مغربی بنگال حکومت نے اپنی نئی تعلیمی پالیسی جاری کردی ہے۔اس میں ایک راحت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف جہاں بنگلہ ز با ن کو لازمی کیا گیا ہے وہیں پہلی ز بان کے طور پر اردو سمیت دیگر ز بانوں کو بھی پڑھنے کے اختیارات دئیے گئے ہیں ۔آج حکومت نے ریاست کےلئے نئی تعلیمی پالیسی کا باضابطہ نوٹی فیکشن جاری کردیا ہے۔ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیم کی ویب سائٹ پر178صفحات پرمشتمل دستاویز کو آج لوڈ کیا گیا ہے۔یہ تعلیمی پالیسی 2035تک نافذ العمل رہے گا۔دراصل مغربی بنگال حکومت اول دن سے ہی قومی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کرتی رہی ہے اور اپنی تعلیمی پالیسی بنانے کا اعلان کیا تھا۔حکومت نے اس کیلئے ریاست کے ماہرین تعلیم پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔
اسکولوں میں بنگلہ لازمی کرنے کو لے کر قیاس آرئیوں کا بازار گرم تھا۔سوال کھڑے کئے جارہے تھے کہ حکومت غیر بنگالی بچوں پر بنگلہ تھوپنے کی کوشش کررہی ہے۔تاہم حکومت اس نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ مطلع صاف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بنگلہ لازمی ہوگا مگر پہلی ز بان کے طور پر لازمی نہیں ہے۔اردو ، نیپالی ، ہندی اور دیگر زبان بولنے والے اپنی مادری ز بان کو پہلی ز بان کے طور پر پسند کرسکتے ہیں ۔بنگلہ اور انگریزی کو دوسری اور تیسری زبان کے طور پر اختیار کرنا لازمی ہوگا۔
وزیر تعلیم برتیہ باسو نے آج واضح کیا ہے کہ ریاست کے تمام طلبا کو بنگلہ زبان پڑھنا لازمی ہے ۔ لیکن پہلی زبان کے طور پراختیار کرنا لازمی نہیں ہوگا۔ طلباء اپنی پسند کی پہلی زبان کا انتخاب اپنی مادری ز بان کے طور پر کرسکتے ہیں ۔ کلکتہ میں کوئی بھی طالب علم اگر چاہے تو بنگالی کو اپنی پہلی زبان کے طور پر لے سکتا ہے۔ دارجلنگ میں کوئی بھی نیپالی کو پہلی زبان کے طور پر لے سکتا ہے۔
ریاستی تعلیمی پالیسی میں بنگالی زبان کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ تعلیمی پالیسی کے مطابق طلباء کو بنگالی اور انگریزی پڑھنا لازمی ہوگا ۔وزیر تعلیم نے کہا کہ اگر کوئی کلکتہ میں بنگلہ کو اپنی پہلی زبان کے طور پر لینا چاہتا ہے تو وہ لے سکتا ہے۔ اگر کوئی دارجلنگ میں نیپالی کو پہلی زبان لینا چاہتا ہے تو وہ لے سکتا ہے۔ اور اگر کوئی اردو، الچیکی یا راجونشی کو پہلی زبان کے طور پر منتخب کرناچاہتا ہے تو وہ ایسا بھی کر سکتا ہے۔ جہاں تک دوسری یا تیسری زبان کا تعلق ہے، اس کا انحصار مقامی آبادی کے اعتبار سے ہوگا کہ وہ کون سی زبان اختیار کریں گے۔
نئی پالیسی میں ایک سالہ پری پرائمری کلاس اور چار سالہ پرائمری کلاس ہوگا ہے۔ اس کے بعد پانچویں سے آٹھویں جماعت تک اپر پرائمری ہوگاہے۔ 9ویں-10ویں جماعت کے اختتام پر سیکنڈری امتحان ہوگا ۔ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کونسل گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات میں سمسٹر سسٹم متعارف کرانے جا رہی ہے۔ تعلیمی سال 2024 میں 11ویں جماعت میں داخل ہونے والے تمام طلباء اس اصول کے تحت آئیں گے۔ پہلا نتیجہ 2026 میں سمسٹر سسٹم کی تشخیص کی بنیاد پر اعلان کیا جائے گا۔ بارہویں جماعت کے پہلے سمسٹر میں، جو نومبر میں منعقد ہوگا، پارلیمنٹ MCQs کے ذریعے تشخیص کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
تمام طلباء کے لیے ایک منفرد شناختی کارڈ بناکردیا جائے گا۔ اس کارڈ کے ساتھ میموری چپ ہوگی۔ یہ کلاس III سے 12ویں جماعت کے طلباء کے امتحانی نتائج کو ریکارڈ کرے گا۔ ریاست کی تعلیمی پالیسی کے مطابق جس طرح ڈاکٹروں کے لیے گاؤں میں علاج کے لیے جانا لازمی ہے، اسی طرح اساتذہ کو بھی دیہی علاقوں میں پڑھانا لازمای ہوگا ۔ حکومت اساتذہ کی تقرری کے وقت اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔ حکومت اساتذہ کے پروموشن میں بھی اس بات کا خیل رکھا جائے گا ہے۔ ترنمول کانگریس حکومت شروع سے ہی مرکزی حکومت کی نئی قومی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کر تی رہی ۔ ریاستی وزیر تعلیم نے قومی تعلیمی پالیسی کو تغلقی فرمان قرار دیا تھا۔ تاہم ریاستی حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی کی کچھ تجاویز کو قبول کیا ہے۔ ریاست میں چار سالہ انڈرگریجویٹ کورس پہلے ہی متعارف کرایا جا چکا ہے۔