* نوراللہ جاوید *
مشہور روایت شکن مفکر ومصنف راشد شاز کی تصنیفات اور تحریریں موضوع بحث بنتی رہی ہیں، جمہور کی رائے سے انحراف اور اپنے لئے الگ راہ تعین کرنے کا مزاج کہاں تک درست ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے، تاہم اس میں کوئی شک نہیں ہے ان کی کتابیں تخیلات کو توانائی عطا کرتی ہیں، غور وفکر کی راہیں کھولتی ہیں، قارئین کے ذہن و دماغ کے بند دریچوں پر زوردار دستک دیتی ہیں۔ راشد شاز کی نئی کتاب ’’لایموت‘‘ ان کی خودنوشت ہے۔ خودنوشت کو ہم لوگ اب تک محض آپ بیتی اور ڈائری کے اوراق کے طور پر دیکھتے آئے ہیں۔ عمومی طور پر خودنوشت کی کہانی مصنف کے اردگرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ ایسے تو اردو زبان میں ’’خودنوشت‘‘ لکھنے کی روایات اور تاریخ بہت ہی مختصر ہے۔ مشہور ادیب پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی، جنہوں نے اردو زبان میں لکھے گئے بیشتر خودنوشتوں کا تجزیہ کیا ہے، کے مطابق ’’اردو زبان میں خودنوشت لکھنے کی ابتدا اٹھارہویں صدی میں انگریزی ادب سے متاثر ہوکر ہوئی ۔
خود نوشت لکھنے میں بھی راشد شاز نے اردو ادیبوں کے مقررکردہ پیمانوں اور روایات سے انحراف کرکے خودنوشت لکھنے کی ایک نئی راہ دکھائی ہے۔گرچہ وہ کہانی کی شروعات اپنی ذات سے ہی کرتے ہیں مگر چند صفحات کے بعد یہ کتاب آب بیتی سے جگ بیتی کے سفر پر گامزن ہوجاتی ہے۔ گرچہ میں بہت زیادہ مطالعے کاعادی نہیں ہوں، تاہم بچپن سے مطالعہ کرنے کا رجحان رہا ہے۔ چار دہائیوں پر مشتمل زندگی میں کئی ایسی کتابیں پڑھی ہیں جن کے مطالعہ نے اپنے حصار میں اس طرح لیا کہ جب تک کتاب مکمل نہیں کرلی اس وقت تک قرار نہیں آیا۔ خود نوشتوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’تذکرہ‘‘، مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ کی کتاب ’’کارروان مدینہ‘‘، قدرت اللہ شہاب کا ’’شہاب نامہ‘‘، جوش ملیح آبادی کا ’’یادوں کی برات‘‘، مشہور صحافی سعید نقوی کی انگریزی خود نوشت Indian Muslim Being other کا اردو ترجمہ ’’اپنے وطن میں غیر ہندوستانی مسلمان‘‘ جیسی کتابیں محض چند نششتوں میں مکمل کرلیا تھا، مگر بہترین اسلوب، استعاروں کا خوب تر استعمال اور تحریر میں سمندر کی طرح روانی کے باوجود 427 صفحات پر مشتمل ’’لایموت‘‘ کا مطالعہ کرنےمیں چند ہفتے لگ گئے۔
دراصل یہ کتاب آزاد ہندوستان کے کئی المیوں سے روبرو کراتی ہے جس کو پڑھتے ہوئے کلیجے منھ کو آنے لگتے ہیں۔ مطالعہ کے دوران ترکمان گیٹ پر مسلمانوں کے گھروں پر سنجے گاندھی کے چشم آبرو چلنے والے بلڈوزرس کے شکار خاندان کی چیخ و پکار اچانک کانوں میں گونجنے لگتی ہیں۔ مرادآباد میں عین عید کی نماز میں پولس کی فائرنگ میں بھائی اور خاندان کے دیگر افراد کو کھونے والے حلیم بھائی کے آنسوئوں کے قطرے نظر آنے لگتے ہیں ان کا یہ سوال ’’میرے بھائی کا کیا قصور تھا؟‘‘ دل پر دستک دینے لگتی ہے۔ آسام کے نیلی میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام، بھاگلپور کے مسلم ماؤں اور بہنوں کی بے بسی اور آمریت اور بربریت کا گھناؤنا کھیل دل و دماغ کو جھنجھوڑنے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں مطالعے کو جاری رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
کئی سوالات ذہن و دماغ پر دستک دینے لگتے ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر پے در پے مسلمانوں کے قتل عام کے باوجود ’ہولوکاسٹ‘ کے شکار یہود، غلامی کے شکار رہے افریقی اور نوآبادیاتی مظالم کے شکار رہے افراد کی طرح ہندوستانی مسلمان آخر کب ’’Never again‘‘ کا نعرہ بلند کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے، بلکہ جب میں ان صفحات کو پڑھا رہا تھا اس وقت ہریدوار سے ہندو انتہا پسند گروپ 30 لاکھ مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دے رہے تھے۔ پوری ایک نسل گزر گئی، مگر ہندوستان کی آزادی، تقسیم ہند کا المیہ اور اس کے فوری بعد مسلمانوں کا قتل عام کا صحیح تجزیہ کرنے میں مسلمان ناکام رہے۔ دراصل ’’Never Again‘‘ کا عزم وہی قوم کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے جو اپنے اوپر بیتنے والے مظالم اور حادثات کو قومی حافظے کا حصہ بنالیتے ہیں۔ اس کا کوئی نام دیتی ہے، مگر حکومت کا جبری انتظامی چکی مسلسل مسلمانوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
مطالعہ وسیع ہونے کے ساتھ راشد شاز جہاندیدہ بھی ہیں۔ شرق و غرب سے یکساں واقفیت ہے۔ انگریزی زبان میں لکھے جانے والی خود نوشتیں بالخصوص ’’ہولوکاسٹ‘‘ پر لکھی گئی کتابیں ان کے زیر مطالعہ رہی ہیں ۔چنانچہ ان کے سوچ و فکر کا کینوس بہت ہی وسیع ہے۔ تاریخی واقعات کی روشنی میں ہندوستانی مسلمانوں پر بیتنے والے حادثات و مصائب کا وہ الگ انداز میں تجزیہ کرتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے کہ ان کے خودنوشت میں صرف ہندوستانی مسلمانوں کی 70سالہ شب غم کی داستان ہے، بلکہ انہوں نے ایرانی انقلاب، افغانستان میں جہاد اور صحوۃ الاسلامیہ کے حوالے سے بھی گفتگو کرتے ہوئے کئی سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا ہے۔ تقسیم ہند کا کرب اور اپنے چچا کے حوالے سے پاکستان میں آباد مہاجرین پر بیتے والے مصائب کو بیان کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے قیام میں پاکستانی اقتدار اعلیٰ کے کردار اور ہندوستانی حکومت کے منصوبے کو واضح کیا ہے۔
بابری مسجد کی بازیابی کے لئے سید شہاب الدین کی قیادت میں جارحانہ تحریک کے نتیجے میں ہندوستانی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر راشد شاز کے مطابق جارحانہ مہم کا مسلمانوں کو فائدہ تو نہیں ہوا مگر اس مہم نے ہندتو طاقتوں کو نئی زندگی بخش دی جو بابری مسجد کی شہادت پر منتج ہوئی۔ اسی طرح شاہ بانو کیس میں عدلیہ کے فیصلہ کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کی تحریک سے متعلق بھی ڈاکٹر راشد شاز کی رائے سب سے الگ ہے۔ ان کا یہ تجزیہ ہے کہ یہ پوری تحریک ہی قرآن سے متصادم ہے۔ مسلم پرسنل لا کے دباؤ میں شاہ بانو کیس میں عدلیہ کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے بل کی قانونی پہلوؤں اور موشگافیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ راجیو گاندھی کی قیادت والی حکومت نے بل کے ذریعہ مسلمانوں کو خوش کردیا مگر بین السطور کے ذریعہ اس قانون کی آڑ میں مسلم پرسنل لا میں عدلیہ کی مداخلت کی راہیں ہمیشہ کے لئے ہموار کردی۔ ڈاکٹر راشد شاز نے لکھا ہے کہ شاہ بانو کے فیصلے پر مسلمانوں کی منھ بھرائی کے تدارک کےلئے بابری مسجد کا تالا کھلوایا گیا تاکہ ہندوؤں کی ناراضگی کو ختم کی جاسکتے۔ علاوہ ازیں اقلیت اور مسلمانوں کی تاریخی عمارتوں کو آثار قدیمہ قرار دینے کی حکمت اور ہندوستان کی آزادی کے بعد لال قلعہ کے فصیل سے وزیرا عظم پنڈت جواہر لال نہرو کے خطاب کے پس پردہ حکومت کے عزائم اور منصوبے کی طرف جو نکتے بیان کئے گئے ہیں وہ بہت ہی اہم اور غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔
مشہور جرمن فلسفی ہیگل نے تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سوانح عمری اور خودنوشت بھی تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ اس کی تشریح پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی نے اس طرح کی ہے کہ ’’تاریخ زندگی کے ایک بڑے دھارے کا نام ہے لیکن تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک شخصیات کے کارناموں سے عبارت نہ ہو۔ اگر ہیگل کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ خودنوشت تاریخ کا ہی حصہ ہے تو اس تناظر میں راشد شاز کی خودنوشت ’’لایموت‘’ میں چند بنیادی غلطیاں بھی ہیں۔ انہوں نے بہت سارے دعوے کئے ہیں، مگر انہوں نے تمام دعوے افسانوی انداز میں کہہ کر آگے بڑھ گئے ہیں۔ جب ’’خودنوشت‘‘ تاریخ کا حصہ ہے تو انہیں ان دعوؤں کی دلیل بھی پیش کرنی چاہیے تھا۔ کانگریس کی منافقانہ رویہ پر راشد شاز جارحانہ تنقید کرتے ہیں جس میں وہ حق بجانب بھی ہیں، مگر جے پرکاش نارائن کے تئیں وہ نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں، جبکہ ہم سب جانتے ہیں جے پرکاش نارائن اندرا گاندھی کی مخالفت میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے آر ایس ایس جیسی فرقہ پرست جماعت کی حمایت بھی حاصل کرنے سے گریز نہیں کیا۔ جے پرکاش نارائن سے قبل گاندھی کے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے آر ایس ایس ہندوستانی سیاست میں اچھوت ہوچکی تھی، مگر جے پرکاش نارائن نے سب سے پہلے آر ایس ایس اور ان کی سیاسی جماعت ’’جن سنگھ‘‘ کے سیاسی اچھوت پن ختم کرنے کی کوشش کی۔ تقسیم ہند کے حوالے سے بھی ان کا موقف مبہم ہے۔ ایک طرف وہ مولانا آزاد کی تنقید بھی کرتے ہیں تو دوسری طرف جناح بھی ان کے نشانے پر آجاتے ہیں۔ ایک طرف وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان اور اس کے قائدین ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی ’’سیاسی ارتداد کے شکار ہیں‘‘ مگر وہ ’’سیاسی صراط مستقیم‘‘ کی راہ بھی نہیں دکھاتے ہیں۔ علمائے دیوبند کے تئیں یہاں بھی وہ جارحانہ تیور کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر ان کی تنقید سے مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ اور مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ بھی محفوظ نہیں رہ سکے ہیں۔ ایک طرف وہ مولانا علی میاں ندوی سے تعلق، ان کی عنایات کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں، مگر دوسری طرف ان کی شخصیت پر بلڈوزر چلانے سے بھی نہیں چوکتے ہیں۔
آٹو بایوگرافی لکھنے کی راہ بہت آسان نہیں ہوتی ہے۔ پرخطر کھائی میں گرنے کا خطرہ ہمہ وقت باقی رہتی ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بالعموم خودنمائی در آتی ہے۔ معمولی خود نمائی کسی حد تک قابل برداشت ہوتی ہے – اکثر خونوشت لکھنے والے ’’نرگسیت‘‘ کا اشتہار بن جاتے ہیں اور اپنی شخصیت کے اردگرد مصنوعی چمک و دمک کا ہالہ اس طرح بناتے ہیں کہ صاحب خودنوشت عرفان ذات اور خود آگہی سے محروم معلوم ہونے لگتے ہیں۔ راشد شاز نے ’’خود نمائی کے پرخطر کھائی‘‘ میں گرنے سے بہت حد تک اپنی ذات کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ نہ اپنی بات میں خود نمائی کو راہ ہموار کرنے دی ہے اور نہ ہی اپنی شخصیت کے اردگرد مصنوعی چمک و دمک کا ہالہ بننے دیا ہے۔ ’’نرگسیت کا اشتہار‘‘ بننے سےاپنے دامن کو بچانے کی اس قدر انہوں نے کوشش کی ہے کہ وہ اپنی خودنوشت میں اپنے خاندان، علاقائی پس منظر اور خطہ کی تاریخ تک کا ذکر کرنے سے گریز کیا ہے۔ جب کہ کتاب پڑھتے وقت اس کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے اور یہ تجسس ہوتی ہے کہ ان کا تعلق کس ریاست سے ہے، ان کے والد کا مکتبہ کس شہر میں واقع ہے اور شہر کی تاریخی اہمیت کیا ہے۔ وہ اپنے خاندان کے بزرگوں کا ذکر بھی سرسری انداز میں کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لایموت کے بعد ان کے خودنوشت کے اگلے حصے ’’لایحیٰ‘‘ کا شدت سے انتظار ہے۔ شاید اس حصے میں وہ سیاسی صراط مستقیم کی عملی راہیں دکھائیں۔ ہندوستانی تاریخ، ہندوستانی سیاست اور ہندوستانی مسلمان جیسے موضوعات پر دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتا ب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
کتاب طباعت اور کاغذات کے اعتبار سے بہت ہی معیاری ہے۔ 427 صفحات کی کتاب کی قیمت 450 بہت ہی مناسب ہے۔ ملی پبلی کیشنز، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی نے شائع کی ہے اور وہی ڈسٹری بیوٹر بھی ہے۔