نوراللہ جاوید
ماضی کی تلخ یادیں اور سیاہ ترین واقعات تاریخ کا سیاہ باب بن کر لا شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔یہ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ سیاہ ترین واقعات قوموں کے عروج اور خود اعتمادی ، اتحاد باہمی کی راہ میں ایک روکاوٹ ہوتی ہیں۔علاوہ ازیں ماضی کے واقعات کا ایک پس منظر اور مخصوص حالات ہوتے ہیں۔اس لئے اس کا فراموش کردینا ہی عقل مند قوموں کا شیوہ ہوتا ہے۔نوآبادیات ہندوستان کی تاریخ سیکڑوں سیاہ ترین واقعات اور یادوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ان سیاہ ترین واقعات اور یادوں سے ہندوستان آگے نکل کر ایک مستحکم ملک بننے کی طر ف گامز ن ہے مگر سیاست دانوں کے کھیل ہی نرالے ہیں ۔وقتی سیاسی فوائد کےلئے ماضی کی تلخ یادوں کو من چاہی تعبیر و تشریح کے ساتھ سامنے لانے اور ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرنا ان کا شیوہ رہا ہے۔ماضی کی تلخ یادو ں میں سے ایک 1946میں ہوئے کلکتہ فرقہ وارانہ فساد ہے۔اس کو’’ کلکتہ قتل عظیم‘‘کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں اچانک تاریخ کا یہ سیاہ باب اچانک سرخیوں میں ہے ۔گرچہ بی جے پی کے سینئر لیڈران اپنی تقریروں اور انتخابی مہم میں سر عام اس پر کچھ بھی نہیں بول رہے ہیں مگر ’’واٹس ا پ ‘‘ آئی ٹی سیل کے تنتر کےذریعہ 75سال پرانے اس واقعے کی یادیں تازہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔معصوم لوگوں کے ذہن و دماغ کو یہ کہہ مسموم کیا جارہا ہے کہ اگر نتخابات میں فرہاد حکیم، عباس صدیقی اور کوئی بھی مسلم کامیاب ہوگئے تو کلکتہ میں وہی واقعات دواہرائے جاسکتے ہیں ۔سوال یہ نہیں ہے کہ یہ پروپیگنڈہ کے نتائج کیا ہوں گے ۔اس سے بی جے پی کو کتنی کامیابی ملے گی؟ ۔مگر یہ بات طے ہے کہ پرانے زخم کے کریدے جانے سے معاشرتی ہم آہنگی کو سخت نقصان پہنچے گا۔
1946کلکتہ فرقہ وارانہ فساد
بانی پاکستان محمد علی جنا ح کے ذریعہ اگست 1946میں مسلمانوں کیلئے علاحدہ ملک کے قیام کےلئے ملک بھر میں ’’ڈائریکٹ ایکشن پلان ‘‘ کے اعلان کئے جانے کے بعد 16اگست سے لے کر 18اگست تک خون خرابہ ہوتا رہا اور بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، سڑکیں اور گلیاں لاشوں سے بھر گئیں ۔انگریزوں کی آمد کے بعد بر صغیر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں’’ کلکتہ فساد ‘‘بھیانک ترین فسادات میں سے ایک ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ حالات کیوں پیدا ہوئے؟ ۔کیا اس کے لئے صرف محمد علی جناح اور مسلمان ذمہ دار ہیں۔
دراصل ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی کےلئے برطانوی حکومت نے اپنے تین وزرا لارڈ پیتھک لارنس، سر سٹیفورڈ کرپساور ائے ۔ وی ۔ الیگزینڈرپر مشتمل ایک وفدکو ہندوستان بھیجاتاکہ اقتدار کی منتقلی کےلئے کانگریس و مسلم لیگ کے درمیان اتفاق رائے قائم کیا جاسکے ۔5مئی سے 12مئی 1946میں شملہ کیبنٹ مشن کی میٹنگ ہوئی جس میں مسلم لیگ کی طرف سے محمد علی جناح، نواب لیاقت علی خان ،سردار عبد الرب نشتر اور نواب اسماعیل اور کانگریس کی طرف سے مولانا آزاد، پنڈت نہرو ، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور خان عبدالغفار نے شرکت کی ۔مگر اس میٹنگ میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔کانگریس ملک کی تقسیم کے خلا ف تھی اور مسلم لیگ مسلم ریاست کی تشکیل کےلئے بضد تھی۔اس طرح یہ میٹنگ ناکام ہوگئی ۔16مئی کو کیبنٹ مشن نے ہندوستانی عوام نے کے سامنے اقتداری منتقلی کا ایک منصوبہ پیش کیا ۔جس میں ریاستوں کو زیادہ اختیارات دئے گئے تھے اور ایک طرح سے تقسیم کو ٹالنے کی کوشش کی گئی۔مسلم لیگ نے اس مشن پلان کو تسلیم کردیا مگر اس درمیان مولانا آزاد کی مدت صدارت ختم ہوگئی اور پنڈت نہرو کانگریس کے صدر منتخب ہوگئے ۔پنڈت نہرو نے ممبئی میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں ’’کیبنٹ مشن پلان ‘‘ کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم کابینہ مشن پلان کو صرف اس لیے قبول کریں گے تاکہ اسے تباہ کیا جا سکے۔ ہم برصغیر ہندوستان کی مرکزی حکومت کو مزید اختیارات دینے کے حامی ہیں اور اقتدار میں آ کرصوبوں کی گروپنگ کو بھی تبدیل یا ختم کرنے کا اختیار رکھتے ہیں‘‘۔اس بیان کی توقع خود کانگریس کے سینئر لیڈران کو بھی نہیں تھی ۔مولانا آزاد نے اپنی کتاب انڈیا وننس فریڈم میںاس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے’’پنڈت نہرو کا یہ بیان انتہائی افسوس ناک تھااور اس کی وجہ سے ہندوستان کو متحد کرنے کی آخری کوشش بھی دم توڑ گئی ‘‘۔چناں چہ مسلم لیگ نے جولائی 1946میں نہرو کے اس بیان کو بنیاد بناکر معاہدہ کو ختم کرنے اور علاحدہ ملک کے قیام کےمطالبہ پر واپس آگئی اور 16اگست سے ملک بھر میں ڈائریکٹ ایکشن کا اعلان کردیا۔
مسلم لیگ کے اس احتجاج کے رد عمل میں کلکتہ اور مغربی بنگال کے علاوہ کہیں بھی فسادات نہیں ہوئے ۔مغربی بنگال میں اس وقت حسین شہید سہروردی کی قیادت والی حکومت تھی۔سر فریڈرک بروز گورنر تھے۔لااینڈ آرڈر کے مکمل اختیارات گورنر کے ہاتھ میں تھے۔حالات پر قابو پانے کےلئے 16اگست کو عا م تعطیل کا اعلان کردیا گیا تھا۔مگر ایک طرف کانگریس اور ہندو مہاسبھا تھی جو کسی بھی صورت میں ہڑتال کو ناکام بنانے پر مصر تھی اور دوسری طرف مسلم لیگ تھی جو کسی بھی صورت میں ہڑتال کو کامیاب بنانے پر قائم تھی ۔
16اگست 1946کو اس ٹکرائو کے نتیجے میں ہونے والے قتل عام کےلئے ذمہ دار کون ہے؟ اگر ہندوستانی مصنفین کی تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو ظاہر ہے وہ اس کےلئے مسلم لیگ اور حسین سہروردی کو ذمہ دار مانتے ہیں ۔مگر پاکستانی مصنفین کی کتابیں بتاتی ہیں کہ کانگریس اور ہندو مہاسبھا کے ذریعہ ہڑتال کو ناکام بنانے کی ضد کی وجہ سے ٹکرائو کی نوبت آئی اور پھر دونوں فرقوں کے درمیان تصادم شروع ہوا اور اگلے دو دنوں میں 4ہزار افراد کی جانیں تلف ہوگئیں۔کلکتہ کی گلیاں خون آلود ہوگئیں اور ہرطرف لاشیں اور بے سدھ پڑے انسان ہی نظر آتے تھے۔
تاہم نکولس منسیرگ کی کتاب The Transfer of Powerاور ر فرانسس ٹکر کی کتاب While Memory Servesکامطالعہ بتاتا ہے کہ اس واقعے کےلئے کسی ایک فریق کو ذمہ دار ٹھہرانا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔فرانسس ٹکر نےتو اس تصادم کےلئے ہندومہاسبھا کی حد سے زیادہ حساسیت کو ذمہ دار قرادیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ہندو مہا سبھا کے حامی دکانیں جبراً کھلوانے اور حسین سہروردی کی قیادت میں ہونے والے جلسے کو ناکام بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی تو شاید حالات اس قدر خراب نہیں ہوتے ۔
اس میں کوئی شک ہیں 1946اگست کا یہ واقعہ لرزہ خیز تھا اور یہ انگریزو ں کی دوہری پالیسی کا نتیجہ تھا ۔انگریزی اخبار دی اسٹیس مین کے سابق ایڈیٹر (1942-1951)ایا اسٹیفن کی ڈائری Old Country New Nation بتاتی ہے کہ حکمرانوں کی لاپرواہی اور ہندوپریس کا رویہ اس پورے معاملے میںمشکو ک تھا۔انتظامیہ کو حالات خراب ہونے کی اطلاعات پہلے سے مل رہی تھی اس کے باوجود پختہ انتظامات نہیں کئے تھے ۔دوسری طرف ہندوستانی پریس مسلم لیگ کے ڈائریکٹ ایکشن پلان کو ہندوستان کے خلاف اعلان جنگ سے تعبیر کررہا تھا ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے عوام میں اشتعال پھیلنا لازمی تھا جو اتنے بڑے قتل عام پر منتج ہوا۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخرتاریخ کے اس تلخ ترین واقعے کی یاد دوبارہ کیوں تاز ہ کی جارہی ہے؟۔کیا اس سے حاصل ہونے والافائدہ اس سے ہونے والے نقصانات سے بڑا ہے۔اس سے بھی بڑا سوال ہے کہ کیا اس ملک میں’’ 1946کلکتہ قتل عام‘‘ سے بڑے فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے ہیں ۔اگر ان تینوں سوالوں کے جواب پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ حقیت سامنے آتی ہے کہ اس تلخ واقعے کی یاد سے بی جے پی شاید کچھ فائدہ حاصل کرلے مگر اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔سوشل میڈیاکے ذریعے آدھے ادھورے سچ کو پروسا جارہا ہے ۔آج کل ہم سب عجلت کے شکار ہیں ۔مبلغ علم واٹس اپ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ فراہم کردہ معلومات تک ہی محدود ہے ۔ظاہر ہے کہ جو پڑوسے جارہے ہیں اسی کو سچ مان لیا جاتاہے۔کتنے لوگ ہیں جوکسی واقعے کی جانچ کرتے ہیں ۔
جہاں تک تیسرے سوال کی بات ہے تو اسی بنگال میں 1962میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کوجانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔کلکتہ میں کئی ایسے مسلم اکثریتی علاقے تھے جہاںسے مسلمانوں کا وجود ختم ہوگیا ۔آج پورے علاقے میں مسلمان نہیں ملیں گے ۔تقسیم ہند کا درد اور زخم اتنے گہرے اس کے کریدنے صرف تکلیف ہوگی اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا ۔