Saturday, July 27, 2024
homeتجزیہکرناٹک کا حجاب تنازعہ: اصل قضیہ اور کرنے کا کام

کرناٹک کا حجاب تنازعہ: اصل قضیہ اور کرنے کا کام

ـ مولانا محمود احمد خاں دریابادی
کرناٹک میں حجاب کا معاملہ آج کل چرچا میں ہے، ہر کوئی اپنے طور پر اظہار خیال کررہا ہے، اگرچہ معاملہ عدالت میں ہے مگر دونوں طرف سے دھرنے، جلسے، جلوس، احتجاج وغیرہ ہورہے ہیں ـ ان تمام ہنگاموں کے بیچ میں اصل مسئلہ کیا ہے یہ شاید بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں ہوگا ـ

یہ بات سچ ہے کہ ملکی دستور کی دفعہ 14- 19 -25 وغیرہ کے تحت ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنی پسند کا کھانا کھانے اور اپنی پسند کا لباس پہننے کی آزادی ہے، اسی طرح دفعہ 29 – 30 کے تحت ہمیں اپنے ادارے، اسکول، مدرسے قائم کرنے اور وہاں اپنا نصاب پڑھانے اور اپنا ضابطہ نافذ کرنے کی آزادی ہے، یہ بنیادی حقوق ایسے ہیں جن میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا، نہ کوئی عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے نہ ہی کوئی پارلیمنٹ یا اسمبلی ان کے خلاف قانون بناسکتی ہے ـ

دستور میں دی گئی اسی آزادی کے تحت ہم دینی مدارس اور اپنے ایسے اسکول قائم کرتے ہیں جن میں عصری تعلیم دی جاتی ہے، وہاں کا نصاب، وہاں کا یونیفارم اور دیگر ضابطے بھی ہم بناتے ہیں ـ ہاں اگر ہمارے بچوں کو سرکاری ڈگری لینی ہو تو اس کے لیے اُنھیں سرکاری بورڈ سے امتحان پاس کرنا ہوگا اس کے بعد ہی ہمارے بچے بی اے، ایم اے، ایل ایل بی وغیرہ کر سکیں گے ـ باقی اسکول اور مدرسوں میں کون سی کتابیں پڑھائی جائیں گی کیا یونیفارم ہوگا اس سے حکومت کو کوئی سروکار نہیں ہوتا، جو لوگ اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کراتے ہیں ان کے لیے ان اداروں کے تمام ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ اُن اداروں کو یہ حق ہوتا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ضابطے کی کارروائی کریں، جرمانہ لگائیں یا اخراج کردیں ـ یہ بھی صحیح ہے کہ آج کل حکومتوں کی نیت خراب ہوگئی ہے وہ دستوری آزادی کو چھیننا یا کم از کم محدود کرنا چاہتی ہیں، بار بار مدارس اور اقلیتی اداروں میں بے جا مداخلت کی جاتی ہے، یہ سب غیر قانونی اور غیر دستوری ہے، ہمیں اس کے خلاف احتجاج بھی کرنا چاہیے اور قانونی کارروائی بھی ـ

اب آتے ہیں کرناٹک کی طرف، کرناٹک حکومت اور اس کالج جس میں تنازعہ ہوا ہے کا کہنا ہے کہ ہمیں اسکول کے باہر کوئی کیا پہنتا ہے اس سے کوئی مطلب نہیں وہ ان کا حق ہے، مگر اسکول کیمپس کے اندر سبھی اسٹوڈنٹ کو یونیفارم کے قانون پر عمل کرنا ہوگا، اگر آپ اس ادارے میں پڑھنا چاہتے ہیں تو کوئی بھی ایسا لباس جو یونیفارم کے علاوہ ہو وہ نہیں چلے گا ـ

مزید بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ دوسرے اسکولوں کا کیا ضابطہ ہے، ہم نے اپنے آس پاس ممبئی کے کچھ غیرمسلم پرائیوٹ ٹرسٹ یا کانوینٹ اسکولوں میں معلوم کیا کہ وہاں کیا ہوتا ہے ـ پتہ چلا کہ وہاں بھی کلاس روم میں حجاب کی اجازت نہیں، صرف یونیفارم ہی پہننا پڑتا ہے، ایک کانوینٹ اسکول کے بارے میں پتہ چلا کہ وہاں بچیوں کا یونیفارم اسکرٹ ہے، وہاں شلوار پہن کر آنے والی طالبات کو گیٹ میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں تھی، سختی کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ گیٹ کے باہر اتار کر اندر آو ـ ظاہر ہے چلتی سڑک پر شلوار اتارنا کھلی بے حیائی تھی، اس پر ہنگامہ ہوا، مقامی لیڈران بھی شامل ہوئے، ہزار مشکلوں کے بعد یہ طے پایا کہ بچیاں شلوار پہن کر گیٹ میں داخل تو ہوسکتی ہیں مگر اندر آنے کے بعد ایک گوشے میں شلوار اتار کر کلاس میں داخل ہوں ـ

اس بات کو ہم دوسری طرح بھی دیکھتے ہیں ـ الحمدللہ ہم لوگ ایک انگلش میڈیم اسلامی اسکول اور جونیئر کالج چلاتے ہیں، جس میں حکومت مہاراشٹر کے نصاب کے مطابق اعلی درجے کی عصری تعلیم اور اپنے مرتب کردہ اسلامی نصاب کے مطابق بہترین دینی تعلیم بھی دیتے ہیں، بلکہ ذہین بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ آٹھویں کلاس تک حفظ بھی مکمل کرادیتے ہیں، الحمد للہ پچھلے دس سال سے مہاراشٹرا بورڈ کے امتحان میں سو فیصد ریزلٹ جس میں تقریبا پچانوے فیصدی بچے فرسٹ ڈویزن اور تقریبا 65 فصد امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے ہیں ـ ہمارے یہاں بچے بچیوں کے لیے الگ الگ کلاس روم ہیں، غیر نصابی سرگرمیاں اسپورٹس پکنک وغیرہ بھی الگ ہوتی ہیں ـ ہمارا یونیفارم بچوں کے لیے کرتا، پاجامہ، ٹوپی، پچیوں کے لیے شلوار، قمیص، ڈوپٹہ اور چھٹی کلاس سے پچیوں کو مکمل اسلامی حجاب پہن کر اسکول آنا ضروری ہے، ہماری لیڈیز ٹیچرس کے لیے بھی اسکول کیمپس میں مکمل حجاب میں رہنا ضروری ہے ـ اب اگر ہمارے اسکول میں کوئی اپنی بچی کو اسکرٹ میں یا اپنے لڑکے کو ٹائی اور پتلون میں بھیجنے پر اصرار کرے اور کہے ہندوستانی دستور کے تحت مجھے اپنے پسند کا لباس پہننے کی آزادی ہے تو ہمیں کرنا چاہیے، اسے اجازت دے دینی چاہیے یا اس سے یہ کہنا چاہیے کہ اگر آپ کو ہمارے اسکول میں پڑھانا ہے تو آپ کو ہمارے ضابطے پر عمل کرنا ہوگا اس لیے کہ ہمیں بھی دستور نے اپنا ادارہ بنانے اور اپنا ضابطہ نافذ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ـ اسی طرح اگر کوئی لڑکا ہمارے مدارس میں اسلامی وضع قطع نہیں اختیار کرتا، حلق لحیہ یا ہپی کٹ بال رکھنے پر اصرار کرتا ہے تو ہم کیا کریں گے، اسی حالت میں پڑھائیں گے یا رخصت کردیں گے ؟

کرناٹک میں بھی یہی ہوا ہے وہاں حکومت نے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے لیے یونیفارم کا قانون نافذ کیا ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ اب تک ہماری مسلم بچیاں حجاب میں اسکول جاتی تھیں، مسکان نامی جس بچی کا معاملہ سامنے آیا ہے وہ بچی بارہویں کلاس میں ہے، اس نے گیارھویں بھی اسی کالج سےکیا ہے، تب سے اب تک وہ مکمل حجاب میں کالج جاتی رہی ہے، کسی نے اس کو نہیں روکا، اب اچانک حکومت کیوں یونیفارم پر سختی کررہی ہے کہیں اس کے پیچھے الیکشنی سیاست تو نہیں ہے؟

معاملہ عدالت میں ہے وہاں بھی حجاب کی حمایت میں جو وکلا بحث کررہے ہیں وہ حجاب کی اسلامی حیثیت پر بحث ساتھ آخری درجے میں یہ بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ بحث تفصیلی ہے، کافی وقت لگ سکتا ہے، اب امتحان کا زمانہ ہے، اس موقع پر بچیوں کا ذہن منتشر کرنا بالکل مناسب نہیں اس لیے فی الحال کم ازکم دوماہ امتحان ختم ہونے تک اس کے نفاذ پر روک لگادی جائے، تفصیلی بحث کے بعد عدالت اپنا حتمی فیصلہ سناتی رہے ـ

ہم مسلمانوں نے حسب توقع کرناٹک میں حجاب کے قضیے کے بعد ملک گیر سطح پر جلسے، جلوس، دھرنے وغیرہ شروع کردیے ہیں، ان ہنگاموں کا کتنا فائدہ ہوگا کتنا نقصان ہوگا اس پر پھر کبھی گفتگو کریں گے، فی الحال اصل مسئلہ کیا تھا اس کی وضاحت کی گئی ہے، ایک بار پھر عرض ہے کہ فی الحال معاملہ حجاب کا نہیں، وہ ہمارا مذہبی اور بنیادی حق ہے، یہی بات کرناٹک سرکار اور دیگر سیاسی پارٹیاں بھی کہہ رہی ہیں کہ ہندوستان میں سب کو مذہب کی آزادی ہے، مگر بات یونیفارم کی ہے، فوج کا ایک یونیفارم ہے، پولیس کا ہے، اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ـ

دراصل کرنے کا کام یہ ہے کہ جس طرح ایک چھوٹی سی اقلیت سکھوں نے اپنی پگڑی، بال اور کڑے وغیرہ کو ہرجگہ کے یونیفارم سے مستثنیٰ کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے ہم اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود کیوں نہیں کراسکے ـ آج سکھ بچہ اسکول میں، کالج میں، یونیورسٹی میں، پولیس میں اور فوج میں اپنی شناخت کے ساتھ داخل ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ یہ ہے کرنے کا کام کہ ہر جگہ ہم اپنی شناخت کے ساتھ داخل ہوپائیں!یہ کام کیسے ہوگا، اس میں داخلی اور خارجی دشواریاں کیاہیں؟ سوچیے ، پارلیمنٹ، اسمبلی سے لے کر سڑک تک اس کے لیے کیا ہوسکتا ہے اس کا منصوبہ بنائیے، موجودہ معاملے میں جو شور ہنگامہ ہو رہا ہے وہ اگر ضروری ہے تو اس کا رخ اگر اپنے اس بنیادی مطالبے کی طرف موڑ دینا چاہیے ـ

ہاں مسکان کے ساتھ جو کچھ شرپسندوں نے کیا ہے وہ انتہائی خطرناک بلکہ جان لیوا بھی ہوسکتا تھا، اس کے لیے کرناٹک سرکار سے زور دار مطالبہ کرنا چاہیے کہ ویڈیو دیکھ کر ان غنڈوں کی پہچان کرے اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے ـ بھلے مسکان نے اپنی طرف سے قانونی کارروائی سے انکار کیا ہے مگر اصل ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ امن وقانون کو خراب کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نپٹے ـ اگر حکومت کارروائی میں پس وپیش کرتی ہے تو عدالت کا سہارا لینا چاہیے ـ اسی طرح کالج کے پرنسپل اور وہ اساتذہ جنھوں نے مسکان کو شرپسندوں سے بچایا ہے حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ان کے لیے انعام کا اعلان کرے ، ملت اسلامیہ کو بھی ان اساتذہ کےاعزاز کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ دیگر انسانیت نواز افراد کا حوصلہ بلند ہو ـ

متعلقہ خبریں

تازہ ترین