Thursday, November 21, 2024
homeمجھے ہے حکم آذاںاتر پردیش اور گجرات کے بعد مغربی بنگال آر ایس ایس کی...

اتر پردیش اور گجرات کے بعد مغربی بنگال آر ایس ایس کی نئی تجربہ گاہ؟

آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم فرینڈ آف ٹرائبل سوسائٹی کے تحت چلنے والے ’’ایکلا اسکول‘‘ نے مغربی بنگال میں آر ایس ایس کو مقبولیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مشہور صحافی اور حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’مشن آف بنگال‘‘ کے مصنف سنگدھیڈو بھٹاچاریہ نے How one-teacher Ekal schools helped the spread of Hindutva in rural West Bengal کے عنوان سے ایک مضمون میں’’ایکلا اسکول‘‘ کے طریقے کار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان بھر کے قبائلی علاقے میں کل ۸۵,۰۰۰ اسکول چل رہے ہیں جس میں صرف مغربی بنگال میں ۴,۶۰۰ اسکول ہیں اور اس میں زیادہ تر اسکول مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع شمالی دیناج پور، مالدہ اور مرشدآباد میں ہیں۔ مالدہ ضلع میں ۲۵۰ اسکول ہیں اور حبیب پور بلاک جہاں قبائلیوں کی اکثریت وہاں ۹۰ اسکول ہیں۔

بھٹاچاریہ نے اپنے اس مضمون میں واضح کیا کہ ان اسکولوں میں تعلیم سے زیادہ مذہبی نعرے، مذہبی گیت، ہندوستان میں مزعومہ برتری، رام مندر اور دیگر متنازع ایشوز پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس علاوہ ایکلا ابھیان کے تحت کوچنگ کلاسیس بھی چلائی جاتی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس وقت ۴,۴۴۰ کوچنگ کلاسیس مغربی بنگال بھر میں چل رہے ہیں۔ اس مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ جن علاقوں میں یہ اسکول چل رہے ہیں وہاں بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات کے دوران برتری حاصل کی ہے۔


مشہور صحافی سوہنی چٹو پادھیائے نے مغربی بنگال میں ’’ون واشی کلیان آشرم‘‘ کے تحت چلنے والے اسکولوں، ہوسٹل کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون Inside a Hindutva hostel:how RSS is rewiring the tribal mind میں ون واشی کلیان آشرم کے تحت چلنے والے اسکولوں کے نصاب اور ہاسٹل کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے۔ سوہنی چٹوپادھیائے مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع کے مولا پور میں واقع کلیان واشی کے ہوسٹل میں جاکر طلبا و طالبات سے بات چیت کر کے ان کی تعلیمی لیاقت کا جائزہ لیا ہے۔

۱۹۵۲ میں قائم ہونے والا ون واشی کلیان آشرم اس وقت ملک کی کئی ریاستوں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، جھار کھنڈ ،اڑیسہ اور مغربی بنگال میں سرگرم ہے۔ ساہنی کے مضمون کے مطابق اس وقت ۱۷,۸۰۸ اسکول ملک بھر میں آشرم کے تحت چل رہے ہیں۔

وہیں انسانی حقوق کی تنظیم پیوپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) کی ایک رپورٹ کے مطابق آشرم قبائلی علاقے میں بھرتی کیلئے کام کرتی ہے۔ پیوپلز یونین فار سول لبرٹیز کے مطابق آشرم کی کوشش ہے کہ قبائلی اپنی فطرت کی پوجا کی ثقافت اور روایات سے محروم ہوجائیں اور اپنی شناخت چھوڑ کر صرف ہندو ہونے کا دعویٰ کریں۔ سوامی اسیمانند جو سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں ملوث رہے ہیں اور کئی سالوں تک جیل میں رہے ہیں اور ان پر ۱۹۹۸ میں گجرات میں دانگہ ضلع میں عیسائی مشنریوں پر حملہ میں بھی ملوث رہنے کا الزام ہے۔ وہ اسی آرگنائزیشن سے وابستہ تھے۔

سوہنی لکھتی ہیں کہ بیربھوم ضلع کے مولا پور کے ہاسٹل جس میں زیادہ تر سنتھائلی قبائلی بچے پڑھتے ہیں، میں مسلم مخالف رجحانا ت کو دیکھ کر وہ حیران ہو گئی کہ کیسے معصوم بچوں کے ذہن و دماغوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھر دیا گیا ہے۔ ویسے تو ون واشی کلیان آشرم ۱۹۷۸ سے ہی بنگال میں چل رہا ہے۔ ہاسٹل ایک ضلع میں وی کے اے ماحولیات کے نوڈل پوائنٹس کے طور پر کام کرتے ہیں، جو شیشو شکشا سدنوں (نرسریوں) اور نائٹ اسکولوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ پورے بنگال میں ۱۴ ہاسٹل ہیں۔ ۱۱ لڑکوں کے لیے اور تین لڑکیوں کے لیے۔ ان میں سے ۱۲ کو ۱۹۷۸ سے ۱۹۹۲ کے درمیان قائم کیا گیا ہے۔ تاہم، پچھلے پانچ سالوں میں ان کی تعداد بڑی تیز رفتاری سے بڑھی ہے ۔ پوروانچل کلیان آشرم کے سکریٹری شنکر لال اگروال نے مجھے وسطی کلکتہ میں اپنے الیکٹرانک کے سامان کی دوکان پر اطمینان کے ساتھ بتایا کہ ’’اس سے قبل ہمیں قبائلیوں کو راضی کرنا پڑا کہ وہ اپنے بچوں کو ہمارے پاس بھیجیں۔ فی ہاسٹل بمشکل ۱۵ تا ۲۰ طلبا تھے۔ اب بہت سارے خواہش مند ہیں، انہیں داخلہ کے امتحانات دینے پڑتے ہیں۔

انگریز ی اخبار ٹائمز آف انڈیا کیلئے ایک دہائی سے رپورٹنگ کرنے والے’ سومسوار بورال‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سنتھالیوں میں تعلیم کے حصول کا رجحان دراصل یو پی اے حکومت کے منریگا اسکیم کا نتیجہ ہے مجموعی طور پر پیسہ کی وسیع پیمانے پر گردش ہو رہی ہے اور سنتھالیوں نے بھی جو معاشرے کے غریب ترین لوگوں میں سے ہیں خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ان میں تعلیم کے حصول کا رجحان پیدا ہوا۔ مگر ان کے علاقوں میں تعلیمی اداروں کی قلت کا فائدہ ارون واشی کلیان آشرم جیسے ادارے اٹھا رہے ہیں۔

سوہنی کہتی ہیں کہ ہاسٹل میں بچوں کو پڑھائے جارہے نصاب کا جائزہ لینے اور بچوں سے ملاقات اور بات چیت کے بعد جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے یہ اسکول تعلیم کے فروغ سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے تئیں نوجوانوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے ہیں۔ ان کے مطابق ان قبائلیوں اور شیڈول کاسٹ کے نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھار کر بڑے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ملک بھر میں جہاں بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں وہاں مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں یہ قبائلی اور دلت نوجوان آگے آگے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہندو دائیں بازو کی تنظیموں نے ان دلتوں اور قبائلیوں کو تعلیم کے نام پر ان کے ذہن و دماغ کو آلودہ اور مسلمانوں کے تئیں نفرت سے اس قدر بھر دیا ہے کہ وہ مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کا پورا کاروبار جھوٹ، فریب اور مکر پر منحصر ہے۔ جب مقاصد ہی منفی ہوں تو پھر خیر کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ آر ایس ایس یہ جانتی ہے کہ رام کرشن مشن ایک عظیم ادارہ ہے۔ بنگال کے عوام کے دلوں میں اس کا مقام ہے۔ چنانچہ اپنے اسکول ودیا بھارتی اور شیشو مندر اسکولوں سے متعلق یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اسکول رام کرشن مندر کے تحت چلتے ہیں۔ اپنے اسکولوں کی عمارت کی تعمیر بھی رام کرشن مشن کی عمارتوں کے طرز پر کرتے ہیں۔ اپنے اسکولوں میں وقتاً فوقتاً رام کرشن مشن کے راہبوں کو مدعو کرتے ہیں۔ رام کرشن مشن کا سیاسی استعمال وزیر اعظم نریندر مودی بھی کر چکے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں کلکتہ دورے کے دوران وزیر اعظم مودی نے رام کرشن مشن میں شہریت ترمیمی ایکٹ سے متعلق بیان دیا بعد میں رام کرشن مشن نے وزیر اعظم کے اس بیان سے کنارہ کشی اختیار کی۔

ایک طرف آر ایس ایس منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کی گھیرا بندی اور بنیادی مقاصد کی تکمیل کر رہی ہے تو دوسری طرف بنگال کے مسلمان ہیں جو ان خطرات سے بے پرواہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں صحیح صورت حال کا اندازہ نہیں ہے کہ اگر بنگال میں اقتدار حاصل کرنے میں بی جے پی کامیاب ہو گئی تو ریاست کے مسلم اکثریتی اضلاع ان کے نشانے پر ہوں گے۔

دہشت گردی، گائے اسمگلنگ اور دراندازی کے جھوٹے الزامات میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوں گی اور دوسری طرف گجرات سے کہیں زیادہ بھیانک فرقہ وارانہ فسادات کے رونما ہونے کا خطرہ رہے گا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کیلئے دلتوں اور قبائلی نوجوانوں کے دل و دماغ کو تعلیمی ادارے کے ذریعہ مسموم کر دیا گیا ہے۔گجرات اور اتر پردیش کے بعد مغربی بنگال ہی ہندوتو طاقتوں کیلئے نئی تجربہ گاہ بن سکتا ہے مگر مسلم لیڈر شپ ان خطرات سے بے خبر کلکتہ میں بیٹھ کر مسلم-دلت اتحاد کے نعرے لگا رہی ہے اور آر ایس ایس گاوں اور دیہاتوں میں ایک نئی کہانی لکھنے میں مصروف ہے۔

(نوراللہ جاوید کی کتاب ’بنگال کے مسلمان‘ سے ماخوذ)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 11 اپریل تا 17 اپریل 2021

متعلقہ خبریں

تازہ ترین