محی الدین غازی
یوپی انتخابات کا بگل بجنے سے لے کر اب تک ہم نے ضبط سے کام لیا اور سوشل میڈیا پر کسی پارٹی کے سلسلے میں اپنے کسی خیال کا اظہار نہیں کیا۔ ویسے بھی جب چناؤ کا نقارہ بج رہا ہو، ایک دوسرے پر الزام بازی کا دور چل رہا ہو ، تو کسی سنجیدہ بات پر کان دھرنے کا موقع کسی کے پاس نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اب جب کہ ماحول پرسکون ہوگیا ہے، اور سیاسی اکھاڑے کے سارے پہلوان تھک کر سستا رہے ہیں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنی بات صاف صاف رکھ دیں۔ ممکن ہےقومی حافظے میں درج ہوجائے اور آئندہ کبھی کام آئے۔
ابھی جو لوگ انتخابی نتائج کا اس انداز سے تجزیہ کررہے ہیں کہ کل ہندمجلس اتحاد المسلمین ( میم) کو ہر جگہ بہت کم ووٹ ملے ہیں اس لیے بی جے پی کی جیت کا ذمے دار اسے نہیں ماننا چاہیے، وہ سطحی تجزیہ کررہے ہیں۔ میم کا قصور یہ نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں کے کچھ ووٹ کاٹ لیے، میم کا قصور یہ ہے کہ اس نے ہندو مسلم سیاست کو ہوا دینے میں بی جے پی کے ساز میں ساز ملاکر بڑی تعداد میں ہندو ووٹوں کے بی جے پی کی طرف منتقل ہونے میں اہم رول ادا کیا۔ وہ پانچ سال تک ستائے گئے دلت ہوں یا دیگر طبقات ہوں۔
ہم اس کے خلاف نہیں ہیں کہ میم یا کوئی اور مسلم پارٹی الیکشن میں حصہ لے۔ نہ ہی ووٹ کاٹنے والی دلیل سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔ الیکشن میں سبھی کو حصہ لینا چاہیے، تبھی نئی پارٹیاں اور افراد متبادل کے طور پر سامنے آئیں گے۔ اصل خرابی جس سے ہمیں شدید اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن مہم میں مسلم پارٹی ایسا بیانیہ اور رویہ اختیار کرے جس سے بی جے پی کو ووٹ بینک بڑھانے میں مدد ملے۔
یہ الزام کہ میم بی جے پی کی بی پارٹی ہے، میرے نزدیک نہایت ہی غلط الزام ہے۔ اصل خرابی یہ ہے کہ میم مسلم آبادی میں اپنی جگہ بنانے کے لیے وہ بیانیہ اختیار کرتی ہے ، جو بی جے پی کو ہندو عوام میں اپنا نفوذ بڑھانےمیں مدد دیتا ہے۔
مجھے گذشتہ ہفتے آسام جانے کا موقع ملا۔ وہاں لوگوں سے تبادلہ خیال ہوا، جن میں بڑے تاجر، اداروں اور تنظیموں کے ذمے داران اور علمائے کرام بھی تھے۔ اے آئی یو ڈی ایف (آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) وہاں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ 2006 سے وہ الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ 2021 میں اسے سولہ سیٹیں ملیں۔ وہ آسام کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے منظر عام پر آنے سے مسلمانوں کو تسلی ہوئی کہ ان کی اپنی پارٹی ہے، جو ان کے مسائل کے لیے سیاسی لڑائی لڑے گی۔ لیکن ہوا یہ کہ ایک طرف اے آئی یو ڈی ایف ابھر کر سامنے آئی اور دوسری طرف بی جے پی کو پاؤں پسارنے کے لیے جگہ ملتی گئی اور ساتھ ہی کانگریس سمٹتی گئی۔ 2016 میں پہلی مرتبہ آسام میں بی جے پی کی حکومت بنی۔ ہندو مسلم سیاست کا ماحول بی جے پی کو راس آتا ہے، اے آئی یو ڈی ایف کی تشکیل نے اسے یہ ماحول فراہم کردیا۔
آپ کہیں گے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، حکومت کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی؟ کانگریس نے مسلمانوں کے لیے کیا کیا؟
لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرق پڑتا ہے۔آسام میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے مسلمان معاشی لحاظ سے کم زور ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی بڑی تجارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ سیکولر حکومت میں کچھ نہیں ملے تو بھی رکاوٹیں کم ملتی ہیں، فرقہ پرست حکومتیں توبڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کرکے جینا دشوار کردیتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگرآسام میں مسلمانوں کے معاشی حالات کا باقاعدہ سروے کیا جائے تو بڑی خوف ناک صورت حال سامنے آئے گی۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اے آئی یو ڈی ایف بننے کے بعد آسام کے مسلمان سیاسی لحاظ سے بھی الگ تھلگ اور بے بس ہوگئے ہیں۔ ان کی اب سیاسی پارٹی تو ہے مگر سیاسی طاقت نہیں ہے۔
کسی بھی اقلیت کے لیے سب سے خطرناک صورت حال یہ ہوتی ہے کہ اسے سیاسی طور پر بالکل الگ تھلگ کردیا جائےاور وہ سیاسی طور پر اچھوت بنادی جائے ۔ اس کی سیاسی پارٹی بھی ہو ، سیاسی نمائندے بھی ہوں، لیکن وہ کسی بھی سیاسی مطالبے اور سیاسی استحقاق سے محروم ر ہے۔ ایک پارٹی اور کچھ نمائندوں کی صورت میں ایک حصار میں قید کردینے کے بعد اکثریت کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکم راں پارٹی کو نہ اس اقلیت کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کی ناراضگی اور احتجاج کی پرواہ ہوتی ہے۔آسام میں مسلمانوں کی صورت حال اسی سمت جارہی ہے۔
کیرلا میں مسلمانوں کی اپنی پارٹی انڈین یونین مسلم لیگ ہے۔ لیکن وہ مسلم سیاست کے حصار میں قید نہیں ہے۔کیوں کہ وہ صرف اس علاقے کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، باقی ریاست میں مسلم اقلیت دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ وہ شروع سے کانگریس کی حلیف اور یو ڈی ایف کا حصہ رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ کانگریس کا غیر اعلان شدہ مسلم بازو ہے۔
تلنگانہ میں بھی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین تلنگانہ کی سیکولر پارٹیوں کی حریف نہیں بلکہ ہمیشہ کسی نہ کسی سیکولر پارٹی کی حلیف رہی ہے۔ میم تلنگانہ ریاست کے مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ حیدرآباد کے مسلم اکثریتی علاقے کی نمائندگی کرتی ہے۔تلنگانہ میں اس کا سیاسی رویہ اپنے حصار میں قید ہوجانے کا نہیں بلکہ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اشتراک عمل کا ہے۔
تلنگانہ میں میم نے وہ سیاسی رویہ اختیار کیا ہے جو کیرلا میں مسلم لیگ نے اختیار کیا ہے، لیکن یوپی میں میم نے وہ بیانیہ اختیار کیا جو آسام میں اے آئی یو ڈی ایف نے کیا ہوا ہے۔
یوپی کے مسلمانوں نے پولنگ بوتھ پر میم کو مسترد کردیا، یہ مستقبل کے لیے خوش آئند ہے۔ لیکن مسلمانوں نے میم کی ریلیوں میں بھرپور شرکت کی، اس سے عام صورت حال بی جے پی کے حق میں ہوگئی۔
بی جے پی کی عوام مخالف پالیسیوں اور کھلی ناکامیوں کے باوجودبڑی تعداد میں ہندو ووٹ بی جے پی کے حق میں پڑے۔ اس میں دیگر بہت سے عوامل کے علاوہ درج ذیل دو عوامل بھی خاص طور سے کارفرما رہے۔ ایک طرف میم کی بڑی ریلیاں، جذباتی تقریریں اور بیانات جو یہ تاثر دے رہے تھے کہ مسلم ووٹ میم کے حق میں جارہا ہے، دوسری طرف بی جے پی کا یہ پروپیگنڈا کہ مسلمانوں کا ووٹ ہندوؤں کے خلاف ہے، اس لیے ہندوؤں کا ووٹ خالص ہندو پارٹی کو ملنا چاہیے جو صرف ہندو مفاد کی بات کرے۔ حالیہ الیکشن میں بیس اور اسّی کا نعرہ یہی ذہن بنانے کے لیے دیا گیا تھا۔
یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کا مقابلہ ہندوؤں کے ووٹ پر سیاست کرنے والی پارٹیوں سے نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ دونوں کا مقابلہ خود کو غیر جانب دار کہنے والی سیکولر پارٹیوں سے ہوتا ہے۔ غور سے دیکھیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ظاہر بات ہے کہ خالص مسلم پارٹی کا ووٹ بینک اور خالص ہندو پارٹی کا ووٹ بینک دونوں بالکل الگ الگ ہوتے ہیں ۔ دونوں کا ووٹ بینک اگر بڑھ سکتا ہے تو ان ووٹوں کو رجھانے سے جو سیکولر پارٹیوں کو جاتا ہے ، چاہے وہ مسلمانوں کا ہو یا ہندوؤں کا۔ اسی لیے یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر نشانہ سادھنے سے زیادہ سیکولر پارٹیوں کو نشانہ بناتی ہیں۔یوگی کے اس بیان پر غور کریں کہ سماج وادی حکومت میں ہندو تہواروں میں بجلی کاٹ دی جاتی اور مسلم تہواروں میں سارا دن بجلی دی جاتی تھی۔ دوسری طرف میم کا یہ کہنا کہ سماج وادی پارٹی اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دور رخ ہیں۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ گوا ، منی پور اور اترا کھنڈ میں کن عوامل نے بی جے پی کو فتح دلائی؟ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ 2017 میں تو یوپی الیکشن میں میم متحرک نہیں تھی ، پھر بی جے پی کو بڑی فتح کیسے حاصل ہوئی تھی؟
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان مثالوں کا حوالہ دینے کے بجائے یوپی کے حالیہ انتخابات کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ اور یہ دیکھنا چاہیے کہ خاص ان انتخابات میں بی جے پی کی جیت میں کیا عوامل مددگار ثابت ہوئے۔
ہندو مسلم کی سیاست مسلم پارٹیوں کی بھی ضرورت ہے اور ہندو پارٹیوں کی بھی ضرورت ہے۔دونوں کوطاقت بخش غذا بلکہ زندہ رہنے کے لیے ضروری آکسیجن وہیں سے ملتی ہے۔ اکثریت کے ووٹوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت کے سبب ہندو پارٹی خوب موٹی تازہ ہوجاتی ہے۔ مسلم پارٹی عام طور سے مسلم اقلیت کا ووٹ حاصل نہیں کرپاتی اس لیے نحیف ونزار ہی رہتی ہے۔ اسے اگرمطلوبہ ووٹ مل جائے تو وہ بھی کچھ تنومند ضرور ہوجاتی ہے، لیکن اس صورت میں بھی مسلم آبادی کا کچھ بھی بھلا نہیں ہوتا ہے۔کیوں کہ سیاسی پارٹی سیاسی قوت نہیں بن پاتی۔
سب سے بڑا مسئلہ جو ہندو مسلم سیاست کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، وہ سیکولر پارٹیوں کا رویہ ہے۔ خود کوغیر جانب دار اور انصاف پسند ثابت کرنے کے ہر امتحان میں وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔ان سے اس کی توقع تو فضول ہے کہ وہ راست کوئی فائدہ پہنچاسکیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی حکومت میں مسلمانوں کے پاس اپنے مسائل خود حل کرنے اور اپنی ترقی کے منصوبے خود بنانے اور انجام دینے کے مواقع کسی قدر رہتے ہیں۔
ہم اس کے حق میں ہرگز نہیں ہیں کہ مسلمان اپنی سیاسی قسمت کو سیکولر پارٹیوں کے حوالے کرکے سیاست سے بن باس لے لیں۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ مسلمان ایسا مضبوط سیاسی موقف اور اسمارٹ سیاسی رویہ اختیار کریں کہ اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی انھیں سیاسی ضعف اور سیاسی استحصال سے دوچار ہونا نہ پڑے۔ ان کی سیاسی پارٹی ہو یا نہ ہو سیاسی طاقت ضرور ہو، جوحق پسند اور انصاف کی علم بردار ہو۔
’ضلعی سیاسی پارٹی کا آئیڈیا‘ کے عنوان سے ہم اس سے پہلے ایک تجویز پیش کرچکے ہیں، وہ فیس بک پر موجود ہے۔ امید ہے اہلِ نظر اسے غور و فکر کا موضوع بنائیں گے۔ ابھی اس طرف متوجہ کرتے چلیں کہ تلنگانہ کے حیدرآباد میں میم اور کیرلا کے مالا بار میں مسلم لیگ اس لیے کامیاب ہیں کیوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ مقامی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا ریاست کی بڑی پارٹی کے ساتھ گٹھ بندھن ہے۔اپنی اپنی ریاست میں ان کا سیاسی رویہ جنگ جوئی کا نہیں صلح پسندی کا ہے۔
جمہوری ملک میں خوبی یہ ہے کہ انتخابات کے مواقع بار بار آتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں غلطیوں سے سبق لینے اور بہتر رویہ اختیار کرنے کا موقع بار بار ملتا ہے۔ اس لیے گفتگو جاری رکھیں، شاید کوئی بہتر سبیل نکل آئے۔(نوٹ: یہ مضمون نگار کا ذاتی تجزیہ و تجویز ہے)