Thursday, November 21, 2024
homeتجزیہاقبال: ایک شاعر جس نے اپنا سکہ زمانے پہ بٹھا دیا :...

اقبال: ایک شاعر جس نے اپنا سکہ زمانے پہ بٹھا دیا : ڈاکٹر طہ حسین، مصر

(ڈاکٹر طہ حسین (1883 ء تا 1973ء) مصر کے ایک ممتاز جدت پسند دانشور اور ادیب تھے۔ انھیں “عربی ادب کا ڈین” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ کم عمری ہی میں نابینا ہوگئے تھے مگرمسلسل محنت سے علم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا اور عربی زبان و ادب کا ایک معتبر بین الاقوامی حوالہ تسلیم کیے جانے لگے۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی میں پروفیسر رہے اورادب کے نوبیل انعام کے لیے بھی نامزد ہوئے۔ وہ علامہ محمد اقبال کے زبردست مداح تھے اور ان پہ ایک یادگار خطبہ:”اقبال شاعر نفسہ علی الدنیا و علی الزماں” کے نام سے ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔) ترجمہ: ڈاکٹر اعجازالحق اعجاز

عالم اسلام میں دو ہی ایسے شاعر پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے اسلامی ادب کا مقام و مرتبہ افلاک تک بلند کر دیا ہےاور اس عظمت کا نقش جبین ِ زماں پہ ثبت کردیا ہے۔ ایک ہندوستان کا شاعر محمد اقبال اور دوسرے عرب دنیا کا شاعر ابو العلا معری۔ یہ دو ایسے شاعر ہیں جو ایک دوسرے سے بہت سے مماثلات کے حامل ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان میں بہت سے متخالف پہلو بھی نمایاں ہیں۔ بنیادی طور پہ یہ دونوں شاعر ہیں، دونوں مفکر ہیں اور دونوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ فلسفے کو شاعری اور شاعری کو فلسفے کے تابع کر کے دکھادیا ہے اگرچہ ان دو بڑے علمی شعبوں میں ایسی مطابقت و موافقت پیدا کرنا بے حد دشوارامر ہے۔ ان دونوں شعرا میں ایک نمایاں مشترکہ پہلو یہ ہے کہ ان دونوں کو تصوف پہ بہت دسترس تو حاصل تھی ہی مگر انھوں نے فر سودہ تصوف کی کورانہ تقلید کے خلاف علم بغاوت بھی بلند کیا اور تصوف کی عام روش سے ہٹ کر اپنے جداگانہ مسلک کی تراش خراش کی سعی کی اور اس معاملے میں کوئی دوسرا ان کامثیل نہ تھا۔ دونوں نے پوری قوت سے اپنی شخصیت کا اثبات کرتے ہوئے انسان کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ اپنی ذات کو اسی طرح شناخت کرے جس طرح شناخت کرنے کا حق ہے اور اپنا نقش جریدہ زماں پہ پوری آب و تاب سے نقش کردے اور اپنی ذات کو کسی بھی دوسری ذات میں چاہے وہ کوئی بھی ہو فنا ہونے سے بچائے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر اس سے آگے ان میں متخالفات کی ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ ان میں سے ایک یعنی ابوالعلا تمام عمر ہندوستان کی طرف نظریں جمائے رہا اور وہاں سے اثر قبول کرنے میں مگن رہا یہاں تک کہ اس نےہندوستان کے تارک الدنیا برہمنوں اور جوگیوں کا سا رہن سہن اپنانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اور دوسرا یعنی محمد اقبال سرزمین حجاز کی طرف اپنے دل کو وابستہ کیے رہا اور مسلمان عرب رجال عظیم کا مداح رہااور وجود، حیات اور بقا کی مستحق انسانیت کا اعلیٰ ترین نمونہ انھی کو خیال کرتا رہا۔ یہ دونوں مفکر شاعر پہلے اپنے وجود پہ ایمان لانے کی بات کرتے تھے اورپھر دوسروں کو بھی اسی بات کی ترغیب دیتے تھے کہ وہ بھی خود پر ایمان لائیں اور اپنی اپنی شخصیتوں کو پختہ سے پختہ تر کرتے چلے جائیں۔ مگر ابوالعلا کا خود پہ ایمان اس نوعیت کا تھا کہ وہ اسے مایوسی اور تنہائی کی سلبی کیفیات کی اتھاہ گہرائیوں تک لے گیاجو دوسرے لوگوں سے حد درجہ اجنبیت اور مغائرت پہ منتج ہوا۔ اور دوسرا یعنی اقبال بھی خود پہ ایمان لایا مگر اس نے اجنبیت، مغائرت اور خلوت گزینی سے گریز کرتے ہوئے حیات کےمثبت اور مسرت بخش پہلووں کو بھرپور انداز سے اپنایا۔ اس نے حیات کے فطری تقاضوں کو خود پہ حرام نہ کیابلکہ تدبر سے کام لیتے ہوئے اپنی دانش مندی کا فیصلہ ان پہ لاگو کیا۔

پس اس طرح یہ دو بڑی شخصیات بہت سے متشابہات بھی رکھتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انتہا درجے کے اختلافی پہلو بھی پائے جاتے ہیں۔

ابوالعلا معری نے جس قدر حقارت سے لوگوں کو دیکھا اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ اپنی خودی کو مٹا کر اپنے وجود کو اپنے آقاؤں کے وجود میں گم کر دیتے ہیں اور خود کو ملوک کا غلام بنا لیتے ہیں۔ وہ اس شدید آرزو کا حامل تھا کہ لوگ کسی اور کی عزت سے زیادہ اپنی عزت کا شعور پیدا کریں اور جیسے خدا یکتا و بے مثال ہے وہ بھی خود کو بے مثال و یکتا تصور کریں جیسا کہ اس کے اس شعر سے واضح ہے:

تَوَحَّد فَإِنَّ اللَهَ رَبَّكَ واحِدٌ
وَلا تَرغَبَن في عِشرَةِ الرُؤَساءِ
(مفہوم:ایک وحدت میں ڈھل جا۔ کیوں کہ تیرا رب بھی ایک ہے اور روسا کی صحبت کا خواہش مند نہ بن۔ )

غرضے کہ ابوالعلا کی آرزو یہ تھی کہ لوگ اپنی ذات کا شعور حاصل کریں، اپنے حق کی شناخت کریں اور جریدہ عالم پہ اپنی شخصیت کے نقوش ثبت کریں اور خود کو ایک پست سطح سے بلند تر سطح تک لانے کی سعی کریں۔ اسی لیے وہ عمر بھر امرا وملوک پہ کڑی نکتہ چینی کرتا رہا۔ اس کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ترجمہ:”اقامت گراں گزرنے لگی ہے، آخر کب تک میں ان لوگوں میں زندگی بسر کرتا رہوں جن کے حکام ان کی فلاح و بہبود کے برعکس احکام جاری کرتے ہیں اور جنھوں نے رعایا کو ظلم ستم کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ چالبازی کو بھی جائز سمجھتے ہیں اور اس کی مصلحتوں کو پس پشت ڈال دیا ہے حالانکہ وہ خود اسی کے اجزا میں سے ہیں۔ ”

یہ صورت حال ابوالعلا کے لیے کسی بھی طرح گوارا نہ تھی کہ وہ بھی ان لوگوں کی طرح زندگی بسر کرے۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس زمانے کی اجتماعی زندگی کسی طرح بھی اس کے لیے سازگار نہ ہو سکتی تھی سوائے اس کے کہ وہ نفی ذات کے رستے پہ نکل کھڑا ہواور غلاموں کے ایک ریوڑ میں خود بھی ایک ایسے غلام کی طرح جیے جو چند چھوٹے چھوٹے مفادات اور سہولتوں کی خاطر امرا و ملوک کے سامنے ذلیل وخوار ہونا بھی گوارا کر لیتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنا اس کے لیے ممکن نہ تھا اس لیے اس نے اپنے گھر تک خود کو مقیدومحصور کرلیا اور پچاس سال تک وہ اسی حالت میں اپنے گھر میں مقیم رہا اور کبھی باہر قدم رکھنا گوارا نہ کیا۔ دوسری طرف اقبال ہے۔ وہ بھی ابوالعلا ہی کی طرح اپنے اوپر زبردست ایمان لایا لیکن اس نے ایمان بالنفس پہ اکتفا نہ کیا کہ اپنی ذات کے حصار ہی میں قید رہتا اور اپنے اوپر ہی قناعت کرکے بیٹھ رہتا اور اپنی شخصیت کی روح کو تمام انسانیت میں بیدار کرنے سے دست کشی اختیار کرتا۔ وہ تو مثبت رویہ رکھنے والا انسان تھا اور اس کی یہ شدید خواہش تھی کہ اپنے آپ پر ایمان لائے اور دوسروں کو بھی اس بات پہ قائل کرے کہ وہ بھی اپنے آپ پر ایمان لائیں۔ صرف برصغیر پاک و ہند کی حد تک نہیں، عالم اسلام کی حد تک نہیں بلکہ وہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے یہی سوچتا تھا کہ وہ ایمان بالنفس کی منزل سے گزریں اور یہ کہ انسان زندگی کو مسخر کرے نہ کہ اس کے سامنے سر افگندگی کا مظاہرہ کرے اور اس کے بہت سے مظاہر میں سے کسی مظہر میں اپنی ذات کو فنا کردے۔ اس حوالے سے اقبال کی سوچ کافی منطقی تھی۔ وہ اجتماعیت کا بھی قائل تھااور اس حوالے سے بہت مخلص بھی تھا۔ چناں چہ اس نے خود اپنی ساری زندگی امت مسلمہ اور بنی نوع انسان کو یہ نصیحت کرنے میں صرف کردی کہ سب سے پہلے انسان اپنی نظر میں موقر و مکرم ہو تاکہ وہ دوسروں کی نظر میں موقر و مکرم ہوسکے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ ایسی زندگی جس میں انسان انسان سے خلوص کا مظاہرہ کرے، انسان انسان کا مددگارو خیر خواہ ہو اس وقت تک نہ استوار ہو سکتی، نہ درست روش اختیار کرسکتی ہے، نہ ہی ثمر آور ہو سکتی ہے جب تک کہ ہر انسان کی دوسرے انسان سے ایک منفرد شناخت متعین نہ ہو اور وہ خود اس بات پہ ایمان نہ لائے کہ اس کا خود بے حد منفرد وجود ایک حقیقت ہےاور یہ کہ جس خیر کو وہ لوگوں تک منتقل کرنا چاہتا ہے اور جس سے وہ کرہ ارض کو بھر دینا چاہتا ہے اس کا چشمہ اس کی ذات سے اس طرح پھوٹے کہ یوں لگے کہ وہ ایک یکتا فرد سے پھوٹ رہا ہے جو ایک خاص وجود کا حامل ہے جو دوسروں سے قطعی الگ شناخت رکھتا ہے مزید یہ کہ وہ خیر کی قوت ارادی رکھتا ہے اور اسے اپنی منفرد ذات سے قصداً اور شعوری طور پہ جاری و ساری کرنا چاہتا ہے اس طرح نہیں جیسے روشنی چراغ سے پھوٹتی ہے کہ چراغ کا ارادہ اس میں شامل نہیں ہوتا بلکہ اس طرح جیسے نور ذات الہٰی سے صدور کرتاہےکہ اس میں یہ ارادہ الہٰی شامل ہوتا ہے کہ وہ تمام عالم کو منور کردے۔ جو کچھ اقبال فرد کے لیے پسند کرتا تھا وہی کچھ قوموں کے لیے بھی پسند کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ قومیں اپنی شیرازہ بندی کرلیں اور ان عوامل پہ متفق ہو جائیں جن سے وہ ایک ایسی اجتماعیت میں ڈھل جائیں جس کے نفع و نقصان اور ضروریات، امنگیں اور نصب العین سب یگانگت کے حامل ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاص طور پہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقبال نے سب سے زیادہ اسی بات پہ آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی ایک منفرد شناخت کا احساس خود میں پیدا کریں۔ جب کہ ان کے ہاں وہ سارے لوازمات موجود ہیں جو انھیں ایک جماعت کی صورت میں متشکل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں یعنی ان کے مشترکہ آدرش، اندیشے اور بلند مقاصدجو ان سب کے قلوب و اذہان میں جاگزیں ہیں۔ اس لیے ان پہ لازم ہے کہ وہ اپنی ایک الگ شناخت پہ زور دیں اور ان کا ایک مستقل سیاسی و معاشرتی وجود ہواور پھر وہ ہندوستان کی دوسری اقوام اور اقوام عالم کے مابین خیر خواہی اور تعاون کے نیک ارادوں کو بروئے کار لائیں جس سے تہذیب پیش رفت کرے اور سب انسانوں کی بھلائی ہو اور جو انسان کو تاریک اور شر انگیز زندگی سے نجات دلائے اور ایک نئی اور بہتر زندگی کی طرف راغب کرے۔

غرضے کہ اقبال یہی چایتا تھا کہ فرد اپنے وجود میں ایک اکائی بن جائے اور پھر ملت اپنے وجود میں ایک اکائی بن جائے۔ اور اکائی کی تشکیل کا یہ عمل اس اشتراکِ عمل کا ذریعہ بنے جو بالارادہ پیدا ہوتا ہے نہ کہ محض قوائے فطریہ کا زائیدہ ہوتا ہے۔ یعنی جس کی بنیاد قوائے دلی اور قوائے عقلی پہ ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان بقول ارسطو ایک ” سماجی حیوان” بنتا ہے۔ لیکن یہ حیوان اپنے شعوری ارادے اور عقل کی بنا پرمعاشرتی حیوان بنتا ہے نہ کہ اپنے جبلی تقاضوں کے تحت جیسا کہ شہد کی مکھیاں یا چیونٹیاں ایک اجتماعیت کی تشکیل کرتی ہیں۔ کیوں کہ انسان کرہ ارض کی تمام ذی روح ہستیوں میں سے اشرف ترین ہے۔ پس لازم ہے کہ وہ زمین پراپنی ایک امتیازی شان پیدا کرے یعنی بنی نوع انسان کے فرد کی ایک الگ شناخت ہو اور پھر اقوام کی بھی الگ الگ شناخت ہو اور یہ شناخت جو ہر فرد کو اس کا قائم بالذات وجود عطا کرتی ہے اور یہ باہمی اشتراک و تعاون جو سب کو اس بات کا موقع دیتا ہے کہ وہ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کریں اور یہ ایک اصول اور آئین کی طرح لوگوں میں رائج ہو جائے۔

وجود شخصی یعنی خدا کی طرح ایک اکائی بن جانے اور خدا ہی کی طرح اپنی الگ شناخت پہ اصرار کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انسان فطرت کو مسخر کرے، ان وجوہات کی بنا پر نیز نکلسن کے اسرار خودی کے ترجمے کے وسیلے سے اقبال کے بارے میں اہل یورپ نے یہ غلط رائے قائم کی کہ وہ نطشے سے متاثر ہے اور اس نے اس کے نظریہ فوق البشر سے اثر لیا ہے۔ لیکن اقبال نے ان لوگوں کے جواب میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جب اس نے اپنا نظریہ مرد کامل پیش کیا تھا تو وہ ابھی نطشے سے واقفیت نہ رکھتا تھا اور اس سے وہ اس وقت ہی متعارف ہوا جب وہ اپنا یہ نظریہ کافی حد تک پایہ تکمیل تک پہنچا چکا تھا۔

یہ طے شدہ امر ہے کہ ابوالعلا سے قبل تاریخ اسلام میں ان دونوں عظیم شعرا جیسی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ ہماری آرزو ہے کہ عالم اسلام میں اس جیسا کوئی دوسرا پیدا ہولیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نہ ابوالعلا سے پہلے اور نہ ابوالعلا سے اقبال تک کے عرصے میں ان دونوں جیسا کوئی شاعر عالم اسلام میں پیدا ہوسکا۔ عالم اسلام کو ابوالعلا کا ثانی دیکھنے کے لیے نو دس صدیاں انتظار کرنا پڑا۔ مگر اقبال اپنے پیش رو سے زیادہ خوش قسمت ثابت ہوا کیوں کہ وہ جس زمانے میں پیدا ہوا وہ ابوالعلا سے کافی مختلف تھا۔ ابوالعلا کا زمانہ وہ تھا جس میں مسلمانوں کے زوال و انحطاط کا آغاز ہو رہا تھااور عجمی خاص طور پر ترکی عناصر نے عالم اسلام پر اپنا گہرا رنگ جمانا شروع کردیا تھا اور یورپ صلیبی جنگوں کے ذریعے مسلمانوں پر لشکر کشی کے لیے تیاریاں پکڑ رہا تھا۔ ان حالات سے ابوالعلا بہت ناخوش تھا اور مسلمانوں کو اس امر کی طرف راغب کرنا چاہتا تھا کہ وہ خود جدوجہد کر کے اپنے حالات میں تغیر و تبدل پیدا کریں تاکہ اللہ بھی ان کے حالات بدل دے۔

اقبال نے ایک الگ دور میں آنکھ کھولی۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب مسلمان انتشارکا شکار ہو چکے تھے اور انھیں اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت تھی۔ وہ بحیثیت قوم ضعف کا شکار ہو چکے تھےاور انھیں قوت کی ضرورت تھی۔ باوجودیکہ ان میں انقلابی سوچ، قوت کے حصول کی خواہش اور اشتراک عمل کے تقاضے یکسر ختم نہ ہوگئے تھے۔ اگرچہ ان کو نوآباد کاروں اور دیگر کی شکل میں ایسے دشمنوں کا ہر وقت سامنا تھا جو ان کا وجود مٹا دینے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف تھے۔ پس ان دونوں شعرا کےزمانے ایک دوسرے سے ایک پہلو سےتو مماثل تھےمگر بعض دوسرے پہلووں سے بالکل مختلف تھے۔ چناں چہ ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ ابوالعلا کو اس وسیع علم تک رسائی نہ تھی جو اقبال کو حاصل تھا اور اسے اس وسیع و عمیق فلسفے کا بھی کوئی تجربہ نہ تھا جو اقبال کو حاصل تھا۔ اسی طرح ابوالعلا کا سامنا اس تباہ کن مادی مغربی تہذیب سے بھی نہ تھا جس کا اقبال کو تھا اورجس کے بہت معمولی سےاجزا ہی کواقبال نے قبول کیا تھا اور اس کے بڑے حصوں کو اس نے مسترد کر دیا تھا۔ ان دونوں کے دعاوی کا مقصد اس لحاظ سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے کہ دونوں ہی عالم اسلام اور اس سے آگے بڑھتے ہوئے تمام عالم انسانیت کواپنی ذات اور حقوق کی شناخت کی اور خودکو کسی بھی دوسری ذات حتٰی کہ ذات باری میں بھی فنا نہ ہونے کی مسلسل ترغیب دیتے ہیں۔ اقبال اور معری دونوں ہی بہت پرزور طریقے سے اہل تصوف کی جس روش کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتےہیں وہ یہی ان کا تصور فنا ہے۔ ابوالعلا نے اپنے زمانے کے صوفیا سے بہت سے پرزور مناقشات کیے اور ان کے تصور فنافی اللہ کو رد کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ مختلف کرامتوں کے ذریعے لوگوں کی عقول سے کھیلنے کی روش پر بھی اظہار ناپسندیدگی کیا۔ جب کہ اقبال متصوف بھی تھا اور رمتقشف بھی۔ اسے فلسفہ عالیہ پہ عبور بھی تھااور اعلیٰ ترین آدرشوں کی دلربا صورتوں کا احساس تھااور جمیل ترین تصورات کا ادراک بھی تھا لیکن وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنی ذات کو جمیل ترین اور جلیل ترین انوار الہیہ میں مدغم کر دے۔ بلکہ اس کے پیش نظر تو یہ مسئلہ تھا کہ اپنے وجود کی تحفیظ و تکمیل کیسے کرے۔ وہ تواس بات کا آرزو مند تھا کہ وہ اس ادغام کے بغیر ہی اس نور کا مشاہدہ اور اس سے کلام اپنی الگ شناخت کے بل بوتے پہ کرے یعنی خود شعوری کی حالت میں خدا شعوری کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنے رب سے کلام کرے اور گوش بر آواز ہو اور یہ اپنے ارادے ہی سے کرےنہ کہ منکر خود ہوکر اس بالا تر ہستی کے محیط بیکراں میں گم ہو کر۔ اقبال گم ہونا اپنے لیے اور نہ کسی اور کے لیے مستحسن خیال کرتا ہے۔ وہ ذات انسانی کی گم شدگی کے خلاف ہے۔ چناں چہ وہ یہ چاہتا ہی نہیں کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان یا ذات باری میں گم ہو جائے۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ انسان انسان کا مددگار ہو۔ اورانسان انسان سے مل کر کار خیر کرے اور اپنا اور خدا کا شعور رکھتے ہوئے اس کی کبریائی کا اعتراف کرے اوراس کی عبادت و شکر گزاری کرے۔ بایں ہمہ اسے اپنی ہستی کے ہونے کا اور اس کی یکتائی کا اعتراف بھی ہو۔ کیوں کہ خدا نے انسان کو عبادت کا حکم توصادرکیا ہے مگر یہ حکم کہیں نہیں دیا کہ بندہ اپنی ذات کو بھی ذات باری میں فنا کردے بلکہ حکم یہ ہے کہ انسان اپنے آزاد ارادے سے زندگی بسر کرے اور اپنے وجود کی دریافت کرے اور اپنے وجود کی منفرد شناخت کی تحفیظ و تکریم کرے۔ کیوں کہ بصورت دیگر اسے اپنے اعمال کا مکلف نہ ٹھہرایا جاتا۔ اس پر فرائض دینی عاید نہ کیے جاتےجو اس پہ کیے گئے ہیں۔ یہ سب فرائض اس پہ عاید ہی اس لیے کیے گئے ہیں کہ وہ ایک وجود مستقل کے طورپہ خود کو پہچانے یعنی ایک ایسا الگ شناخت کا حامل وجود جو اپنے رب کے روبرو قیام پذیر ہو اور جو بندگی کے شعور کے ساتھ بالارادہ خدا کی بندگی کرے۔

دونوں کا ایک اور پہلو بھی مشترک ہے اور وہ واقعہ معراج پہ غوروفکر اور اس کے تتبع میں عالم تصور میں سیر افلاک کرنا ہے۔ چناں چہ ابوالعلا نے جنت و جہنم پہ غوروفکر کیا اور عالم تصور میں جنت و جہنم کی سیاحت کی اور وہاں پیش آنے والے حالات و واقعات اپنے رسالۃ الغفران میں رقم کیے۔ محمد اقبال نے بھی اس سیر افلاک کی روایت کے تتبع میں جاوید نامہ تحریر کیا۔ اقبال اس سیر افلاک میں مولانا جلال الدین رومی کو اپنا راہنما بناتا ہے جس طرح قرون وسطیٰ میں دانتے ایک قدیم لاطینی شاعر ورجل کی راہنمائی میں یہ خیالی سفر طے کرتا ہے۔ اقبال کا دانتے سے تعارف کہیں آخری عمر ہی میں ہوا ہوگا۔ (ڈاکٹر طہ کا یہ اندازہ درست نہیں۔ اقبال کا دانتے سے تعارف جاوید نامہ کی تخلیق سے بہت پہلے ہوچکا تھا اور جاوید نامہ پہ اس کی کتاب “طربیہ خداوندی” کے کچھ اثرات بھی پائے جاتے ہیں اگرچہ یہ گہرے نہیں۔ اقبال کے پیش نظر زیادہ تر اسلامی سیر افلاک کی روایت ہی تھی۔ مترجم)۔

اقبال نے بھی افلاک کی ویسی ہی سیر کی تھی جیسی ابوالعلا نے کی تھی۔ لیکن اس سیاحت کے اثرات دونوں پہ متضاد انداز میں مرتب ہوئے۔ ابوالعلا اس جنت و جہنم کے سفر سےایک منفی انداز سے دین کے خلاف بغاوت کے جذبات لے کر لوٹا۔ لیکن اقبال ایک مختلف واردات قلبی لے کر لوٹا کہ اس سے اس کا ایمان مزید پختگی کے عمل سے گزرا اور اس نے سوچا کہ دنیا کوسدھارنے والی ایک انقلابی روح سے مملوکردے۔ استاد عبدالوہاب عزام نے یہ عمدہ کاوش کی ہے کہ ہمیں محمد اقبال کے حالات زندگی اور علمی و ادبی کارہائے نمایاں سے روشناس کرایااور وہ اب بھی اقبال کی شاعری کے عربی تراجم میں مسلسل مصروف ہیں۔ اقبال کے بارے میں آج جو کچھ بھی ہم عرب دنیا والےجانتے ہیں اس کا سہرا انھی کے سر ہےاور جیسے جیسے ان کا اقبال پہ کام سامنے آتا جائے گا ہم ان کے اور زیادہ ممنون احسان ہوتے چلے جائیں گے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم حق ادا کرنے والے بنیں اور اپنے اندر ایک خوئے کریمی پیدا کریں جس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم حق دار کے حق کا اعتراف کشادہ دلی سے کریں اور ہم اسے یاد کرکے وہ قرض اتارنے کی کوشش کریں جو ہم سب پہ واجب الادا ہے کیوں کہ وہی تو ہے جس نے ہمیں راہ حق دکھائی اور ہمیں اس فکر سے ثروت مند کیا کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں اور دنیا میں حق، خیر اور جمال کے لیے جدوجہد کریں تاکہ دنیا میں بھلائی اور خیر خواہی کا دور دورہ ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اقبال کو یاد کریں اور اس کی عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کریں اور یہ آرزو پیدا کریں کہ اس کا لافانی کلام دنیا کے لیے نفع رساں ہو اور ملت اسلامیہ کی اکثریت ان رفیع و وقیع خیالات سے مستفید و مستفیض ہوسکے۔ اور جب ہم اقبال کی عظمت کا اعتراف کریں تو ساتھ ہی ساتھ عبدالوہاب عزام کو بھی یاد کریں کیوں کہ وہی اس عظیم شخصیت کو ہمیں ملانے کا وسیلہ بنا۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین