کلکتہ3جولائی :
مغربی بنگا ل اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کرنے کے بعد آئی ایس ایف کے واحد رکن اسمبلی نوشاد صدیقی نے کہا کہ اسمبلی سیشن میں شرکت کرنے کا تجربہ بہت ہی خوشگوار رہا اور میںنے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنی کم عمر میں میں اس ایوان کا ممبر منتخب ہوجائوں گا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 17 اے کے مطابق اجلاس کی شروعات گورنر کی تقریر سے ہوتی ہے۔ اس مرتبہ بھی یہی ہونا تھا ۔اسمبلی سیکریٹریٹ نے ہمیں میل کے ذریعہ اطلاع دی تھی کہ دوپہر ایک بج کر 45منٹ تک اسمبلی تک پہنچ جائیں ۔نوشاد صدیقی نے کہا کہ میں پہلے ہی اسمبلی پہنچ گیا تھا اور اس کے بعد جمعہ کی نماز ادا کی ۔اسمبلی کے کینٹین میں جاکر دوپہر کا کھانا کھایا۔اسمبلی میں میرے لئے 194 نمبر سیٹ میرے لئے مخصوص کی گئی ہے۔ مجھے اسمبلی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں مین گیٹ سے داخل ہوا اور نوٹس بورڈ اپنا پر نام دیکھا۔ اس کے بعد اسمبلی کے عملہ نے مجھے وہ جگہ دکھائی۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اجلاس شروع ہونے کا انتظار کرنے لگا۔اسی درمیان گورنر ، اسپیکر ، وزیر اعلی ایک ایک کرکے اسمبلی میں داخل ہوئے۔ میں نے اپنی سیٹ پر کھڑے ہوکر ان تینوں کو سلام پیش کیا ہے۔
نوشاد صدیقی نے کہا کہ میرے پاس والی سیٹ پر بالا گڑھ سے ممبر اسمبلی بیٹھے ہوئے تھے۔وہ بنگلہ زبان کے ادیب ہیں ،انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں ۔انہوں نے مجھے زندگی کے کئی اہم تجربات سے شیئر کیا۔وہ ایک والد کی طرح ہم سے بات کیا۔
انہوں نے کہا کہ قومی ترانے کے بعد جیسے ہی گورنر نے اپنی تقریر شروع کی اس کے بعد اپوزیشن لیڈران کی ہنگامہ آرائی میرے لئےتعجب خیز تھا۔میں ان سب کےلئے تیار نہیں تھا۔میں حیران ہوگیا۔ گورنر نے متعدد بار مظاہرین کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ آخر میںوہ اسمبلی چھوڑ کر چلے گئے۔
3.30بجےڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہونا تھا۔اس درمیان مجھے وقت ملا تو میں لائبریری میں گیا۔ میں نے لائبریرین سے بات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کون دستاویز کہاں ملتے ہیں۔ یہ لائبریرین انتہائی شریف آدمی۔ میں ویب سائٹ پر موجود دستاویزات بھی دیکھ سکتا ہوں۔یہ لائبریری مستقبل میں میرے لئے کارآمد ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ میں بنگال میں تشدد کے واقعات کی طرف وزیر اعلیٰ اور حکومت کی توجہ مبذول کرائوں گا۔
انہوں نے کہا کہ بدھان چندر رائے اور جیوتی باسو ایک دوسرے کے شدید نقاد تھے مگر اس کے باوجود ایک دوسرے کا احترا کرتے تھے۔ میں حزب اختلاف اور حکمران جماعت کے مابین تعلقات چاہتا ہوں۔ پہلے دن میں نے جو صورتحال دیکھی تھی وہ عجیب و غریب تھی۔مگر یہ کہوں گا کہ بنگال میں تشدد کے واقعات اہم ہے اس کا حل ہونا چاہیے۔