ِّ
انگریزی اخبار ”دی ٹیلی گراف“میں شائع خبر کے مطابق سنٹرل کلکتہ میں واقع اسلامیہ اسپتال کی نئی عمارت میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کیلئے شروع کیا جارہا ہے۔گزشتہ پانچ سالوں سے یہاں تعمیراتی کام چل رہا تھا۔اس وقت 9منزلہ عمارت تیار ہوگئی ہے۔تاہم صرف پانچ منزلہ عمارت اندرونی طور پرتیار ہوسکا ہے۔
مگر پورے خبر میں سب سے حیرت انگیزبات یہ ہے کہ کوویڈ اسپتال کو چلانے کیلئے ایک پرائیوٹ ادارہ چیرنگ کروس نرسنگ ہو م سے معاہدہ کیا گیا ہے۔پرائیوٹ نرسنگ ہوم ڈاکٹرس، نرس اور دیگر ہیلتھ عملہ فراہم کرے گی۔
یہ بات اپنے آ پ میں تعجب خیز ہے کہ 1926میں قائم ہونے والا اسلامیہ اسپتال جس کے پاس خود کا نرسنگ اسکول ہے -وہاں نرسنگ کیلئے پرائیوٹ نرسنگ ہوم سے مدد لینی پڑی۔
خیال رہے کہ سابق مرکزی وزیر سلطان احمد جو اسپتال کے جنرل سیکریٹری تھے کے دور میں ہی قدیم عمارت کو منہدم کرکے نئی عمارت کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیاتھا۔2017میں ان کے انتقال کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا۔اس کے بعد ان کے چھوٹے بھائی اقبال احمد سابق ممبر اسمبلی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔انہوں نے تعمیر ی کام میں تیزی لاتے ہوئے 9منزلہ عمارت کی چھت تکمیل کردی۔ مگر وہ بیمار ہوگئے۔اس کے بعد سے اسلامیہ اسپتال کی تعمیر کا کام سست روی کا شکار ہوگیا۔
گزشتہ سال ستمبر میں نئی کمیٹی کی تشکیل ہوئی اور ریاستی وزیر فرہاد حکیم کو بڑے ہی شان بان سے صدر منتخب کیا گیا۔انہوں نے وزارت اقلیتی امورمغربی بنگال سے 3کروڑ روپے دلانے کا اعلان کیا۔ساتھ ہی یہ بھی اعلا ن کیا کہ جنوری سے اسلامیہ اسپتال کی نئی عمارت میں اوپی ڈی مریضوں کا علاج شروع ہوجائے گا۔ فروری میں افتتاحی تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا مگر اب پانچ مہینے کے بعد کوویڈ کے مریضوں کے علاج کا اعلان کیا جارہا ہے۔
اسلامیہ اسپتال سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ اس اسپتال پرسیاست دانوں کا اس طرح غلبہ ہے کہ ڈاکٹروں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔اسی وجہ سے خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہونے کے باوجود ڈاکٹر حضرات ان کے ساتھ کا م کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامیہ اسپتال کو چلانے کیلئے پرائیوٹ نرسنگ ہوم کی مدد لی جارہی ہے۔
اسلامیہ اسپتال سے وابستہ ایک سابق عہدیدار نے کہاکہ سلطان احمد کے دور میں وقف بورڈ سے 9کروڑ روپے گرانٹ کا معاہدہ ہوا تھا مگر ترنمول کانگریس کی اندرونی سیاست اور سلطان احمد کو نیچادکھانے کی پالیسی کے تحت اس معاہدے کو انجام تک نہیں پہنچنے دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ گرانٹ مل جاتا تو کافی پہلے اسلامیہ اسپتال کی تعمیر مکمل ہوجاتی۔
اسلامیہ اسپتال کی تعمیر کیلئے حکومت بنگال کی وزار ت صحت گرانٹ دینے کے بجائے وزارت اقلیتی امور سے گرانٹ دیا گیا ہے۔