انصاف نیوز آن لائن
لوک سبھاانتخابات کے دوسرے مرحلے میں مغربی بنگال کی تین سیٹوں دارجلنگ، رائے گنج اور بالور گھاٹ میں 26اپریل کو پولنگ ہونی ہے۔
گزشتہ انتخابات میں ان تینوں سیٹوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی۔تاہم اس مرتبہ ان تینوں سیٹوں پرصورت حال مختلف ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی جیت کو لے کر پریقین نہیں ہے۔کیوں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ان تینوں حلقوںمیں کافی تبدیلی آئی ہے۔
رائے گنج میں مسلم ووٹوں کی شرح 49.9فیصد ہے۔اس کے باوجود بی جے پی نے 40فیصد ووٹوں کے ساتھ گزشتہ انتخابات میں جیت حاصل کی تھی۔دراصل مسلم ووٹوں کے انتشار کا فائدہ بی جے پی کو مل گیا تھا۔ترنمول کانگریس کو35.7فیصد، کانگریس کو 6.6فیصد اور سی پی آئی کے محمد سلیم کو 14.4فیصد ووٹ ملے تھے۔ظاہر ہے کہ مسلم ووٹوں کا انتشار اور پولرائزیشن کا بی جے پی کو فائدہ ملا ۔اگر اس مرتبہ کانگریس اور ترنمول کانگریس کے درمیان اتحاد ہوجاتا توپھر بی جے پی کے جیتنے کا امکان بھی ختم ہوجاتا ۔
2021کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس نے اس حلقے میں واپسی کی اور اسے مسلم ووٹوں کے پولرائزیشن کا سیدھا فائدہ ملا۔ترنمو ل کانگریس کے ووٹ شرح میں 15فیصد کا اضافہ ہوا اور کل ووٹ 50.6فیصد تک پہنچ گیا اور بی جے پی کے ووٹ میں 2 فیصد کی گراوٹ آئی۔کانگریس کے ووٹ فیصد میں 2.2فیصد کی گراوٹ آئی اور سی پی آئی ایم کے ووٹ فیصد میں 10فیصد کی گراوٹ آئی ۔اس طرح اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے مقابلے ترنمول کانگریس کا پلڑا بھاری ہوگیا۔کل 7اسمبلی حلقے میں ترنمول کانگریس نے پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ایک زمانے میں کانگریس کا گڑھ کہے جانے والے اس علاقے میں کانگریس اور بائیں محاذ کا صفایا ہوگیا اور اس کی اصل وجہ سے پولرائزیشن تھا۔
بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں رائے گنج لوک سبھاحلقے کی جن دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی ان میںرائے گنج کی سیٹ شامل تھی۔تاہم اسمبلی انتخابات کے بعد بی جے پی کے ممبر اسمبلی کرشنا کلیانی ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے اور اس مرتبہ ترنمول کانگریس نے انہیں یہاںسے امیدواربنایا ہے۔جب کہ بی جے پی نے موجود ممبر پارلیمنٹ دیپا شری چودھری کو امیدوار بنانے کے بجائے کارتک پال کو امیدوار بنایا ہے۔کانگریس نے یہاں سے سابق ممبر اسمبلی و نوجوان لیڈر علی عمران رمز کو امیدوار بنایا ہے۔علی عمران رمز چکولیہ سے دو مرتبہ ممبر اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں اور ان کے والد بھی ممبر اسمبلی تھے۔
ترنمول کانگریس نے کرشنا کلیانی کو امیدوار بناتے وقت دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق راج بنشی سے ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق راج بنشی مغربی بنگال کا واحد سب سے بڑا شیڈول کاسٹ گروپ ہے جو ریاست کی21.4ملین ایس سی آبادی کا 18فیصد سے زیادہ پر مشتمل ہے۔ رائے گنج میں راج بنشی ووٹ کی شرح 18فیصد سے کچھ زائد ہے ۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ مسلم ووٹروں کی شرح 50فیصد ہونے کے قریب کے باوجود ترنمول کانگریس نے کسی مسلم امیدوار کو کھڑا کرنے کے بجائے 18فیصد آبادی والے راج بنشی کو امیدوار کیوں بنایا ہے۔ایسے میں علی عمران رمز مسلم ووٹروں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو نتیجہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے انہیں بائیں محاذ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ایسے بی جے پی میں بھی بغاوت ہے کارتک پال کو امیدوار بنائے جانے کی وجہ سے بی جے پی لیڈر روپک رائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے امیدوار ہیں۔تاہم بی جے پی کو امید ہے اگر سیکولر ووٹ کی تقسیم ہوتی ہے تو انہیں اس کا فائدہملے گا۔
بالورگھاٹ میں ریاستی بی جے پی صدر سوکانت مجمدار ریاستی وزیر اور ترنمول کانگریس کے بپلب مترا کے درمیان مقابلہ ہے۔جنوبی دیناج پور میں بالورگھاٹ اور شمالی دیناج پور میں رائے گنج کے حلقے اسٹریٹجک اعتبار سے کافی اہم سلی گوڑی راہداری کے بالکل نیچے واقع ہیں اور ملک کے باقی حصوں کو شمال مشرق سے جوڑنے کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔بالورگھاٹ اور رائے گنج میں رابطہ اور صحت کی دیکھ بھال کلیدی انتخابی مسائل ہیں۔ بالورگھاٹ کے موجودہ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ سوکانت مجمدار بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل حلقے میں ریلوے نیٹ ورک کی بہتری پر زور دے رہے ہیں۔ رائے گنج میں ایمس کا دیرینہ مطالبہ بی جے پی اور کانگریس قیادت نے اٹھایا ہے۔ ترنمول کانگریس حکومت نے رائے گنج میں زمین کی عدم دستیابی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایمس کو جنوبی بنگال منتقل کردیا ہے۔
بالور گھاٹ میں مسلم ووٹ کی شرح28.25فیصد ہے ۔سوکانت مجمدار گزشتہ انتخابات میں 50ہزار ووٹوں کے ساتھ کل 45.5ووٹ لاکر جیت حاصل کی تھی۔تاہم گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس نے 48.7فیصد ووٹ حاصل کیا اور بی جے پی کے ووٹ شرح میں 3فیصد کی گراوٹ آئی۔جب کہ کانگریس اور بائیں محاذ کے ووٹ کی شرح میں بھی گراوٹ آئی ۔اگر یہی ٹرینڈ باقی رہتا ہے اور ترنمو ل کانگریس 42فیصد شیڈول کاسٹ وشیڈول ٹرائب کے ووٹروں میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہاں سے بی جے پی کی شکست یقینی ہے۔مگر یہاں سے کانگریس اور بائیں محاذ نے بھی اپنے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں اگر یہ دونوں امیدوار 5سے 7فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر بی جے پی کو اس فائدہ مل سکتا ہے۔
دارجلنگ میں بی جے پی کےممبر پارلیمنٹ راجو بستا الیکشن لڑ رہے ہیں۔کانگریس میں شنیت تمانگ کی شمولیت اور انہیں امیدوار بنائے جانے کے بعد مقابلہ سہ رخی ہوگیا ہے۔ انہیں دارجلنگ کی مقامی ہمرو پارٹی کی حمایت حاصل ہے اور ترنمول کانگریس نے سابق بیوروکریٹ گوپال لامہ یہاں سے امیدوار بنایا ہے۔ کرسیانگ اسمبلی حلقے سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی بشنو پادا شرما نے مسٹر بستا کی نامزدگی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے آزاد امیدوار کے طور پرانتخاب لڑرہے ہیں ۔بستا کو باہری بتاکر خود کو بھومی پتر بتارہے ہیں ۔
2009 سے دارجلنگ سے بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہورہے ہیں ۔یہ سیٹ زعفرانی پارٹی کیلئے محفوظ سمجھی جاتی ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں مسٹر بستا نے چار لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ بھی پہلا موقع ہے جب سی پی آئی (ایم) کے زیرقیادت بایاں محاذ نے نکسل باڑی تحریک کی جائے پیدائش دارجلنگ سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔
پچھلی چار دہائیوں سے دارجلنگ پہاڑکی سیاست الگ ریاست گورکھا لینڈ کے مطالبے کے گرد مرکوز ہے۔ اگرچہ ماضی میں بی جے پی نے گورکھا آبادی کے مطالبات کے مستقل سیاسی حل کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس سال پارٹی کا منشور اس معاملے پر خاموش ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے انتخابی مہم کے دوران یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ گورکھا کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے قریب ہیں اور یہ آئین کے تناظر میں اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی گزشتہ تین انتخابات سے گورکھا آبادی کو دھوکہ دے رہی ہے۔دس سالوں سے اقتدار کے باوجود مرکز نے گورکھا کا مسئلہ حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔بی جے پی نے دارجلنگ کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔
دارجلنگ میں شناخت کی سیاست اس وقت حاوی ہے۔گزشتہ چند سالوں سے چائے کی صنعت کم پیداوار اور باغات کی بندش سے دارجلنگ کے شہریوں کو روزگار کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت، کم پیداوار اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور دارجلنگ کی چائے خطرے سے دوچار ہے۔