انصاف نیوز آن لائن
جولائی تو معلوم انسانی تاریخ کا گرم ترین مہینہ بن ہی چکا ہے لیکن اگست بھی اس سے پیچھے نہیں رہا، خاص طور پر جنوبی ایشیائی خطے کے لیے۔دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک ہندستان نے کہا ہے کہ سو سال قبل جب سے قومی سطح پر موسم کا ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، اگست سب سے زیادہ گرم اور خشک مہینہ بن گیا ہے۔
ہندستان میں فصلوں کی پیداوار کے لیے زیادہ تر مون سون کی بارشوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ملک کی 80 فی صد بارشیں مون سون کے دوران ہوتی ہیں۔ بھارت کے محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ اگست میں، جو مون سون سیزن کے درمیان آتا ہے، اوسطاً صرف ساڑھے چھ انچ بارش ہوئی جو ریکارڈ پر موجود 2005 کے کم ترین اوسط سے بھی تقریباً ایک اعشاریہ 2 انچ کم ہے۔
جاپان میں بھی صورت حال ہندستان سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ موسمیات سے متعلق جاپانی حکام نے کہا ہے کہ 1898 کے بعد سے، جب سے ملک میں موسم کا ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، اگست کا درجہ حرارت معمول کے اوسط سے نمایاں طور پر بلند رہا ہے۔
ٹوکیو کے عجائب گھر میں نصب جیو گوسموس، جس پر دس لاکھ سے زیادہ ایل ای ڈی نصب ہیں جن کی رنکین روشنی یہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کے کن علاقوں میں گلوبل وارمنگ کے کیا اثرات نصب ہوں گے۔
آسٹریلیا کے موسمیات کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ موجودہ سال موسم گرما نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے اور جون سے اگست کے دوران اوسط درجہ حرارت 62 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ رہا، جس نے ان تین مہینوں کو اب تک کے گرم ترین مہینے بنا دیا ہے۔
کرہ ارض پر صرف گرمیوں کا مزاج ہی گرم نہیں ہو رہا بلکہ سردیوں کے ٹھنڈے پن میں بھی کمی آ رہی ہے۔ آسٹریلیا کے موسمیاتی ادارے بیورو آف میٹرولوجی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 1910 سے جب سے موسم کے اعداد و شمار محفوظ کیے جانے لگے ہیں سردیوں کا اوسط درجہ حرارت بھی اونچا ہو رہا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کے مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا سبب آب و ہوا کی تبدیلی ہے جس سے زمین گرم ہو رہی ہے اور جولائی کا مہینہ اب تک کی معلوم تاریخ کا گرم ترین مہینہ بن کر ہمارے سامنے آ چکا ہے۔
سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ درجہ حرارت کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک گرمی کی لہریں ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے آب و ہوا تبدیل ہو رہی ہے، ہیٹ ویوز کی تعداد، دورانیہ اور ان کی شدت بڑھ رہی ہے۔ گرمی کی لہروں کا شمار مہلک ترین قدرتی خطرات میں کیا جاتا ہے جس سے منسلک وجوہات ہر سال لاکھوں انسانی زندگیاں نگل لیتی ہیں۔
جاپان ایک امیر ملک ہے اور لوگ گرمی کا مقابلہ ایئر کنڈیشنرز سے کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود جولائی میں کم ازکم 53 جاپانی ہیٹ ویوز سے ہلاک ہوئے اور 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کو اسپتالوں کی ایمرجینسی میں لایا گیا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہر میں باہر کام کرنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 95 ڈگری فارن ہائیٹ میں، جب ہوا میں نمی کا تناسب 100 فی صد ہو، مسلسل چھ گھنٹے باہر رہنا ہلاکت کا سبب سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) میں شدید گرمی کے شعبے کے ایک ماہر جان نیرن نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے کہا ہے کہ گرمی کی لہریں اب بہت خطرناک ہو تی جا رہی ہیں۔ یہ گلوبل وارمنگ کا تیزی سے سامنے آنے والا نتیجہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف گرمی کی لہروں کی شدت بڑھتی جائے گی بلکہ ان کے دورانیے میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور ہمیں بار بار گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گرم ہوتے ہوئے موسموں کا ایک بڑا منفی اثر پہاڑوں پر جمی برف پر ہو رہا ہے اور وہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔ دنیا کے بلند پہاڑوں پر برف کی ہزاروں سال پرانی تہیں موجود ہیں، جو اب درجہ حرارت کے بڑھنے سے پگھل رہی ہیں اوراس کے نتیجے میں سیلابوں اور طغیانیوں کی شدت اور تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
امریکہ کے جیولوجیکل سروے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا کے تمام گلیشیئرز پگھل جائیں تو تمام سمندروں کی سطح تقریباً 70 میٹر یعنی 230 فٹ بلند ہو جائے گی جس سے دنیا بھر کے تمام ساحلی شہر ڈوب جائیں گے، ہزاروں جزیرے غائب ہو جائیں گے اور کئی ملک دنیا کے نقشے پر موجود نہیں رہیں گے۔
ایک عالمی ادارہ گلاموس(GLAMOS) کرہ ارض پر موجود گلیشیئرز پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے ایک ماہر میتھیاس ہس ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گرمی کی لہروں سے دنیا بھر کے گلیشیئرز کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ 2023 مسلسل دوسرا ایسا سال ہے جس میں گلیشیرز کی سطح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ سوئٹرز لینڈ کے موسمیات کے ماہرین نے 70 سال پہلے پہاڑوں پر درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تھا، جو ہمیشہ نقطہ انجماد سے نیچے ہوتا تھا۔لیکن گزشتہ ہفتے انہوں یہ اطلاع دی ہے کہ گرمی کی لہر کی وجہ سے سوئٹرز لینڈ کے منجمد پہاڑوں پر درجہ حرارت صفر سے اوپر چلا گیا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے یورپ کے پہاڑوں کی برف کو تیزی سے پگھلاؤ کا سامنا ہے۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ برف کی سفید رنگت سورج کی روشنی اور حرارت کو واپس پلٹ دیتی ہے۔ برف کی تہیں زمین کے درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ جیسے جیسے پہاڑوں پر سے برف گھٹتی جائے گی اور گلیشیئرز پگھلتے جائیں گے، تو زمین کا درجہ حرارت بھی بڑھنے لگے گا جس میں پہلے ہی کاربن گیسوں کے اخراج کے باعث تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
موسمیات کے ادارے کے مطابق گزشتہ سال سوئٹرز لینڈ کے 1400 گلیشیئرز تیزی سے پگھلاؤ کا ہدف بنے تھے اور برف کے حجم میں مجموعی طور پر 6 فی صد تک کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔
ہس کہتے ہیں کہ کئی گلیشیئرز اپنی زیادہ تر برف کھو کر چھوٹے ہو گئے ہیں۔ کئی ایک غائب ہو چکے ہیں۔ اگر ہم گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا موازانہ پچھلے عشرے سے کریں تو دس سال پہلے کے مقابلے میں اب برف پگھلنے کی رفتار تین گنا زیادہ ہے۔
کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایورسٹ کی بلند ترین چوٹی سے لے کر گہرے سمندروں کی تہوں تک ہر چیز پر اپنے نقس ثبت کر رہا ہے۔ ہرے بھرے جنگل جنہیں زمین کا حسن کہا جاتا تھا، گرمی کی شدت سے سوکھ کر اتنی تیزی سے جلنے لگے ہیں جیسے کسی نے ان پر تیل چھڑک دیا ہو۔ اب دنیا کا شاہد ہی کوئی حصہ بچا ہو جہاں کے جنگلوں میں آگ کے شعلے بلند ہونے کی خبریں اور تصویریں نہ آتی ہوں۔ یہ مناظر دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم تیزی سے دہکتی ہوئی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔