نئی دہلی: 21 اپریل (انصاف نیوز آن لائن)
راجستھان کے بانسواڑا میںوزیر اعظم نریندر مودی نےآج اپنے عہدہ کا پاس و خیال رکھے بغیر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے ساتھ ساتھ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے 18سالہ تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے واضح جھوٹ بول کر انتخابی مہم فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھر پور کوشش کی ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس پورے معاملے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
انہوں نے اپنے پیشر و سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سے پہلے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت تھی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی املاک پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے،اس کا مطلب ہے کہ وہ یہ جائیداد کو جمع کریں گے اور اس کو مسلمانوں کے درمیا تقسیم کریں گے – جن کے زیادہ بچے ہیں۔مسلمانوں کو درانداز بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ہندو سے املاک جمع کرکے مسلم دراندازوں میں جمع کردیں گے۔کیا آپ کی محنت کا پیسہ دراندازوں کو ملے گا؟ کیا آپ کو یہ منظور ہے؟۔
مودی نے آگے کہاکہ یہ کانگریس کا منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماؤں اور بہنوں کے سونے کا حساب لیں گے، اس کے بارے میں معلومات لیں گے اور پھر اسے مسلمانوں میں تقسیم کریں گے۔ منموہن سنگھ کی حکومت نے کہا تھا کہ جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ بھائیو اور بہنوں، یہ شہری نکسل خیالات کے حاملیں آپ کے منگل سوتر کو بھی چھین کر اقلیتوں کے درمیان تقسیم کریں گے۔
نریندر مودی اور بی جے پی نے اب تک اپنی انتخابی مہم میں مذہبی عقیدے، رام مندر اور بھگوان رام کے نام استعمال کرتے ہوئے شہریوں سے ووٹ کی اپیل کرتے رہے ہیں ۔تاہم اس پورے معاملے میں الیکشن کمیشن خاموش تماشائی ہے اور اس نے اس طرح کے نفرت انگیز اور مذہبی بیانات پر کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
اصل میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کیا کہا تھا؟۔
2006میں ہی نریندر مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ اس طرح کا دعویٰ کیا تھا ۔اس وقت سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دفترپی ایم او نے اس کی تردید کی تھی۔
اس وقت پی ایم او نےاس پورے معاملے میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے جو بیان دیا تھا اس کو جان بوجھ کر اور شرارتی نیت سے غلط تشریح کی جارہی ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے کچھ حصوں میں بھی وزیر اعظم کے مشاہدات کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر نقل کیا گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ قومی ترقیاتی کونسل کی میٹنگ میں جو بیان دیا تھا وہ حسب ذیل ہے:
’’مجھے یقین ہے کہ ہماری اجتماعی ترجیحات واضح ہیں۔ زراعت، آبپاشی اور آبی وسائل، صحت، تعلیم، دیہی بنیادی ڈھانچے میں اہم سرمایہ کاری، اور شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب و دیگر پسماندہ طبقات کی ترقی کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ عام بنیادی ڈھانچے کی ضروری عوامی سرمایہ کاری کی سخت ضرورت ہے۔اقلیتیں ، خواتین، بچے ،درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے فلاح و بہبود کے منصوبوں کو از سرنو شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ملک کی ترقی میں یکساں مو اقع کو یقینی بنانے کیلئے اختراعی منصوبے وضع کرنے ہوں گے۔وسائل پر پہلا دعویٰ ان کا ہونا چاہیے۔ مرکز کے پاس بے شمار دیگر ذمہ داریاں ہیں جن کے مطالبات کو وسائل کی مجموعی دستیابی میں پورا کرنا ہوگا‘‘۔
پی ایم او نے وضاحت میں کہا تھا کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ملک کے تمام پسماندہ طبقات کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے وسائل ان تمام افراد کا پہلا حق ہونا چاہیے جو بچھڑ چکے ہیں ۔بشمول شیڈول کاسٹ ،شیڈول ٹرائب اور اقلیت
اپوزیشن کا رد عمل
کانگریس کے میڈیا اور پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پون کھیرا نے ایک پوسٹ میں ویڈیو پیغام میں کہاکہ ہم وزیر اعظم کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دکھائیں کہ ہمارے منشور میں کہیں بھی ہندو یا مسلم لفظ لکھا ہے۔ اس قسم کا ہلکا پن آپ کی ذہنیت میں ہے، آپ کی سیاسی اقدار میں ہے۔ ہم نے نوجوانوں، خواتین، کسانوں، قبائلیوں، متوسط طبقے اور مزدوروں کے لیے انصاف کی بات کی ہے۔ کیا آپ کو اس پر بھی اعتراض ہے؟‘‘
جھارکھنڈ کے رانچی میں اپوزیشن کی ایک ریلی میں کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نےکہا کہ ’’اگر ملک میں جمہوریت اور آئین ختم ہو گیا تو عوام کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ باباصاحب امبیڈکر جی اور جواہر لعل نہرو جی نے سب کو یکساں ووٹنگ کا حق دیا جس کی وجہ سے تمام طبقات کو عزت ملی۔ لیکن نریندر مودی غریبوں سے ان کے حقوق چھیننا چاہتے ہیں۔
بی وی سرینواس نےوزیر اعظم مودی کی تقریر پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ شخص اس ملک کا وزیر اعظم ہے، اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہندوستان کا الیکشن کمیشن اب زندہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شکست کی مایوسی کے باعث ہندوستان کے وزیر اعظم کھلے عام نفرت کے بیج بو رہے ہیں، وہ منموہن سنگھ کے 18 سال پرانے نامکمل بیان کا غلط حوالہ دے کر پولرائز کر رہے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن (مودی کا پریوار) جھک چکا ہے
مودی کی ماضی کی نفرت انگیز تقریر
مودی، گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے 12 سالہ دور میں ریاست کی اقلیتی مسلم کمیونٹی کو ڈھٹائی سے نشانہ بناتے رہے ہیں۔وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کیلئے جانے جاتے رہے ہیں۔انہوں نے گجرات فسادات کے بعد کیمپوں میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق انتہائی غلیظ ز بان کا استعمال کیا تھا۔جب کہ2002 میں ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمان کیمپوں میں رہنے پر مجبور تھے۔ گجرات میں فسادات گورو یاترافوراً بعد شروع ہوئی، شمالی گجرات کے مہسانہ ضلع کے بیچراجی میں ایک ریلی میںمودی نے کہاتھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ان کے لیے ریلیف کیمپ چلائیں؟ کیا ہم بچے پیدا کرنے کے مراکز کھولنا چاہتے ہیں؟ لیکن کچھ لوگوں کے لیے اس کا مطلب ہے ہم پانچ، ہمارے پچیس۔
2017 میں ایک بار پھر مسلمانوں کوبراہ راست نشانہ بنایا تھا۔انہوں نے 10 دسمبر 2017 کو پالن پور میں ایک تقریر میں یوپی اور پھر گجرات کے انتخابات کے لیے ‘شمشاں بمقابلہ قبرستان کی مہم چلانے کی بات کی۔ مودی نے دعویٰ کیا کہ ’’ کانگریس لیڈر منی شنکر ایر کی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ ہوئی جس میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ، سابق نائب صدر حامد انصاری، سابق آرمی چیف دیپک کپور اور ممتاز سفارت کاروں نے شرکت اور اس میں گجرات میں بی جے پی کو ہرانے کیلئے پاکستان سے مدد لینے کی سازش کی گئی۔مودی کے پی ایم او کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب کانگریس کی طرف سے دائر کی گئی ایک آر ٹی آئی کے جواب میںان کے دفتر کو یہ مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ مودی کی انتخابی مہم کی تقریرغیر رسمی ان پٹ پر مبنی ہو سکتی تھی۔
22 جون، 2023 کو جو بائیڈن کے ساتھ پریس کانفرنس میں مودی سے ایک خاتون صحافی نے پوچھا تھاکہ ہندوستان نے طویل عرصے سے اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر فخر کیا ہے، لیکن انسانی حقوق کے بہت سے گروپ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ کی حکومت مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے اور اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ آپ یہاں وائٹ ہاؤس کے مشرقی کمرے میں کھڑے ہیں، جہاں بہت سے عالمی رہنماؤں نے جمہوریت کے تحفظ کے لیے وعدے کیے ہیں، آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنے کو تیار ہیں؟ ۔
جواب میں مودی بظاہر پریشان نظر آئے اور انہوں نے تمام الزامات کی تردید کی۔ میں واقعی حیران ہوں کہ لوگ ایسا کہتے ہیں۔درحقیقت ہندوستان ایک جمہوریت ہے۔‘‘
خاتون صحافی کو بی جے پی کے لیڈروں اور حامیوں نے اس حد تک آن لائن ٹرول کیا کہ وائٹ ہاؤس کو باہر نکل کر اس کا دفاع کرنا پڑا اور ٹرولنگ اور بدسلوکی کی سخت مذمت کی ۔