Sunday, December 22, 2024
homeہندوستانپردہ دشمنی میں قومی جٔھنڈے کی توہین---- ترنگے کو ہٹا کر اس...

پردہ دشمنی میں قومی جٔھنڈے کی توہین—- ترنگے کو ہٹا کر اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرایا

بنگلور :(ایجنسی)

کرناٹک میں حجاب پر پابندی کو لے کرتنازع گہرا ہوجارہاہے ۔ایک اور ویڈیو سامنے آیا ہے ،جس میں ایک طالب علم شیموگہ کے ایک یونیورسٹی میں پول پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لہراتا نظر آرہاہے۔ کرناٹک کی میڈیا رپورٹس کے جواب میں اس نوجوان نے پول پر لگے ترنگے کو ہٹا کر اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرایا۔ ویڈیو میں پول کے نیچے کھڑے طلبہ جے شری رام کے نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔ وہاں بڑی تعداد میں جمع ہوئے کالج کے طلبہ بھگوا جھنڈے یا اسٹول لہرا رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ویساہی واقعہ ہے جب راجستھان کے ادے پور میں بھیڑ نے شمبھوناتھ ریگر کے معاملے میں ضلع عدالت پر ترنگا اتار کر بھگوا جھنڈا لہرا دیا تھا۔

ملک میں ترنگے کی توہین کا آر ایس ایس اور بی جے پی جب تب سامنا کرتے رہتے ہیں۔ کرناٹک میں جس طرح حجاب کو سیاسی رنگ وہاں کی سرکار نے دیا ہے ، اس واقعہ کے سامنے آنے کےبعد یہ حقیت پھر سے سامنے آیا ہے کہ آر ایس ایس سے جڑی تنظیمیں ترنگے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔

کانگریس لیڈر نے کہا، ’کرناٹک میں کچھ تعلیمی اداروں کی حالت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ ایک معاملے میں قومی پرچم کی جگہ بھگوا جھنڈا لگا دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں امن و امان کی بحالی کے لیے متاثرہ اداروں کو ایک ہفتے کے لیے بند کر دینا چاہیے۔ تعلیم آن لائن جاری رہ سکتی ہے۔

باحجاب لڑکی کئی لڑکوں پر پڑی بھاری، جے شری رام کےجواب میں کہااللہ اکبر، ٹوئٹرپر لوگ شیرنی سے کررہیں تعبیر

کرناٹک میں حجاب بمقابلہ بھگوا شال کا تنازع زور پکڑاتا ہی جارہا ہے۔ منگل کے روز ایک باحجاب طالبہ کی زعفرانی لباس میں ملبوس طلبا کے ایک گروپ کی طرف سے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر منظر عام پر آگئی ہے، جس کے بعد سے سوشل میڈیا صارفین لگاتار مختلف انداز میں اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کررہے ہیں۔

ٹوئٹر کے صارفین کا بڑا طبقہ اس بے باک اور جری طالبہ کی حمایت میں سامنے آیا ہے۔ صارفین نے مسلم طالبہ کو زعفرانی لباس میں ملبوس لڑکوں کے سامنے بہادری سے کھڑے ہونے پر خوب سراہا ہے جنہوں نے اسے دھونس دینے کی کوشش کی تھی۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیو میں اس لڑکی کو پی ای ایس انجینئرنگ کالج (P. E. S. Engineering college) کی طالبہ بتایا جارہا ہے۔

حجاب تنازع،کرناٹک کے اسکول کالج تین ر ز کے لیے بند
حجاب تنازع پر کرناٹک میں زبردست ہنگامہ جاری ہے۔ دن بھر دونوں اطراف کے طلباء کالجوں میں احتجاج کرتے رہے۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے اگلے تین دن کے لیے اسکول اور کالج بند رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ چیف منسٹر بسواراج بومئی نے سوشل میڈیا پر یہ جانکاری دی ہے۔ وہیں ادھر مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے کہا ہے کہ حجاب تنازع کے پیچھے غزوہ ہند کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے اسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی سازش قرار دیا ہے۔

ڈی کے شیوکمار نے منگل کو کہا تھاکہ جن اداروں میں اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں انہیں کچھ دنوں کے لیے بند کر دینا چاہیے۔

ضلع انتظامیہ نے یہاں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کالج انتظامیہ کو چھٹی کا فیصلہ اپنے حساب سے لینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہاں کرناٹک کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار نے ایسے واقعات سے متاثرہ تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

ہم جذبات نہیں قانون کے مطابق لیں گے فیصلہ ، آئین ہمارے لئے بھگوت گیتا: کرناٹک ہائی کورٹ
حجاب کو لے کر کرناٹک میں جاری تنازع کے درمیان کرناٹک ہائی کورٹ نے منگل کو کہا کہ بین الاقوامی برادری ہمیں دیکھ رہی ہیں اور یہ اچھی بات نہیں ہے ۔ کورٹ نے کہا کہ سرکار طلبہ کو دو مہینے کیلئے حجاب پہننے کی اجازت دینے کی درخواست سے متفق نہیں ہے ۔ وہ اس معاملہ کو میرٹ پر اٹھائے گی ۔ جسٹس کرشنا ایس دیکشت کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ مخالفت ہورہی ہے اور طلبہ سڑکوں پر ہیں ۔ سبھی واقعات پر نظر رکھی جارہی ہے ۔

بنچ نے کہا کہ ہمارے لئے آئین بھگوت گیتا کے برابر ہے ، ہمیں آئین کے مطابق ہی کام کرنا ہوگا ۔ میں آئین کی حلف لینے کے بعد اس صورتحال پر آیا ہوا کہ اس معاملہ پر جذبات کو الگ رکھ کر سوچا جانا چاہئے ۔ بنچ نے کہا کہ سرکار قرآن کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی ۔ پسند کی ڈریس پہننا بنیادی حق ہے، حالانکہ سرکار بنیادی حقوق پر پابندی لگا سکتی ہے ۔ سرکار کی جانب سے ڈریس پر کوئی واضح حکم نہیں ہے ۔ حجاب پہننا ذاتی معاملہ ہے ۔ اس سلسلہ میں سرکاری حکم پرائیویسی کی حدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔

حجاب تنازع: مسلم طالبات کو اے پی سی آر کی قانونی مدد
کرناٹک ہائی کورٹ نے آج کندرپارہ کالج کے مسلم طلباء کے معاملے کی سماعت کی جس میں کرناٹک حکومت کی طرف سے کالجوں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس کرشنا ایس دیکشت نے درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کل اس معاملے کی سماعت کرنے کا حکم دیا اور طلباء اور عوام سے امن و سکون برقرار رکھنے کی درخواست کی۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) نے آج کرناٹک ہائی کورٹ میں طلبا کی نمائندگی سینئر ایڈوکیٹ دیودت کامت کے ذریعے کی، جنہوں نے عرض کیاکہ ’اسکولوں میں، کوئی نام پہنتا ہے، کوئی کوئی حجاب کرتا ہے، یہ مثبت سیکولرازم کی عکاسی ہے جس کی یہاں ہندوستان میں پیروی کی جاتی ہے۔‘ کامت نے عرض کیاکہ کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کے سیکشن 7 کے تحت جاری کردہ GO ریاست کے اختیارات سے باہر ہے اور ڈریس کوڈ نہیں لگ سکتا جو آرٹیکل 25، 19 اور 14 کی واضح خلاف ورزی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا، کہ کیا پہننا ہے رازداری اور اظہار رائے کے حق کا ایک حصہ ہے اور لباس کا ضابطہ اگر تجویز کیا گیا ہے تو یہ معقول اور بنیادی حقوق سے ہم آہنگ ہونا چاہیے … حجاب پہننے والے طالب علموں کو الگ سے بیٹھنے کی اجازت دینا ’مذہبی نسل پرستی‘ کی ایک شکل ہے اور’ اچھوت کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا‘ انہوں نے سوال کیا، ’’محض امن و امان کی صورتحال امن عامہ کا مسئلہ نہیں ہے… ایک لڑکی سر پر اسکارف پہن کر اسکول جارہی ہے، یہ امن عامہ کا مسئلہ کیسے ہوسکتا ہے‘‘؟ اے پی سی آر کا خیال ہے کہ آئین میں دی گئی بنیادی آزادیوں اور حقوق کا سب کے لیے احترام کیا جانا چاہیے اور ریاست کو ایک قابل ماحول بنانے کی اپنی ذمہ داری پر عمل کرنا چاہیے جہاں ان حقوق کا آزادانہ استعمال کیا جا سکے۔ ہم ان طلباء کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں، جنہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، عدالت اور اس سے باہر۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرناٹک میں’حجاب‘ پہننے پر تنازعہ پیر کو زور پکڑ گیا اور کچھ طالبات نے یونیفارم کو لے کرحکومت کے احکامات کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی نے امن وامان برقرار رکھنے کی اپیل کی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین