عزہ :
اسرائیلی محاصرے اور مظالم کے شکار اہالیاں غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے امدادی بحری جہاز پر مالٹا کے ساحل کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ڈرون حملہ کیا گیا ہے جس کے بعد بحری جہاز ’کونشس‘ میں آگ بھڑک اُٹھی۔ امدادی سامان لے جانے والے تنظیم فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈرون حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
تنظیم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا تاہم مالٹا کی حکومت نے اس کی تردید یا تصدیق نہیں کی۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے مالٹا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی سفیروں کو طلب کرکے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں، غزہ کی ناکہ بندی اور بین الاقوامی پانیوں میں ایک شہری جہاز پر حملے پر سرزنش کریں۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن نامی تنظیم نے بحری جہاز کے غرق ہونے کا خطرہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر 30 بین الاقوامی انسانی حقوق کے کارکن سوار ہیں۔
تاہم مالٹا کی حکومت کا کہنا ہے کہ جہاز پر عملے کے 12 ارکان اور چار عام شہری سوار تھے۔ قریبی ٹگ بوٹ نے آگ بجھانے کا عمل شروع کیا جبکہ گشت پر مامور ایک مالٹا کی کشتی کو بھی روانہ کیا گیا ہے۔ کئی گھنٹوں کی امدادی کاموں کے بعد جہاز میں موجود تمام 16 افراد کے محفوظ ہونے کی تصدیق کردی گئی۔
تاحال بحری جہاز کے اوپر طیارے گردش کر رہےنو افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد بھی اسرائیل نے غزہ جانے والے امدادی سامان سے لدے بحری جہازوں کو بین الاقوامی پانیوں پر روکتا آیا ہے۔ یاد رہے کہ غزہ میں جنگ اُس وقت شروع ہوئی جب سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
جس کے جواب میں اسرائیل کے غزہ پر جاری بمباری میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
ریڈ کراس نے جمعہ کو خبردار کیا کہ اسرائیل کی طرف سے جنگ زدہ فلسطینی سرزمین پر دو ماہ تک امداد روکے رکھنے کے بعد غزہ میں انسانی ہمدردی کی کارروائیاں “مکمل تباہی کے دہانے” پر ہیں۔
ریڈ کراس نے ایک بیان میں کہا، “امداد کی ترسیل فوراً دوبارہ شروع کیے بغیر بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (آئی سی آر سی) کو خوراک، ادویات اور زندگی بچانے والے سامان تک رسائی حاصل نہیں ہو گی جن کی غزہ میں کئی پروگرام برقرار رکھنے کے لیے ضرورت ہے۔”
اسرائیل کی طرف سے ناکہ بندی شروع ہونے کے بعد سے اقوامِ متحدہ نے بارہا زمین پر انسانی تباہی سے خبردار کیا ہے اور قحط کا دوبارہ امکان ہے۔
آئی سی آر سی کے آپریشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر پاسکل ہنٹ نے جمعہ کے بیان میں کہا، “دشمنی کے خطرات اور مسلسل نقلِ مکانی سے نمٹنے اور فوری انسانی امداد سے محرومی کے نتائج برداشت کرنے کے لیے غزہ میں شہریوں کو روزانہ ایک زبردست جدوجہد کا سامنا ہے۔ اس صورتِ حال کو مزید بڑھنے کی اجازت نہ دی جائے اور نہ دی جا سکتی ہے۔”
آئی سی آر سی نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت “اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنا اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ اس کے زیرِ قبضہ شہری آبادی کی بنیادی ضروریات پوری ہوں”۔
نیز اس نے خبردار کیا، “اگر ناکہ بندی جاری رہی تو آئی سی آر سی کے مشترکہ کچن جیسے پروگرام صرف چند ہفتوں تک کام کر سکیں گے جو اکثر لوگوں کو ہر روز کا واحد کھانا فراہم کرتے ہیں۔”
آئی سی آر سی نے خبردار کیا کہ وہ غزہ میں جو فیلڈ ہسپتال چلا رہا ہے وہاں بھی “خوراک اور طبی سامان کی خطرناک حد تک قلت ہے اور بعض ضروری ادویات اور استعمال کی اشیاء پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں”۔
اس نے کہا، “پانی کے نظام میں خلل بشمول پانی کی پائپ لائنوں کی بندش اور ضروری ٹرکوں کی تباہی نے پانی سے پیدا شدہ بیماریوں کا ناقابلِ قبول حد تک زیادہ خطرہ پیدا کیا ہے۔”
آئی سی آر سی نے کہا، بار بار حملوں کے باعث صحت کی سہولیات اور عملے کا کام متأثر ہونے سے یہ سنگین صورتِ حال مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔
گذشتہ ماہ 15 انسانی اور طبی کارکنان کی ہلاکت اور حالیہ ہفتوں میں ہسپتالوں کو ہونے والے بڑے نقصان کی بنا پر اس نے خبردار کیا کہ ان مسائل سے “غزہ کا تباہ ہوتا نظامِ صحت مزید معذور ہو گیا ہے”۔
آئی سی آر سی نے کہا، “بین الاقوامی انسانی قانون واضح ہے: طبی عملے اور سہولیات کا ہر حال میں احترام اور تحفظ ہونا چاہیے۔
امداد کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ قیدیوں کو رہا اور شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔”
تنظیم نے مزید کہا، “فوری کارروائی کے بغیر غزہ مزید افراتفری کا شکار ہو جائے گا جسے انسانی ہمدردی کی کوششیں کم نہیں کر سکیں گی۔”