Friday, December 13, 2024
homeدنیاحاشیائیت ،صارفیت، اور صحافت

حاشیائیت ،صارفیت، اور صحافت

حقانی القاسمی
صحافت کی تعریف، تاریخ ، تہذیب، تحریک آزادی میں اردو صحافت کاکردار،سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے فروغ میں اردو صحافت کا رول اور ان جیسے دیگر موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ہے اور مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ معاصر صحافت کے باب میں میری گفتگو صرف دو نکتوں پر مرکوز ہے ایک حاشیائیت اور دوسرا صارفیت اور ان دونوں سے صحافت کے کمال اور زوال کا ایک گہرا رشتہ بھی ہے۔

حاشیائیت (Marginality)سوشوپولیٹکل ڈسکورس کا ایک اہم حصہ ہے ۔حاشیائیت کی کوئی متعینہ تعریف نہیں ہے مگر اس سے مراد وہ طبقات اورافراد ہیں جو شہری حقوق، مواقع، وسائل اور سہولیات سے محروم ہیں۔ سماجی ، سیاسی، معاشی استحصال کے شکار ہیں۔ معاشرتی ، معاشی، سیاسی، علاقائی اور صنفی پسماندگی والے تمام افراد حاشیائی طبقات میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ گو کہ رنگ، نسل، ذات مذہب کی بنیاد پر بھی حاشیائیت کاتعین کیا جاتا رہا ہے مگر حقیقت میں حاشیائیت کا تعلق ذات، مذہب ، رنگ و نسل سے نہیں ہے ۔ اعلیٰ رنگ، نسل، ذات مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی حاشیائی ہوسکتے ہیں۔
در اصل حاشیائیت کی بنیاد ملکیت سے محرومیت اور ذرائع پیداوار کی قلت پر ہے۔مارکسزم کی اصطلاح میں اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ بورژوائی طبقہ مرکزی حیثیت کا حامل ہے جبکہ پرولتاریہ طبقہ حاشیائی حیثیت رکھتا ہے۔ اوریہی طبقہ در اصل سوشل Exclusionکا شکار ہوتا ہے۔ اجتماعی استبعاد یا تہمیش کے زمرے میں آنے والے ان افراد کو بہت سے سیاسی، سماجی، معاشی، معاملات میں مشارکت کی اجازت نہیں ملتی۔ اور یہ افراد ہمیشہ اپنے حقوق اور موارد سے محروم رہتے ہیں۔

سماجی تفریق اور طبقاتی امتیاز ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔ حاشیائی طبقات کو نظر اندازکرنے کی روش بھی عام رہی ہے۔خاص طورپر سرمایہ دارانہ ، جاگیردارانہ نظام میں حاشیائی لوگوں کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔اور اسی وجہ سے دونوں طبقات کے مابین کشمکش اور تصادم کی صورت رہی ہے۔
آج دلت، آدی واسی، نسلی اقلیت،جنسی اقلیت اور درج فہرست ذات کے لوگ حاشیائی طبقات میں شامل ہیں۔ عورت کو بھی حاشیائی آبادی کا ایک حصہ مانا جاتاہے۔ مسلمانوں کو بھی حاشیائی اقلیت کہا جانے لگا ہے۔میرے خیال میں حاشیائیت کا دائرہ بہت وسیع ہے اس میں ان صحافیوں کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے جو منقوص تنخواہوں پر کام کرتے ہیں اور انھیں اپنی محنت کی بہت کم اجرت ملتی ہے بلکہ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ صحافی ملازمین کی محنتیں مالکان اور مدیران سے منسوب ہوجاتی ہیں، یہ سراسراستحصالی رویہ ہے اور اردو صحافت کا ایک بڑا المیہ بھی ۔ اسی طرح جن کی آنکھوں سے نیندیں اور خواب چھین لیے جائیں وہ بھی حاشیائی ہیں ۔ خوابوں پر شب خون بھی جبر و استحصال کے زمرے میں ہی آتا ہے۔استحصال تو استحصال ہے چاہے وہ محنت کا ہو یا ذہانت کا ۔

حاشیائیت فکشن کا بھی موضوع ہے۔ اردو میں حاشیائی کرداروں کے حوالے سے بہت سے افسانے اور ناول لکھے گئے ہیں۔پریم چند کا ’کفن‘، کرشن چندر کا ’کالو بھنگی‘،حیات اللہ انصاری کا ’ڈھائی سیر آٹا‘، اقبال مجید کا ’آگ کے پاس بیٹھی ہوئی عورت‘، سلام بن رزاق کا ’انجام کار‘، جابر حسین کا آلوم لاجاوا‘، شموئل احمد کا ’کاغذی پیرہن‘، شوکت حیات کا ’مادھو‘، شفق کا ’دوسرا کفن‘ ، احمد صغیر کا ’تعفن‘ یہ وہ افسانے ہیں جو حاشیائی طبقات پر لکھے گئے ہیں۔ غضنفر کاناول ’دویہ وانی، شموئل احمد کا ’ندی اور مہاماری‘ الیاس احمد گدی کا ’فائر ایریا‘ سہیل عظیم آبادی کا ’بے جڑ کے پودے‘ یہ سب حاشیائی طبقات پر مبنی فکشن ہیں۔اور اب تو اردو میں دلت ڈسکورس پر بھی بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور دلت افسانوں کے انتخابات بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔فکشن میں پسماندہ اور حاشیائی طبقات کے حوالے سے جو بیانیے ہیں حقیقت میں انھیں صحافتی کلامیہ کاحصہ ہوناچاہیے تھا مگر صحافت کا المیہ یہ ہے کہ میڈیا ڈسکورس کی ترجیحی فہرست میں وہ موضوعات اور مسائل بہت کم ہیں جو حاشیائی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔جبکہ حاشائیت کا سروکار فکشن سے زیادہ صحافت سے ہے۔کیونکہ صحافت کاسسٹم اور عوامی رائے عامہ سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ اور ایوان اقتدار کی اس پر نظر بھی رہتی ہے۔ اور اس کامنفی یا مثبت رد عمل بھی سامنے آتا ہے۔ صحافت کوجمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتاہے۔ اس لیے یہ بنیادی فریضہ ہماری صحافت کا ہے کہ وہ ان تمام مسائل اور موضوعات سے سرکار کو روبرو کرائے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ ہماری اردو صحافت میں حاشیائی طبقات سے متعلق خصوصی فیچر تو کیا خبریں بھی بہت کم ہوتی ہیں۔ حاشیائی طبقات کو اردو صحافت میں Visible space نہیں دیا گیا ہے۔ پسماندہ طبقات کی آواز وہاں بہت کم سنائی دیتی ہے
۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے اخبارات میں حاشیائی طبقات کے مسائل پر اداریے اور مضامین تک تحریر کئے جاتے ہیں مگر اردو صحافت میں آدی واسی، دلت طبقات اور دیگر نسلی اقلیتوں کے حوالے سے کوریج بہت کم ہوتی ہے۔بلکہ اردو اخبارات میں تو بہت سے موضوعات شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں جنسی اقلیت (Sextual Minority) سے تعلق رکھنے ایل جی بی ٹی (LGBTQI) کا طبقہ بھی شامل ہے۔شاید ہی ان کے تعلق سے اظہار خیال کیا جاتا رہا ہو۔

حاشیائی طبقات کے تعلق سے اردو صحافت کی جو سرد مہری ہے وہ یقینا تشویشناک ہے۔ جبکہ اردو صحافت ایک ایسی زبان کی نمائندہ ہے جو آزاد ہندوستان میں خود حاشیائی بن گئی ہے۔ ’مارجی نلائیزیشن آف اردو‘ کے حوالے سے انگریزی میں جو تحریریں شائع ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتاہے کہ عوامی اور تعلیمی اداروں میں یہ زبان ایک ایسی مذہبی اقلیت سے جوڑ دی گئی ہے جو اب خود سیاست اور سماج میں حاشیے پر ہے۔ انگریزی کی معروف ناول نگار انیتا ڈیسائی نے اپنے ناول ’ان کسٹڈی‘ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اردو تو 1947میں ہی مرچکی ہے۔ یہ حقیقت ہو یا واہمہ مگر سچائی یہ ہے کہ اب یہ زبان حاشیے پر ہے اور یہ بھی سوشل ایکسکلوژن کا شکارہے۔ حاشیائی زبان کی صحافت ہونے کے ناطے اردو صحافت کا یہ فریضہ تھا کہ وہ حاشیائی طبقات کے مسائل پرزور انداز میں اٹھاتی مگر شاید یہ خود بھی اپنا مدعا صحیح طورپر اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔ اردو صحافت نے صرف ایک حاشیائی طبقے کو اپنا محور ومرکز بنایا ہے جسے صحیح معنوں میں حاشیائی کہا بھی نہیں جاسکتا اور وہ ہے مسلمان طبقہ۔ اردو میڈیا مسلم اسٹیریو ٹائپ میں محصور ہے، اس کا موضوعاتی دائرہ بہت محدود ہے۔مدرسہ، مسلمان اور ملت پر مرکوز اردو کی صحافت اپنے محدود محور سے باہر نکلنے میں ناکام ہے۔ جب کہ اردو صحافیوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اس جہانِ رنگ و بو میں اور بھی بہت سی آبادیا ںہیں اور مختلف رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں۔ Intersectional lens سے کسی بھی چیز کو دیکھنا مناسب نہیںہوتا اور یہ روش عالمی میڈیا میں تو عام ہے ہی، اردو میں بھی اس کا چلن بڑھتا جارہا ہے۔ Identitarian attitue قطعی نامناسب ہے۔ صحافت کو ’جامِ جہاں نما‘ کہا جاتا ہے، اس کے لیے تو پوری دنیا کے دروازے کھلے ہونے چاہئیں۔ مگر آج کے گلوبل ایج میں بھی بہت سارے دروازے بند ہیں اور راہیں مسدود۔اردو صحافت کی تنگ موضوعاتی زمین نے بھی اسے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اردو صحافت مین اسٹریم میڈیا کا حصہ نہیں بن سکی۔ اسے Sectarian Media کا نام دیا گیا ہے۔ اگر اردو سے وابستہ صحافیوں کا مائنڈ اسکیپ اور مینٹل لینڈ اسکیپ وسیع ہوتا تو شاید اردو صحافت پر محدودیت کا الزام نہ لگتا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اردو صحافت حاشیائی طبقات کے امپاورمنٹ کے لیے آواز بلند کرتی مگر اردو صحافت نہ صرف ایوان اقتدار میں اپنا وقار کھو چکی ہے بلکہ باشعور قاری اور اشرافیہ طبقے کی نظر میں بھی اس کی کوئی اہمیت اور افادیت نہیں رہ گئی ہے۔اشرافیہ طبقہ جب تک اردو زبان اور صحافت سے جڑا رہا اردو کی حالت مستحکم رہی مگر اب زبان اور صحافت دونوں کی زمینی صورت حال یہ بتاتی ہے کہ اردو زبان اور اس سے جڑی ہوئی صحافت دونوں زوال پذیر ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آج بھی لسانی Colonalization کا عمل جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارا حال بھی Aboriginal جیسا ہوسکتا ہے۔ہم اپنی زبان، تہذیب، تاریخ اور اقدار سے محروم بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کا صحیح اندازہ کرنا ہو تو اطہر فاروقی کی مرتب کردہ کتاب ‘Redefining Urdu Politics in India’کا مطالعہ ناگزیر ہے۔

اردو صحافت کی حاشیائیت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر اردو اخبارات کو سرکاری یا نجی اشتہارات بہت کم ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ غیر مسلم طبقہ جو اردو اخبارات کا قاری ہوا کرتا تھا اس طبقے کا اردو صحافت ہی نہیں بلکہ اردو زبان وادب سے رشتہ کمزور ہوتاجارہا ہے۔یہ صورت حال برطانوی دور میں عدالتی اور عوامی اردو زبان کو مسلم تشخصIdentity Muslim سے جوڑنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جبکہ ایک زمانہ وہ تھا جب زیادہ تر اردو اخبارات کے مالکان ہندو ہوا کرتے تھے اور پڑھنے والوں میں بھی اکثریت غیرمسلموں کی ہواکرتی تھی۔ جب سے ہندوستان کے تمام طبقات کی جمہوری اردو زبان کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا تبھی سے اس کا خمیازہ اردو زبان کو بھگتناپڑ رہا ہے۔ یہاں سوچنے اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اردو صحافت کا نقطۂ آغازجس اخبار کو کہا جاتا ہے وہ کلکتہ کاجام جہاں نما ہے اور اس کے مدیر اور مالک مسلمان نہیں بلکہ ہری ہردت اورسدا سکھ لال تھے۔خود لکھنؤ سے ہی جو پہلا اردو اخبار شائع ہوا وہ لکھنؤ اخبار تھا جس کے مدیر لال جی تھے۔ اس کے بعد اودھ اخبار ، اودھ گزٹ نکلے جن کے مالکان اور مدیران ہندو تھے۔ جموں سے بھی پہلا اخبار رنبیر کے نام سے شائع ہوا تو اس کے مالک لالہ ملک راج تھے۔
اردو صحافت سے جب تک غیر مسلم طبقہ جڑا رہا تب تک اردو صحافت زریں تاریخ رقم کرتی رہی ۔ مگر اب صورت حال اس کے برعکس ہے اس کی حیثیت مکمل طورپرحاشیائی ہوگئی ہے۔ ایک زمانہ تھاکہ اردو اخبارات کو اتنی مرکزیت حاصل تھی کہ اس نے استعماری اور سامراجی طاقتوں کو لرزہ براندام کر دیا تھا۔ ایوان اقتدار اردو اخبارات کی طاقت سے اتنا خوف زدہ رہتا تھا کہ اخبار کی کاپیاں ضبط کرلی جاتی تھیں، ضمانتیں مانگی جاتی تھیں اور صحافیوں کو قید و بند کی صعوبتیں دی جاتی تھیں۔اس وقت صحافت جرأت وشہامت اور مزاحمت سے عبارت تھی اور آج کی صحافت جبن اور بزدلی کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔ آج اردو صحافت کو اپنا آئیڈیالوجیکل فریم ورک اور نیریٹیو (Narrative)بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔برسوں سے اردو صحافی ایک ہی قافیہ میں لکھ اور بول رہے ہیںاور ان کا حاوی بیانیہ Dominant Narrativeبھی مسلم ایشوز پر مبنی ہوتا ہے۔ آج کے گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹل عہد میں اطلاعات کے بہت سے دروازے کھل چکے ہیں ایسے میں اگر اردو صحافت نے اپنا قافیہ نہیں بدلا تو اردو صحافت کا قافیہ مزید تنگ ہوتا جائے گا۔جذباتی اشتعال انگیزی، مذہبی شدت پسندی، ادعائیت اور نرگسیت سے بھی صحافت کو باہر نکالنا ہوگا۔نان ایشوز میں اگر یہ صحافت الجھی رہی تو اردو صحافت کو مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اردو صحافت گو کہ خود حاشیے پر ہے مگر اس حاشئے نے بھی ایک مرکز بنا لیا ہے۔حاشیائی مرکزیت کے حامل کچھ اخبارات ایسے ہیں جو بڑے سمجھے جاتے ہیں ۔ خبروں کے انتخاب ، انداز پیشکش اور اپنے مواد کے اعتبار سے بڑے ہیں یا نہیں یہ فیصلہ تو باشعور قاری ہی کریں گے۔ لیکن یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ان اخبارات کے اپنے تحفظات، تعصبات اور ترجیحات ہیں جن کے رد عمل کے طورپر مختلف ریاستوں سے حاشیائی اخبارات شائع ہورہے ہیں ۔در اصل مرکزیت پسند اخبارات حاشیائی آوازوں (Subaltern voices)کو جگہ نہیں دیتے ان کے مسائل ، موضوعات اور بیانات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اس لیے محدود وسائل کے باوجود ان اخبارات کی اشاعت ہورہی ہے اور ان میں بعض اپنے مقصد اور مشن میں کامیاب بھی ہیں۔ اب یہ بھی خاطر نشین رہے کہ اخبار پر لوگوں کا انحصار نہیں رہا۔ بہت سے متبادل ترسیلی ذرائع موجود ہیں۔ سوشل میڈیا نے بہت سی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ یوٹیوب اور پورٹل کے علاوہ Citizen Journalism وجود میں آچکی ہے۔ اب چھوٹی سی بھی آواز دنیا کے کسی بھی کونے میں سنائی دے جاتی ہے۔
حاشائیت کی ایک وجہ صارفیت بھی ہے ۔ مادی منفعت سے جڑی ہوئی ترجیحات اب اردو صحافت کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ اب تو یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ بعض لوگوں نے اردو زبان و صحافت کوفروغ ذات اور ترقی درجات کا ایک زینہ اور ذریعہ بنالیا ہے۔ جبکہ پہلے کے اولوالعزم بلند پایہ صحافیوں نے اردو صحافت کودریوزہ گری، کاسہ لیسی، تجارتی کاروبار اور دوکاندارانہ شغل اور ذاتی ترقی کا زینہ بننے سے بچائے رکھاتھا۔ ان کے لیے صحافت کی حیثیت ایک مشن کی سی تھی ان کا ایقان اقداری صحافت Value based journalism پر تھا مگر رفتہ رفتہ اردو صحافت بھی مشن نہیں مادیت کی مشین بنتی جارہی ہے۔
صحافت کے آغاز سے ہی اس کے لیے ایک ضابطہ اخلاق کا تعین کرلیا گیا تھا جس کی روشنی میں مدتوں مثبت اور صحت مند صحافت کی مشعل جلتی رہی ا ور معاشرہ میں اس کی معتبریت مستحکم ہوتی رہی۔ مولانا محمد علی جوہر جیسے شعلہ بیاں مقرر نے بھی ’ہمدرد‘ نکالتے وقت ضابطہ اخلاق کاپاس رکھا اور یہ واضح کیا کہ ’’اخبار کو ذاتیات سے مبرا ہونا چاہیے۔ نہ کسی دشمن کے خلاف زیادہ لکھنا چاہیے نہ کسی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے چاہئیں۔ مخالفت ہمیشہ اصول کے دائرے میں محدود رہے۔ اخبار کا مقصد یہ ہو کہ اپنے قوم کو فائدہ پہنچایا جائے نہ یہ کہ کسی دوسری قوم کو نقصان پہنچایا جائے۔ مذہبی مباحث سے بھی اخبار کو مبرا ہونا چاہیے۔‘‘ مولانا محمد علی جوہر نے 6 جنوری 1913 کو کامریڈ میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں رہنما بھی ہوتا ہے۔ اسے صرف عوام کی تائید اور حمایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ صحافت کے منبر سے عوام کو درس بھی دینا چاہیے۔‘‘
اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی صحافتی منصب کا تعین کرتے ہوئے لکھا تھا کہ :

’’اخبار نویسوں کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی و سونا کا سایہ بھی اس کے لئے سم قاتل ہے جو اخبار نویس رئیسوں کی ضیافتوں اور امیرو ںکے عطیہ کو قومی عطیوں، قومی امانت اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کرلیتے ہیں۔ وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اور نور ایمان کو بیچیں۔ بہتر ہے کہ دریوزہ گری کی جھولی گلے میں ڈال کر قلندروں کی جگہ قلمدان لے کر رئیسوں کی ڈیوڑھیوں پہ گشت لگائیں اور گلی کوچہ ’قلم ایڈیٹری‘ کا صدا لگا کر خود کو اپنے تئیں فروخت کرتے رہیں۔‘‘
صحافت سے جڑے ہوئے ان بڑے اذہان اور دانشوروں نے صحافتی اخلاقیات کا تادم آخر خیال رکھا اور اپنے قلم کی حرمت کو بحال رکھا مگر اب بدلتے وقت اور تبدیل ہوتی ترجیحات کی وجہ سے صحافتی قدریں مسخ ہوتی جارہی ہیں۔ صحافت کو جس’عدل‘ سے مشروط کیا گیا تھا اب اسی شرط سے انحراف کی صورتیں صحافت میں نمایاں ہونے لگی ہیںجس کے نتیجے میں تحفظات اور تعصبات کارنگ بہت ہی گہرا ہوگیا ہے اور مختلف قوموں کے مابین منافرت بڑھ گئی ہے۔
صحافت میں اخلاقیات کی جگہ اب صارفیت نے لے لی ہے جس کی وجہ سے صحافت کا انسانی چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔آزاد اور شفاف صحافتی قدروں کی خلاف ورزی عام ہوگئی ہے۔لوگ کہنے لگے ہیں کہ صحافت اب خبروں کی تجارت بن گئی ہے اور تجارتی مفادات کا تحفظ ہی صحافت کا مقصد اولیں بن گیا ہے۔ اس کی بدترین شکل پیڈ نیوز ہے۔ادارتی صفحات کی خریدوفروخت کا یہ معاملہ نہایت خطرناک اور صحافتی اخلاقیات کے منافی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ معصوم لفظوں کو مجرم اور گنہگار بنانے کا عمل بھی صرف صارفیت کی وجہ سے شروع ہوچکا ہے۔
صحافت پر صارفیت کا یہ بھی منفی اثر پڑا ہے کہ ایک بڑا طبقہ یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ اب صحافت صاحبان جاہ و ثروت کا سامان نشاط بن کر رہ گئی ہے۔یہ صرف اشرافیہ اور اعلیٰ طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ ستیندر رنجن نے ایک بڑا اچھا سوال اٹھایا ہے کہ آخر قومی صحافت صرف انہیں شہروں اور مقامات پر مرکوز ہوکرکیوں رہ گئی ہے جہاں سے ان کی مالی منفعت یا تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔میڈیا اپنے بنیادی مقاصد اور اغراض سے منحرف ہوگئی ہے۔ صحافت کا کام شخصیت کا ارتقا اور بہتر انسانی معاشرے کی تشکیل ہے۔روسو والٹیر اور تھامسن نے میڈیا کے ذریعہ ہی سماج میں انقلاب برپا کیا تھا۔ ذہنوں کے زاویے تبدیل کیے تھے۔ پہلے صحافت انسانی ذہنوں کو خواب عطا کرتی تھی مگر اب یہ خوف بانٹنے لگی ہے۔
صارفیت کی وجہ سے صحافت کا وہ چہرہ مسخ ہوگیا ہے جو کبھی عام انسانوں کے لیے ایک مشعل راہ اور مینارۂ نو ر کی حیثیت رکھتا تھا مگر اب وہی صحافت انسانی احساسات اور مسائل کی ترجمان ہونے کی بجائے جدید صارفیت کا آلۂ کار بن کر رہ گئی ہے۔
یاد رکھئے صحافت کا یہ گرتا ہوا معیار معاشرے کے ذہن اور ضمیر کے زوال کا بھی آئینہ دار ہے۔اس لیے صحافتی اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے معاشرے کو بیدار ہونا ہی پڑے گا۔ورنہ صحافت میں تیرگی بڑھتی ہی جائے گی

متعلقہ خبریں

تازہ ترین