انصاف نیوز آن لائن
جنوبی کلکتہ سے ترنمول کانگریس کی امیدوار اور ممبرپارلیمنٹ مالا رائےسے متعلق سیاسی ورکر س دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے این آرسی ، حراستی کیمپ اور رام مندر سے متعلق سوالات پوچھ کر بنگال کے27فیصد مسلم ووٹوں کے جذبات کی توہین کی ہےاور ترنمول کانگریس کا دہرا کردار بھی سامنے آگیا ہے۔یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ این آر سی اور شہریت ترمیمی ایکٹ کو لے کر ممتا بنرجی مخلص نہیں ہیں۔کیوں کہ ممتا بنرجی 2005میں بنگال میں مسلم دراندازوں کے سوال کو لے کر پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کرچکی ہیں ۔
مالا رائے پر الزام ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ سے ایسے سوالات پوچھے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ این آر سی اور غیر ملکیوں کیلئے حراستی کیمپ کی تعمیر کے حق میں ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ مالارائے پر لگائے جارہے الزامات کی سچائی کیا ہے؟۔
ممبر پارلیمنٹ کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے کیلئے بنائی گئی ایک ویب سائٹ https://prsindia.org/پر جاکر ہم نے مالا رائے کی کارکردگی سے متعلق تحقیق کی تو یہ دعویٰ سچ معلوم ہوا کہ انہوں نے این آر سی اور حراستی کیمپ سے متعلق سوالات کئے ہیں ۔سوالات پوچھنے کا جو وقت ہے اس کو لے کر ہی مالارائے کی نیت پر سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں کیوں کہ
4فروری 2020کو چار ممبر پارلیمنٹ جن میں اروند گنپت ساونت،کودی کونیل سریش، اتم کمار ریڈی اور مالا را ئے شامل ہیں نے گرہ منترالیہ سے تحریری سوال کیا جس میں غیر قانونی شہریوں کیلئے حراستی کیمپ کی تعداد اور اس کے ماڈل سے متعلق پوچھے گئے ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ اگر این آر سی اور شہریت ترمیمی امالیکٹ نافذ ہوجاتا ہے تو کیا ان حراستی کیمپ کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔اگرایسا ہے تومتوقع افراد کے اضافے کی تعداد سے متعلق بتایا جائے ۔
ان چار ممبرپارلیمنٹ نے حراستی کیمپ سے متعلق کل 7 سوالات کئےہیں ۔مگر وزارت داخلہ کی جانب سے وزیر مملکت نتیانند رائے نے صرف تین سوالوں کا جواب دیا کہ حراستی کیمپ کی کل تعداد کاعلم نہیں ہے ۔کیوںکہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ریاستی حکومتیں اس کی تعمیر کررہی ہیں اس لئے ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔این آر سی سے متعلق کسی بھی سوال جواب دینے سے گرہ منترالیہ نے گریز کیا۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر این آر سی اور حراستی کیمپ سے متعلق واضح جواب دینے وزارت داخلہ نے گریز کیوں کیا؟
دراصل شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف 2020میںملک بھر میں احتجاج جاری تھے۔دنیا بھر کی نگاہیں اس کی طرف مرکوز تھی ۔پارلیمنٹ میں این آر سی اور سی اے اے کے درمیان کورونا لوجی سمجھانے والی امیت شاہ بھی 190ڈگر پلٹا مارگئے ۔۔وزیر اعظم مودی نے دہلی کے رام لیلا میدان میں یقین دہانی کرانے کی کوشش کہ این آر سی کو لے کر جب ان کی حکومت نے غور ہی نہیں کیا تو اس کو نافذ کرنے کا سوال کہاں سے آگیا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے این آرسی کے نفاذ کو لے کر کسی بھی سوال کا واضخ جواب دینے سے گرہ منترالیہ نے گریز کیا ۔ایسے میں اگر یہ سوال کھڑا کیا جارہا ہے کہ مالا رائے نے یہ سوال کیوں کی کہ اگر این آر سی نافذ کیا جاتا ہے تو پھر قیدیوں اور حراستی کیمپ کی تعداد کیا ہوگی؟
پارلیمنٹ میں حاضری کے اعتبار سے مالارائے کا کوئی خاص اچھا ریکارڈ نہیں ہے۔انہیں پانچ سالوں میںانہو ں نے محض دس مرتبہ بحث میں حصہ لیا اور پارلیمنٹ میں ان کی حاضری کی شرح محض 43فیصد تھی۔جب کہ ملک بھر کے ممبران پارلیمنٹ کی حاضری کی مجموعی شرح 79فیصد ہے اور بنگال کے ممبران پارلیمنٹ کی شرح محض 66فیصد ہے۔یعنی اوسط شرح سے بھی کم انہوں نے پارلیمنٹ حاضری دی ہے۔یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے ہ تحریری سوالات میں ممبر پارلیمنٹ کے ذاتی کردار سے زیادہ پارلیمانی کمیٹی کا رول زیادہ ہوتا ہے۔سی پی آئی ایم کے ورکرس یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ این آر سی کے نفاذ سے متعلق صرف مالارائے کا نہیں بلکہ ترنمول کانگریس کی پارلیمانی کمیٹی کا رول زیادہ ہے۔
جنوبی کلکتہ میں اس مرتبہ تینوں بڑی پارٹیوں نے خاتو ن کو میدان میں اتارا ہے اور اس مرتبہ خواتین کے درمیان مقابلہ ہے۔سماجی کارکن سائرہ شاہ حلیم جو سابق ڈپٹی آرمی چیف ضمیرالدین شاہ کی بیٹی ہیں بھی اس مرتبہ سی پی آئی ایم کی طرف سے میدان میں ہیں ۔ان دونوں کے درمیان موازنہ کیا جارہے کہ ایک طرف مالارائے ہیں جن کی پارلیمنٹ کی کارکردگی مایوس کن ہیں تو دوسری طرف سائرہ شاہ حلیم ہیں جو ٹی وی ڈیبیٹ سے لے کر، سول سائٹی کے پروگراموں اور تمام پلیٹ فارموں سے این آر سی اور سی اے اے کے کی مخالفت میں بلندآواز کی مالک رہی ہیں۔
مالا رائے پر دوسرا الزام ہے کہ ایک طرف ترنمول کانگریس مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کادعویٰ کرتی ہے تو دوسر ی طرف 7نومبر 2019میں بابری مسجد ملکیت کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے محض ایک مہینے کے بعد ہی 10دسمبر2019 کوپارلیمنٹ میں رام مندر کی تعمیر ، رام مندر ٹرسٹ سے متعلق مالا رائے نے بی جے پی کی حریف جماعت چراغ پاسوان سوالات کئے۔
ہم نے ایک بار پھر پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر جاکر اس کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ دعویٰ بھی سچ ہے۔مالارائے نے وزارت داخلہ سے رام مندر کی تعمیر اور ٹرسٹ کو لے کر سوالات کئے ہیں ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ملک بھر میں شہریت ترمیمی ایکٹ کو لے کر بحث چل رہی تھی کہ اسی وقت مغربی بنگال سے یہ خبر آئی کہ بنگال میں بھی غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کیلئے حراستی کیمپ تعمیر کئے جارہے ہیں ۔گرچہ مغربی بنگال کے محکمہ جیل کے وزیر اجول بسواس نے بار بار وضاحت کی اس کا تعلق این آر سی اور سی اے اے سےنہیں ہیں ہے۔بلکہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تعمیر کئے جارہے ہیں ۔
مگر حراستی کیمپ کی خبر 16نومبر 2019کو آئی ۔یہ وہی دور ہے جب ملک میں شہریت ترمیمی بل کو لے کر خوف چرچا تھی۔سپریم کورٹ کا فیصلہ کئی سال پرانے ہیںاس کے باوجود 2019میں ہی حراستی کیمپ بنانے کا معاملہ سامنے کیوں آیا ۔ایک طرف ممتا بنرجی کہتی ہیں کہ کسی کی شہریت نہیں چھینی جائے گی ۔دوسری بات یہ ہے کہ بنگال کس کو غیر ملکی اور درانداز کہا جاتا ہے۔