Thursday, May 15, 2025
homeاہم خبریں’’ 30اپریل ‘‘بنگال کی تاریخ کو مستقبل میں ’تاریک دن ‘کے طور...

’’ 30اپریل ‘‘بنگال کی تاریخ کو مستقبل میں ’تاریک دن ‘کے طور پر یاد رکھا جائے گا

سرکاری خزانے سے مندرکی تعمیر۔ریاست کی ثقافتی روح کی خلاف ورزی ہے، مغربی بنگال میں بی جے پی کی برہمنی فرقہ پرستی کو عروج کی راہ ہموار کرنے کی کوشش

انصاف نیوز آن لائن

30اپریل کو مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے ذریعہ دیگھا میںسرکاری خزانےسے تعمیر جگن ناتھ مندر(جسے ثقافت و کلچر کا نام دیا گیا ہے) افتتاح کے بعد ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیاکوئی سیکولر حکومت براہ راست مندر کی تعمیر کرسکتی ہے؟ ۔حد یہ ہے کہ ممتا بنرجی کی ہدایت پر مغربی بنگال حکومت کا محکمہ کلچر وثقافت جگن ناتھ مندر کی تعمیر کے افتتاح کی تصویر اور پرساد ریاست کے ہر شہری تک پہنچائیں گے۔سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کے پاس اب کوئی کام نہیںبچا ہے۔یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ ممتا بنرجی نے اپنے دور اقتدار میں بنگالی ثقافت و کلچر کو فروغ دینے کے نام پر ہندو ثقافت و ترویج و ترقی اس طرح سے کی ہیں کہ بنگالی ثقافت سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو کنارہ لگادیا گیا ہے۔


وزیر اعظم نریندر مودی کی اتر پردیش کے ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کے وقت آئینی حدود کو عبور کرنے پر سخت تنقید کی گئی تھی ۔تاہم رام مندر کی تعمیر پر سرکاری خزانے کا استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کیلئے ٹرسٹ بنایا گیا لوگوں نے چندہ دیا ۔یہ سوال الگ ہے کہ اس چندے کا جائز استعما ل ہوا ہے یا نہیں ۔ایودھیا کی ترقی کیلئے سرکاری خزانے کھول دئیے گئے۔دیگھا میں جگن ناتھ مندر کا یہ پروجیکٹ HIDCO، ایک سرکاری ادارہ نے تعمیر کیا ہے، اور افتتاحی تقریب کی نگرانی ریاستی ہندو مہاسبھا کے صدر چندرچور گوسوامی نے کی ہے،جن پر چند سال قبل گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی پوجا کرنے پر پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ جب بی جے پی اور وزیر اعظم مودی اپنے آئینی حدوود کو عبور کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیںتو ان کی سخت تنقیدیں کی جاتی ہیں تو پھر بنگال میںممتا بنرجی نے جس طریقے سے جگن ناتھ مندر کی تعمیر پر سرکاری خزانہ کا استعمال کیا ہے اور افتتاح کے موقع پر حکومت بنگال نے اخبارات میں اشتہارات کی اشاعت پر لاکھوں روپے خرچ کئے ہیں تو اس پرسوال اٹھنا لازمی ہے۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا کوئی حکومت سرکاری خزانے کا استعمال مذہبی عبادت گاہ کی تعمیر کرسکتی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 27میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست کسی خاص مذہب کے فروغ اور پھر مذہبی عمارات کی تعمیر نہیں کرسکتی ہے۔ایس آر بومبائی میں بومائی بمقابلہ یونین آف انڈیا (1994)، سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ سیکولرازم آئین کی ایک بنیادی خصوصیت ہے، اور ریاست کو اس طریقے سے کام نہیں کرنا چاہیے جس سے ایک مذہب کو دوسرے پر فروغ ملے۔ایم اسماعیل فاروقی بمقابلہ یونین آف انڈیا (1994) (ایودھیا تنازعہ سے متعلق) میں، عدالت نے واضح کیا کہ مذہبی معاملات میں ریاست کی شمولیت سیکولر کاموں تک محدود ہونی چاہیے، جیسے کہ امن و امان برقرار رکھنا یا عوامی زمین کا انتظام کرنا۔اس کے ذریعہ مذہب کو فروغ نہیںدیا جاسکتا ہے ۔

ترنمو ل کانگریس گرچہ یہ تاثردینے کی کوشش کررہی ہے کہ دیگھا میں جگن ناتھ مندر کی تعمیر کا بنیادی مقصد سیاحت کو فروغ دینا ہے۔بنگال اور جنوبی بنگال میں جگن ناتھ کے عقیدت مندوں کی اچھی خاصی تعداد ہے وہ پوری جانے کے بجائے یہاں آئیںگے۔مگر سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اصل مقصد ہندو وٹروں کو بی جے پی کی طرف جانے سے روکنا ہے۔تاہم کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ممتا بنرجی نے جس راہ کا انتخاب کیا ہے اس سے ممکن ہے کہ وقتی طور پر فائدہ مل جائے مگر اس سیاست کا بی جے پی کو ہی فائدہ پہنچے گا ۔

ایمرجنسی کے بعد جب اندراگاندھی اقتدار میں لوٹیں تو ان کے مشیر کاروں نے مشورہ دیا کہ ہندو علامات کو اختیار کریں ۔ماہرین مانتے ہیں کہ کانگریس کا زوال کا سفر اسی وقت شروع ہوگیا تھا۔کیوں کہ کانگریس نے 1947میں اقتدار سنبھالنے کے وقت یہ عہد کیا تھا کہ اس کا رجحان کسی ایک مذہب کی طرف نہیں ہوگا۔ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا ۔چناں چہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنذت نہرو نے صدر جمہوریہ راجندر پرشاد کے سومنا مندر کے افتتاحی پروگرام میں شرکت پر سخت اعتراض کیا۔اسی طرح لال بہادر شاستری کی درخواست اور اصرار کے باوجود نہرو کنبھ میلہ میں اشنان کرنے سے انکار کردیا کہ ایک ریاست کے سربراہ کیلئے مناسب نہیں ہے۔

سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار پرسون اچاریہ مغربی بنگال حکومت کےاس اقدام پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممتا بنرجی ’’نرم فرقہ پرستی ‘‘کے راستے پر چل رہی ہیں، جیسا کہ ان کے دوست اروند کجریوال نے کیا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ جو کجریوال کے ساتھ ہوا ہے وہ ان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ سیاحت کا معاملہ نہیں ہے، یہ ترنمول کانگریس(حکمران ترنمول کانگریس اور بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے درمیان مسابقتی فرقہ واریت کا معاملہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کوئی بھی شخص عدالت میں جائے گا، جہاں یہ معاملہ قانون کی گرفت میں آئے گا۔

سماجی سائنسدان اور ہندوستانی شماریاتی ادارے کے پروفیسر اندرانیل داس گپتا کہتے ہیںکہ جہاں تک میرا تعلق ہےتو میری رائے واضح ہے کہ 30 اپریل کا دن بنگال میں سیکولرازم کے اعتبار سے یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بنگال میں یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے سرکاری محکمے کے ذریعے براہ راست عبادت گاہ کی تعمیر پر عوام کا پیسہ خرچ کیا ہےمیں کسی دوسری ریاست میں مذہبی عبادت گاہوں کی تعمیر پر براہ راست سرکاری خزانہ کا استعمال کیا گیا ہے۔یہاں تک کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں بھی نہیں۔ ممتا بنرجی نے اب بنگال کی سیاست میں آخری سرخ لکیر کو عبور کر لیا ہے — ایک لکیر جو دنیا کے اس حصے میں کم از کم 1757 سے قائم ہے۔

داس گپتا کہتے ہیں کہ یہ صورت حال انتہائی خوفناک ہے۔اس سے ہندئوں کو سب سے زیادہ خوفزدہ ہونا چاہیے، کیونکہ لوگوں کی مستند مذہبیت اس وقت موت کے منہ میں چلی جاتی ہے جب اسے ریاست کا حصہ بنا دیا جاتا ہے، چاہے وہ پیسہ ہو یا طاقت کے ذریعے۔داس گپتا کہتے ہیں کہ ممتا بنرجی نے راج دھرم کی خلاف ورزی کی ہے۔بلکہ مذہبی آزادی پر بھی حملہ کیا ہے۔یہ ودیا ساگر کی توہین ہے جنہوں نے مذہب کی سرکاری سرپرستی کی مخالفت کی تھی۔یہ صرف ووٹ بینک کی سیاست ہے۔

جگناتھ مندر اڈیشہ کے پوری میں ہے، اور اس کی نقل اتنی اہم نہیں ہے۔ ملک کی سیاسی ثقافت کو بی جے پی برباد کر رہی ہے، جب کہ ریاست کی ثقافت کو ترنمول کانگریس آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی مدد سے برباد کر رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ ممتا بنرجی ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے مندر یا مسجد کیسے بنا سکتی ہیں؟ مسلمانوں کو دیگھا میں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ کیا ہم ہندوستان کے شہری نہیں ہیں؟ جو پاکستان یا سعودی عرب کے برعکس ایک جمہوری ریاست ہے؟ یہ ملک کی آئینی روح کو ناکام بناتا ہے۔ وزیر اعلیٰ مسابقتی فرقہ پرستی میں ملوث ہیں۔

دیگھا کے مقامی دوکانداروں کا کہنا ہے کہ افتتاح کے موقع پر تمام ہوٹل مالکان کو ہدایت دی گئی تھی وہ دکانیں بند رکھیں یا اس دن مٹن، چکن یا مچھلی پیش نہ کریں۔ دیگھا کے سمندری ساحل کے تمام مسلم سیاحوں کو پروجیکٹ کے افتتاح کے دوران پورا دن گھر کے اندر رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

سیاسی مبصر انجان بیرا کہتے ہیں کہ یہ ہماری سیکولر جمہوریہ کی آئینی روح کی ناکامی ہے، اور وہ مذہبی بنیاد پرستوں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک میں تفرقہ انگیز پالیسیاں تباہی مچا رہی ہیں، مودی اور ممتا اس ایکٹ میں شریک ثابت ہو رہے ہیں۔ ہم اندھیروں میں ڈوب رہے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں، وزیر اعلیٰ کے طور پر وہ دوغلے پن کی سیاست کر رہی ہیں۔ مذہبی طاقت کے کھیل میں، آئینی روح کو ختم کیا جارہا ہے۔

دلت شوشن مکتی مورچہ کے جنرل سکریٹری رام چندر ڈوم کہتے ہیں کہ بنگال میں اس طرح کے مندروں کا افتتاح کرنا ریاست کی ثقافتی روح کی خلاف ورزی ہے، جو کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کے ذریعہ برہمنی فرقہ پرستی کے عروج پر نظر رکھنے کے مترادف ہے۔

دراصل ممتا بنرجی وہی کچھ کررہی ہیں جو مودی نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے مذہب کا سہارا لیا ہے۔اگر ممتا بنرجی کے 14سالہ دور اقتدار کو دیکھا جائے اس میں کامیابی سے زیادہ ناکامی کی فہرست طویل ہے۔بدعنوانی اور غنڈہ گردی کی جڑی کافی گہری ہوگئی ہیں۔بدعنوانی سے عا م شہری پریشان ہیں۔بی جے پی کا خوف دکھا کرمسلمانوں کو پولرائز کی مدد سے اقتدار تک پہنچ جاتی ہے مگر مسلمانوں کی ترقی کیلئے انہوںنے کچھ نہیںکیا ہے۔امن وامان کا قیام بنیادی حکومت کی ذمہ داری ہے۔مگر مرشدآباد میں سازش کے تحت فرقہ وارنہ فسادات کرائے گئے ۔بی ایس ایف کے جوانوں کے بھیس میںغریب مسلمانوں کے گھروںپر حملے کئے گئے اور ممتا خاموش تماشائی بنی رہی۔مرشدآباد کا دورہ کرنے کی انہیںفرصت نہیں ملی ۔مگر وہ دیگھا جاکر تین دنوںتک قیام کیا ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین