نئی دہلی (ایجنسیاں)
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی طرف سے 24 اگست جمعرات کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کووڈ انیس کی وبا کے ساتھ ہی افراط زر کی بڑھتی شرحوں کی وجہ سے ایشیا میں تقریباً 68 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہو گئے۔
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں 155.2 ملین افراد، جو کہ خطے کی آبادی کا 3.9 فیصد ہیں، انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 67.8 ملین کے اعداد و شمار کافی زیادہ ہیں اور کووڈ 19 کی وبا اور زندگی میں بڑھتے اخراجات کے بحران کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا۔
نوے فیصد شامی شہری سطح غربت سے نیچے رہتے ہوئے زندہ، اقوام متحدہ
افراط زر کے لیے سن 2017 کی طے شدہ قیمتوں کی بنیاد پر انتہائی غربت کی تعریف یہ ہے کہ یومیہ 2.15 ڈالر سے بھی کم رقم پر روزمرہ کی گزاری جائے۔ کورونا کی وبا اور جغرافیائی سیاسی تناؤ میں اضافے نے پچھلے کچھ سالوں میں سپلائی لائنوں میں خلل ڈالا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں افراط زر کی شرحوں میں اضافہ ہوا ہے۔
شدید غربت سے جنگ کے لیے عالمی بینک کو سرمایہ درکار
اے ڈی بی کے چیف اکانومسٹ البرٹ پارک نے کہا کہ ایشیا اور بحرالکاہل خطے میں مستقل بہتری ہو رہی ہے، تاہم یہ دوہرا بحران، ”غربت کے خاتمے کی طرف پیش رفت کو کمزور کر رہا ہے۔”
پاکستان اور بھارت زچہ و بچہ کی اموات میں سر فہرست
ان کا کہنا تھا، ”غریبوں کے لیے سماجی تحفظ کے ذرائع کو مضبوط کرنے نیز ایسی سرمایہ کاری اور اختراع کو فروغ دینے سے، جو ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہوں، اس سے خطے کی حکومتیں دوبارہ ٹریک پر آ سکتی ہیں۔”
ایشیا میں غریب کلونیز ایشیا میں غریب کلونیز
اے ڈی بی کا تخمینہ ہے کہ ایشیائی آبادی میں سے تقریباً تین میں سے ہر ایک شخص یا مجموعی طور پر 1.26 بلین افراد کو سن 2030 تک معاشی طور پر کمزور سمجھا جائے گاتصویر:
سن 2021 میں اے ڈی بی نے ایک برس پہلے سے موازنہ کر کے یہ تخمینہ پیش کیا تھا کہ کورونا کی وبا سے پہلے کے مقابلے میں کووڈ کی وجہ سے 80 ملین افراد انتہائی غربت میں چلے گئے تھے۔
غریب اور خواتین غیر متناسب طور پر متاثر
بڑھتی مہنگائی سے سب سے زیادہ غریب لوگ متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ وہ خوراک، ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی زیادہ قیمتیں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے ان کی آمدن میں بھی کمی آتی ہے۔ اس کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم یا دیگر اخراجات کے لیے ان کے پاس پیسے ہی نہیں بچتے ہیں، جو طویل مدت میں ان کی صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اس صورتحال سے خواتین بھی غیر متناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں، کیونکہ وہ مردوں کے مقابلے میں کم کمانے کے ساتھ ساتھ بلا معاوضہ بھی کام کرتی ہیں۔
اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ کم آمدنی کے علاوہ، غریب لوگ ضروری سامان اور خدمات تک رسائی کے لیے ایک پریمیم بھی ادا کرتے ہیں۔ ”مثال کے طور پر، کم آمدن والے گھرانوں کو اکثر اشیاء کم مقدار میں خریدنا پڑتا ہے، جو زیادہ مقدار میں خریدنے سے قدرے سستی مل سکتی ہیں۔ وہ ایسی بستیوں میں رہنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں، جہاں انہیں صحت کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کی صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔”
رپورٹ میں ایسے طریقے تجویز کیے گئے ہیں جن سے ایشیا میں حکومتیں زندگی گزارنے کی لاگت کے بحران سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ اس میں سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط بنانا، زرعی ترقی کے لیے سپورٹ میں اضافہ، مالیاتی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانا، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا اور تکنیکی جدت کو فروغ دینا شامل ہے۔
اے ڈی بی کا تخمینہ ہے کہ ایشیائی آبادی میں سے تقریباً تین میں سے ہر ایک شخص یا مجموعی طور پر 1.26 بلین افراد کو سن 2030 تک معاشی طور پر کمزور سمجھا جائے گا۔