جمال عباس فہمی
زلیخا حسین اردو کی ایسی فکشن نگار ہیں جنہیں کیرالہ کی پہلی اردو ناول نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ زلیخا حسین نے درجنوں ناول اور افسانے لکھے جو ہندستان کے ساتھ ساتھ پاکستان، بنگلہ دیش اور خلیجی ملکوں میں بھی مقبول ہوئے۔ ان کے کچھ ناولوں پر ملیالی زبان میں فلمیں بھی بنیں۔ زلیخا کی متعدد تخلیقات کا ملیالی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ زلیخا حسین نے 20 سال کی عمر میں اپنا پہلا ناول ’میرے صنم‘ لکھا تھا۔ زلیخا حسین کی ناول نگاری کے موضوع پر شنکرآچاریہ یونیورسٹی سے ایک اردو اسکالر نے پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔ زلیخا حسین کی ادبی کاوشوں کا تفصیل سے ذکر کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور کیرالہ میں اردو کی حالت کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
کیرالہ ملک کی جنوبی ریاست ہے اور یہاں آباد مسلمانوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کی مادری زبان ملیالی (ملیالم) ہے۔ ملک کے بقیہ حصوں کی نسبت اردو یہاں قدرے تاخیر سے پہونچی۔ کیرالہ میں اردو سولہویں صدی میں پہونچی۔ اردو کو لشکری زبان کہا جاتا ہے اور یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ کیرالہ میں اردو لشکر کے ذریعے ہی پہونچی۔ کالی کٹ کے حکمراں نے پرتگالیوں کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے بیجاپور کے سلطان عادل شاہ سے مدد مانگی تھی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد عادل شاہی فوج کے بہت سے سپاہی کالی کٹ ہی میں رہ گئے جن کی مادری زبان اردو تھی۔ اس طرح مقامی زبانوں نے اردو کا اثر قبول کرنا شروع کیا۔ بعد میں ٹیپو سلطان نے علاقے میں اردو کے فروغ کی راہ ہموار کی۔ مختصر یہ کہ بیجاپور اور میسور کے سلطانوں اور صوفیوں نے کیرالہ میں اردو کی توسیع اور ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کیرالہ میں اردو ادیبوں کی اچھی خاصی کھیپ تیار ہو گئی لیکن ان میں مرد شعرا کی تعداد زیادہ تھی جن میں ایس ایم سرور، عبدالکریم اختر، سید ہارون، سلیمان سیٹھ، موسیٰ نصیح، جانی سیٹھ شوخ اور شیخ فقیر کے نام قابل ذکر ہیں۔ لیکن زلیخا حسین سے پہلے کوئی خاتون اہل قلم کیرالہ کے منظرنامہ پر موجود نہیں تھی۔
زلیخا حسین یکم جنوری 1930 میں کوچی مٹانچیری کے میمن خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام احمد سیٹھ اور والدہ کا نام مریم بائی تھا۔ والد سیاسی اور سماجی حلقوں میں بہت سرگرم تھے۔ ان کے محمد علی جناح سے نزدیکی تعلقات تھے۔ وہ علامہ اقبال سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کے انتقال کی خبر سن کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے۔ زلیخا حسین کمسنی میں ہی والدین کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئی تھیں۔ ان کے نانا جان جانی سیٹھ کے زیر سایہ ان کی پرورش ہوئی۔ جانی سیٹھ کیرالہ کی نامور اردو ہستی تھے۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے اور ’شوخ‘ کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔ شاعری میں وہ سیماب اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔ جانی سیٹھ اور ستار سیٹھ نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’اصلاح السان‘ نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ یہ تنظیم کیرالہ میں اردو کے فروغ میں سرگرم کردار ادا کرتی تھی۔ اس تنظیم کے تحت ’نرجیلستان‘ کے نام سے ایک میگزین بھی شائع ہوتی تھی۔
جانی سیٹھ کی نگرانی اور سرپرستی میں زلیخا کی تعلیم و تربیت بہت معقول طریقے سے ہوئی۔ انہوں نے چوتھے درجے تک مٹانچیری کے مدرسہ آسیہ بائی میں عربی تعلیم حاصل کی۔ انہیں اردو کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے حیدر آباد کے رضوان اللہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس دور میں کہ جب کیرالہ میں مسلم خواتین گھر کی چہار دیواری میں رہا کرتی تھیں زلیخا حسین نے گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کی۔
زلیخا حسین کے اندر ادبی ذوق بچپن سے ہی انگڑائیاں لینے لگا تھا۔ 20 سال کی عمر میں زلیخا حسین نے پہلا ناول ’میرے صنم‘ لکھا تھا جو ’چمن بک ڈپو‘ دہلی سے شائع ہوا تھا۔ دادی آسیہ بائی نے پتہ اور تصویر چھاپنے سے منع کیا تھا، اس لیے پتہ اور تصویر کے بغیر ہی کتاب شائع ہوئی۔ یہ ناول بڑے پیمانے پر مقبول ہوا۔ ان کے دوسرے ناول ’نصیب کی باتیں‘ میں کیرالہ اور آلاپوژا کا ذکر ہے۔ اردو کے مشہور رسالوں ’شمع‘ اور ’خاتون‘ میں ان کے افسانے اور ناول شائع ہوتے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے دور کی مقبول ترین فکشن نگار بن گئی تھیں۔ 1970ء میں انہوں نے اپنا مشہور ناول ’تاریکیوں کے بعد‘ لکھا۔ اس کا ترجمہ ملیالم زبان میں بھی ہوا ہے۔ 1990ء میں زلیخا حسین نے ناول ’ایک پھول اور ہزار غم‘ لکھا جس میں پہلی بار اپنا پتہ لکھا اور تصویر بھی شائع کی۔ ہندستان کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش اور خلیجی ممالک میں بھی زلیخا حسین کے ناول بہت مقبول ہوئے۔
ملیالی زبان و ادب کے ماحول میں اردو میں ناول نگاری اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔ زلیخا حسین کے ناولوں اور افسانوں کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی بار کسی نے کیرالہ کی خواتین کے مسائل، ان کے احساسات اور جذبات کو بیان کیا۔ زلیخا حسین کے قلم کی بدولت پہلے متحدہ ہندستان اور بعد میں ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی خواتین کو کیرالہ کی خواتین کے مسائل اور جذبات سے آگاہی ہوئی اور انہوں نے کیرالہ کی خواتین کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ محسوس کیا۔ انہیں کیرالہ کی خواتین اور معاشرے کی بہت سی باتوں اور اپنے معاشرے میں یکسانیت نظر آئی۔ اس جذباتی جڑاؤ کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ کیرالہ سے باہر کی دنیا کی خواتین کو کیرالہ کی خواتین کے مزاج، طرز معاشرت، رہن سہن، رسم و رواج اور مسائل و مشکلات سے واقفیت ہوتی تھی اور دوسری اور سب سے زیادہ اہم وجہ زلیخا حسین کا اسلوب بیان اور طرز تحریر تھا۔ زلیخا حسین نے نہایت سادہ، شفاف اور سلیس انداز میں اپنے ناول کے کرداروں کے جذبات بیان کئے ہیں۔ ’آدمی اور سکے‘ ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے جس میں انہوں نے صدمات سے دو چار ایک خاتون کی ذہنی کیفیت بیان کی ہے۔
’’ان کی باتیں سن کر زاہدہ کا سر چکرانے لگا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیارے ناچنے لگے۔ اس کے دل میں ہلچل سی مچ گئی۔ طوفان اٹھنے لگے۔ وہ سکتہ کے عالم میں پتھر کی بنی چپ چاپ بیٹھی رہی۔ اس کے اعضا جیسے حرکت کرنے سے جواب دے گئے۔ جس گھر میں وہ دلہن بن کر آئی تھی، زندگی کے تین سال بڑے عیش و عشرت کے ساتھ گزارے تھے، یہ گھر اس کا اپنا تھا۔ وہ اس کے سیاہ و سپید کی مالک تھی۔ شوہر کی آنکھ بند ہوتے ہی اس نے سنا کہ اس گھر پر اس کا کوئی حق نہیں۔ غیر کے گھر کو اپنا گھر سمجھ کر چھ ماہ سے یہاں ڈٹی ہوئی تھی۔ اگر پہلے سے معلوم ہوتا تو اپنی عدت کے دن بھی اپنے بابا کے یہاں گزارتی۔ وہ ایک غیور عورت تھی۔ اس کی غیرت کا اب یہ تقاضہ تھا کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہاں سے چلی جائے۔ خط ملتے ہی نظام اسے لینے آ گئے اور وہ روتی ہوئی منے کو لے کر بابا کے یہاں آگئی۔‘‘
’روح کے بندھن‘ ناول ایک ایسے چھوٹے سے خاندان کی دردناک کہانی کے ارد گرد گھومتا ہے جس میں ایک اپاہج باپ ہے، ایک بیٹی ہے اور گھر کے اخراجات کے لئے دن رات محنت کرنے والی ایک خاتون ہے۔ ہر غربت زدہ لڑکی کے کم و بیش یہی جذبات ہوتے ہیں جن کو زلیخا حسین نے بیان کر دیا ہے۔
’’اپنی کلاس فیلو لڑکیوں کے ٹھاٹھ دیکھ کر اسے اپنی کم مائیگی کا ہمیشہ بری طرح احساس ہونے لگتا تھا۔ بہت سی خواہشیں تھیں، ارمان تھے جو دل میں گھٹ کر رہ جاتے تھے۔ وہ کس سے کہے۔ ایک ماں کی کمائی سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ اس کی پڑھائی کا خرچ۔ آئے دن روگی باپ کے علاج معالجہ کا خرچ۔ اس کی ماں اپنے کمزور کندھوں پر یہ سارے بوجھ اٹھائے ہوئے تھیں۔ ماں سے وہ اپنی کسی دلی خواہش کا اظہار کر نہیں سکتی تھی۔ یہ دوسری بات تھی کہ ماں خود اپنی حیثیت کے مطابق اس کی ضروریات کا خیال رکھتی تھی۔ کاش میرا باپ کسی قابل ہوتا۔ جب بھی اسے یہ خیال آتا۔ لاشعوری طور پر اس کے دل میں اپنے اپاہج باپ کے خلاف سخت بیزاری کے جذبات جنم لینے لگتے‘‘۔
زلیخا حسین کی ادبی خدمات اس پہلو سے بھی اہم ہیں کہ وہ کیرالہ میں دیگر مذاہب اور زبانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے اندر ادبی ذوق پیدا کرنے کا وسیلہ بنیں۔ زلیخا حسین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملیالم اور انگریزی زبان میں لکھنے والی خواتین کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جس نے عالمی پیمانے پر کیرالہ کی نمائندگی کی۔ سارہ ابو بکر، کملا داس (کملا ثریا) نلینی جمیلا اور خدیجہ ممتاز جیسی متعدد اہل قلم نے نہ صرف نسائی معاملات کو اٹھایا بلکہ اپنے اپنے انداز میں عوامی مسائل پر دنیا کی توجہ مبذول کرائی۔ زلیخا حسین کی ناول نگاری پر اردو اسکالر شکیلہ کے پی نے 2016 میں پی ایچ ڈی کی۔ زلیخا حسین کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ آخری دم تک وزارت ثقافت کے تحت مرکزی اردو فیلوشپ کمیٹی کی رکن رہیں۔ ان کو حکومت کیرالہ اور انجمن اساتذہ اردو کیرالہ نے بھی متعدد اعزازات سے نوازا۔ 1997 میں اپنے شوہر حسین سیٹھ کی ناوقت موت اور گھریلو مسائل کے باوجود زلیخا حسین ادبی خدمات انجام دیتی رہیں۔ 27 ناول، 8 مختصر ناول اور درجنوں افسانوں کی شکل میں ادبی سرمایہ چھوڑ کر زلیخا حسین نے 15 جولائی 2014 کو اس دنیا کو الوداع کہا۔