یہ معاملہ دوسری جلد کے ساتھ بھی ہے۔
ہم اس خالص علمی اور حدیثی خدمت پر حضرت مفتی ثناء الہدی صاحب قاسمی کی خدمت میں تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں ،اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی اس علمی کاوش کو قبول فرما کر رفع درجات کا سبب بنائے۔ آمین!
وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ وصحبہ اجمعین