Sunday, September 8, 2024
homeدنیا' ہندو شناخت" کی سیاست بمقابلہ ''بنگالی شناخت" کی سیاست-------نوراللہ...

‘ ہندو شناخت” کی سیاست بمقابلہ ”بنگالی شناخت” کی سیاست——-نوراللہ جاوید

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ’’بنگال دیوس‘‘ کے نام پر تقسیم ہند کی یاد کو تازہ کرکے مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانےکی کوششوں کو بظاہر ناکام کر دیا ہے۔ بنگالی سال کے پہلے دن، پہلا بیساکھ کو بنگال دیوس کے طور پر منانے کے لیے اسمبلی سے قرارداد منظور کرکے گورنر کو بھیج دی گئی ہے۔ گورنر اس بل پر دستخط کریں گے یا نہیں ابھی منظر واضح نہیں ہے۔ اس وقت کئی بل راج بھون کی فائلوں میں دبے پڑے ہیں۔ اس سال کیرالا سے تعلق رکھنے والے گورنر سی وی آنند بوس نے ریاستی حکومت سے صلاح و مشورہ کیے بغیر 20 جون کو بنگال دیوس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ ممتا بنرجی کی درخواست کے باوجود اس سال 20 جون کو راج بھون میں بنگال دیوس کا اہتمام کیا گیا۔

دراصل 20 جون 1947 کو بنگال اسمبلی میں پہلی مرتبہ بنگال کی تقسیم کی تجویز پاس ہوئی تھی۔ مسلم اکثریتی علاقہ پاکستان کے سپرد کر دیا گیا جو مشرقی پاکستان کے نام سے مشہور ہوا اور غیر مسلم اکثریتی علاقے کا مغربی بنگال کی شکل میں وجود عمل میں آیا۔ بنگالی عوام نے تقسیم کے سانحہ کا کبھی بھی جشن نہیں منایا بلکہ ان کے نزدیک بنگال کی تقسیم بنگالی تہذیب و ثقافت کی تقسیم کے مترادف ہے۔ جبکہ سنگھ پریوار ہمیشہ 20 جون کو بنگال دیوس کے طور پر منانے پر مصر رہا ہے۔ وہ اس دن کو ہندو شناخت کے احیاء کے طور پر منانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انتہا پسندی پر مبنی ہندو شناخت کی سیاست ممتا بنرجی کے لیے سازگار نہیں ہے اسی لیے انہوں نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’پہلا بیساکھ‘‘ یعنی بنگالی سال کے پہلے دن کو جو بنگالی تہذیب و ثقافت کا مظہر ہے، بنگال دیوس کے طور پر منانے کی تجویز پاس کر کے ایک بار پھر ’’بنگالی شناخت کی سیاست‘‘ کے ذریعہ ہندو شناخت کی سیاست کا مقابلہ کرنے کا داو کھیلا ہے۔

ہندو شناخت یا پھر بنگلہ شناخت کے درمیان مقابلہ آرائی کے درمیان بنگال کی تہذیب و تمدن اور بنگلہ زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والی مسلم تہذیب و تمدن اجنبی بن گئی ہے۔ بنگلہ شناخت کی سیاست میں اس تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کے آتش رفتہ میں مسلم مخالف جذبات کی چنگاریاں سلگتی ہیں۔ درگا پوجا کے موقع پر سرکاری خزانے کا بے دریغ خرچ بنگال میں کنبھ میلہ کے آغاز کے اقدامات اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں یا ساحلی علاقہ دیگھا میں پوری کے طرز پر مندر کی تعمیر، ریاست بھر میں راکھی تہوار کو یکجہتی کی علامت کے طور پر منانے کا فیصلہ اور سوامی ویویکانند کے یوم پیدائش پر ریاست بھر میں یوتھ دیوس منانے کا فیصلہ دراصل بنگالی ہندو تہذیب و ثقافت کا مظہر ہے۔

مغربی بنگال کے متعلق عمومی تاثر یہ ہے کہ بنگال لبرل، سماجی آہنگی اور تہذیب وثقافت کا مرکز ہے اور یہاں ہندو قوم پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جبکہ نو آبادیاتی دور میں ہی بنگالی ہندو قوم پرستی، اسلاموفوبیا، مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے اور مسلم حکمرانوں کو ظالم و جابر کے طور پر پیش کرنے کا آغاز ہوگیا تھا۔ وزیرا علیٰ ممتا بنرجی کی شناخت سیکولر اقدار کی حامل، اقلیت نواز، ریاست میں گائے کے تحفظ اور لو جہاد کے نام پر ہجومی تشدد کے واقعات پر روک لگانے والی لیڈر کے طور پر ہے۔ مگر اس کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہے کہ بنگال میں مسلمانوں کو تعصب اور ادارہ جاتی نفرت کا سامنا نہیں ہے۔ اسی سال مدھیامک امتحان میں پوزیشن حاصل کرنے والے مسلم طالب کو صرف مسلم شناخت کی وجہ سے ٹرول کیا گیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے اس پر خصوصی توجہ کی جا رہی ہے۔ سیٹھ آنندرم کے جے پوریہ کالج کولکاتا میں بنگالی کے اسسٹنٹ پروفیسر مصنف ارنب ساہا اس واقعے پر رد عمل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’2014 کے بعد ہندتوادیوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے بعد ہی مغربی بنگال کے ہندو معاشرے کا پوشیدہ اسلاموفوبیا اب عوامی سطح پر سامنے آچکا ہے۔ اب اسلاموفوبک تبصرے کرنے میں شرمندگی اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی ہے۔ مغربی بنگال میں آزادی کے بعد سے لے کر 2014 تک ایسا نہیں تھا۔ ہندو اشرافیہ میں 19ویں صدی سے ہی مسلم مخالف جذبات تھے مگر وہ ظاہر نہیں تھے اور یہ ان تک ہی محدود تھا مگر اب یہ ہندو معاشرے کے دیگر طبقات، درمیانی ذات اور یہاں تک کہ نچلی ذاتوں تک بھی پھیل گیا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں مایوسی، نا امیدی اور غربت کے لیے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کے جذبات ہیں، تاہم سماج کے دوسرے طبقات جن میں کڑمی مہاتو اور جنوبی مغربی بنگال کے قبائل جن کا ماضی میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا، وہ بھی اپنی بد حالیوں کے لیے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار سمجھتے ہیں‘‘۔

کولکاتا ہندوستان میں برطانوی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ انگریزی تعلیم یافتہ بنگالی ہندو اشرافیہ کو عام طور پر بھدرلوک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پہلے ایسے ہندوستانی معاشرہ کی تشکیل ہوئی جو ان یورپی ماہرین کی تحریروں سے متاثر ہوا۔ ان تحریروں سے متاثر ہو کر 19ویں صدی کے وسط میں بنگال میں ہندو قوم پرستی کا فروغ ہوا۔ اس کی وجہ سے ان میں برتری کے جذبات و احساسات گہرے ہوئے۔ اس دور میں بنگالی ادبی کے منظر نامہ پر بنکم چندر چٹوپادھیائے، راج نارائن بوس اور چندر ناتھ باسو کا عروج ہوا۔ ان کے ادب سے ہندو احیا پسندی صاف جھلکتی تھی۔ جیوتیریندر ناتھ ٹیگور، سرت چندر چٹوپادھیائے، ابنیندر ناتھ ٹیگور اور یہاں تک کہ رابندر ناتھ ٹیگور جیسے ترقی پسند لبرل ادیبوں کے ادب سے بھی ہندو احیا پسندی جھلکتی تھی۔ بنکم اور تینوں ٹیگوروں کی نظموں، افسانوں اور گیتوں میں مسلم حکمرانوں کے مقابلے میں راجپوت، سکھ اور مرہٹوں کی بہادری کے داستانیں ملیں گی۔ تاہم 1906 کے بعد رابندر ناتھ ٹیگور کے ادبی رجحان میں تبدیلی آئی اور انہوں نے قوم پرستی کے خلاف کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا۔
بنگالی ہندو اشرافیہ میں اسلاموفوبیا یا پھر مسلم مخالف جذبات چند سالوں میں پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ کئی صدیوں قبل بھی یہ جذبات موجود تھے۔ 16ویں صدی میں تصنیف بنگالی ادب کی مشہور کتاب چیتنیا چریتا مریتا میں مسلم مخالف جذبات باتیں متعدد مقام پر مل جاتی ہیں۔ بنگلہ ادب کے ماہرین بتاتے ہیں کہ 19ویں صدی میں بنگلہ ادب میں مسلم جذبات کھل کر سامنے آنے لگے۔نو آبادیاتی دور میں بنگالی بھدرلوک غالب سماجی قوت بن کر ابھرے۔

حال ہی میں شائع ہونے والی بنگلہ کتاب ’’ٹوڈر ٹوباری: بھدرابیٹر اسلامو فوبیا‘‘ (ٹاڈ کی تلوار: بھدرلوک کا اسلامو فوبیا اور راجپوت کی بہادری کے لیے ان کی تلاش) کے شریک مصنف بسویندو نندا کہتے ہیں کہ بنگالی معاشرے نے روایتی طور پر تنوع اور رواداری کو قبول کیا ہے لیکن فرقہ وارانہ نفرت کے ادوار رہے ہیں۔ 1920-1940 کی دہائی کی واضح فرقہ وارانہ کشیدگی جو تقسیم کا باعث بنی آزادی کے محض ایک دہائی بعد ہی مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں نمایاں کمی آئی خاص طور پر بنگال کے سیاسی منظر نامے پر بائیں بازو کے عروج اور حقوق پر مبنی سیاسی تحریکوں نے فرقہ واریت کی چنگاری کو سرخ قالین کے نیچے دبا دیا۔ عوامی طور پر فرقہ وارانہ نفرت کے اظہار کے واقعات میں کمی آگئی۔ تاہم 2014 کے بعد قومی سیاست اور دیگر ریاستوں میں رونما ہونے والے واقعات کے اثرات یہاں بھی نظر آنے لگے۔ بنگال کی تاریخ روشن رہی ہے اس لیے ہمیں امید ہے کہ موجودہ مرحلہ گزر جانے والا ہے اور بنگال پھر سے اپنی جامع نوعیت اور رواداری کے لیے پھر سے مشہور ہوجائے گا۔1920 سے 1940 کے دوران فرقہ وارانہ تنازعات اور فرقہ وارانہ خطوط پر بنگال کی تقسیم کے باوجود، فرقہ وارانہ پس منظر رکھنے والی سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتیں بنگال کی سیاسی منظر نامے میں غیر اہم ہو گئیں ۔بھارتیہ جن سنگھ، ہندو مہاسبھا اور نہ ہی مسلم سیاسی تنظیم مسلم لیگ بنگال میں اپنا وجود برقرار رکھ سکی۔

غیر قانونی دراندازی کا مسئلہ آسام کی سیاست میں بہت بڑا موضوع رہا ہے مگر بنگال کی سیاست میں یہ کوئی بڑا موضوع نہیں رہا۔ کبھی کبھی دراندازی کا مسئلہ سننے میں آتا تھا مگر کبھی بھی اس پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران وزارت عظمی کے امیدوار کی حیثیت سے نریندر مودی نے دراندازی کے سوال کو پوری قوت کے ساتھ اٹھایا اور این ار سی اور سی اے اے کے نفاذ کا وعدہ کیا۔ ممتا بنرجی کو دراندازی کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’آپ (بنرجی) بہار اور اڑیسہ سے آنے والوں کو اجنبی سمجھتی ہیں لیکن جب بنگلہ دیشی آتے ہیں تو آپ کا چہرہ چمک اٹھتا، جیسے آپ کی کوئی سات نسلوں کے رشتہ دار آئے ہوں۔ اس بیان کے محض ایک ہفتے بعد ہی ایک بار پھر بنگال میں سیاسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے گزشتہ بیان کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیشی جو ’’بھارت ماتا سے محبت کرتے ہیں اور درگاشٹمی مناتے ہیں وہ بھارت ماتا کے سچے فرزند ہیں اور برابر کے حقدار ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی سے مسلم ووٹ بینک، دراندازی، بنگال میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ جیسے ایشوز حاوی رہے ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے یا مسلمانوں کے نام پرپولرائزیشن کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ کانگریس، سی پی آئی ایم اور اب ترنمول کانگریس کی حکومتوں پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کے الزام لگتے رہے ہیں۔ جبکہ سچر کمیٹی اور دیگر رپورٹیں مسلمانوں کی بدحالی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ پولیٹیکل سائنس داں نوین مرشد نے اپنی حالیہ کتاب ’’انڈیاز بنگلہ دیش پرابلم دی مارجنلائزیشن آف بنگالی مسلمس ان نیو لبرل ٹائمز (India’s Bangladesh Problem:The Marginalization of Bengali Muslims In Neoliberal Times) میں لکھا ہے ’’انہوں نے 2018 میں مغربی بنگال میں

41 فرموں کا سروے کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ روزگار میں نسلی اہمیت کس حد تک ہے، جس میں زرعی اور صنعتی مینوفیکچرنگ سے لے کر آئی ٹی اور بینکنگ شعبے شامل ہیں۔ اکتالیس میں سے صرف چھ فرموں نے بتایا کہ ان کے اعلیٰ ہنر مند کارکنوں میں مسلمان بھی ہیں۔ مجموعی طور پر 90 فیصد اعلیٰ ہنر مند کارکنان مرد، ہندو، انگریزی بولنے والے اور کولکاتا سے تھے، جبکہ کم ہنر مند کارکنوں میں مردوں اور عورتوں کا تناسب مساوی ہے اور زیادہ تر دیہی علاقوں کے تھے اور مسلمان تھے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی اور ثقافتی زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں پر شہری متوسط طبقے پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا تسلط ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین