ئی دہلی: کیرالہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کا اخبارات میں ذکر آیاہے کہ مسلمان عورت عدالت جائے بغیر خود طلاق دے سکتی ہے، اس میں فیصلہ کی ناقص ترجمانی کی گئی ہے، جس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے پریس بیان میں کہی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اصل بات یہ ہے کہ1939ء میں مسلمان عورتوں کے فسخ نکاح سے متعلق ایک قانون بنا تھا، جس میں ان اسباب کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی بناء پر عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کر سکتی ہے، اور ظاہر ہے کہ فسخ نکاح عدالت (قاضی) کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے، 1937ء میں شریعت اپلی کیشن ایکٹ پاس ہوا، جس میں طلاق، خلع اور مبارأت نیز پرسنل لا سے متعلق قوانین کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر مقدمہ کے دونوں فریق مسلمان ہوں تو ان پر شرعی قانون ہی نافذ ہوگا، ان قوانین میں چوں کہ طلاق وخلع بھی شامل ہے اور طلاق اور خلع کے لئے شرعاََ عدالت (قاضی) سے رجوع کرنا ضروری نہیں ہے، طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے اور خلع مردوعورت دونوں کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے۔
مولانا رحمانی نے کہا کہ اس پس منظر میں کورٹ نے کہا ہے کہ مسلمان عورت طلاق حاصل کرنے میں عدالت جانے کی پابند نہیں ہے، نہ یہ کہ ایک عورت کو طلاق دینے کا اختیار ہے، شاید اخبارات نے اس بات کو اس لئے نمایاں کیا ہو کہ ہندو میرج ایکٹ کے تحت ہندو خواتین کے لئے طلاق حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عدالت سے رجوع ہوں، جس کی وجہ سے ان کو بڑی دشواری پیش آتی ہے، اور مقدمہ کی پیروی میں سالہا سال لگ جاتے ہیں؛ البتہ اس فیصلہ میں ضمنی طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر بیوی خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر اس کو قبول کرنے کا پابند ہے، یہ بات شرعی نقطہئ نظر سے درست نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ خلع بھی طلاق ہی کی ایک صورت ہے، جس میں شوہر اور بیوی کی رضامندی سے طلاق کا معاملہ طے پاتا ہے، بیوی ایک طرفہ طور پر خلع نہیں دے سکی۔