Thursday, November 21, 2024
homeاہم خبریںبلڈوزر پر سپریم کورٹ کا فیصلہ۔۔مگر لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے!

بلڈوزر پر سپریم کورٹ کا فیصلہ۔۔مگر لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے!

نوراللہ جاوید
حالیہ برسوں میں عدالتی نظام سے متعلق بہت کچھ لکھا جارہاہے، عدالتوں کے طریقے کار، مقدمات کی سماعت میں تاخیر ، مختلف ہائی کورٹوں کے ججوں کے ماوارائے قانون تبصرے، ہندتوا کی طرف واضح جھکاؤ، مدت ملازمت ختم ہونے کے فوری بعد بی جے پی میں شمولیت جیسے واقعات نے عدالتی نظام پر عوام میں مایوسی کے بادل کو گہرا کر دیا ہے۔ سیکڑوں افراد جیلوں میں اس لیے بند ہیں کہ انہوں نے حکم رانوں پر سوالات اٹھائے تھے۔ لیبرٹی کی وکالت کرنے والی عدالتوں میں، برسوں گزر گئے ان نوجوانوں کے مقدمات کی سماعت شروع نہیں ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اپنے آخری فیصلوں میں اور ان کے جانے کے بعدجسٹس گوائی اور جسٹس وشواناتھن نے ماورائے عدالت ایگزیکٹیوں کے ذریعہ گھروں کی مسماری پر جو فیصلہ سنایا ہےاس نے مایوسی کے درمیان امیدوں کا چراغ روشن کیا ہے۔آسام میں آرٹیکل 6Aکے آئینی جواز، یوپی مدرسہ ایکٹ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ کے مثبت فیصلے کے بعد اب نام نہاد بلڈوزر جسٹس پر جو فیصلہ سنایا ہے اس نے عدالت پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ اگرچہ مذکورہ تمام معاملات میں عدالتوں نے جو فیصلے سنائے ہیں ان میں بہت سی ایسی کڑیاں چھوٹ گئی ہیں جس کی وجہ سے مکمل انصاف کی راہ ہموار نہیں ہوسکی ہے۔بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معاملے میں آدھا ادھورا فیصلہ سامنے آیا ہے۔اقلیتی کردار کے تعین کے لیے مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ اس وقت مذکورہ تمام مقدمات کی کمزور کڑیوں کے ذکر کی گنجائش نہیں ہے تاہم نام نہاد بلڈوزر جسٹس پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے اس کی اگر کمزور کڑی کا ذکر کیا جائے تو وہ گزشتہ سالوں میں نام نہاد بلڈوزر جسٹس کے متاثرین کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہے۔عدالت نے اس پہلو پر غور ہی نہیں کیا کہ ایگزیکٹیو کے ذریعہ خود کو مدعی، خود ہی جج قرار دیے جانے کی وجہ سے ہزاروں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور وہ لوگ جو ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں انہیں انصاف فراہم کرنے کی طرف اس دور رکنی بنچ نے کوئی غور نہیں کیا تاہم متاثرین کے لیے انصاف کے لیے جدو جہد کرنے کی راہ کھلی ہوئی ہے اور سپریم کور ٹ کے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں یہ لڑائی آسان ہوگئی ہے۔مگر اس فیصلے میں کئی ایسے پہلو ہیں جو قابل ذکر ہیں مگر ایک چیز جس کی بازیافت ہوئی وہ یہ ہے کہ عدلیہ نے واضح کردیا ہے کہ وہ ایگزیکٹیوز پر لگام کسنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور عاملہ جب بھی اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرے گی تو عدلیہ یہ یاد دلائے گی کہ عدلیہ کا کام عدالتیں ہی کرسکتی ہیں۔عاملہ اور سیاست داں عدلیہ کو نظر انداز کرکے خود کو عدالت نہیں بنا سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر حکومت شہریوں کے گھروں کو صرف اس بنیاد پر مسمار کرتی ہے کہ ان پر جرم کا الزام ہے، تو یہ قانون کی حکم رانی کے اصولوں کے خلاف ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے کتنے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑائی ہے اور کتنے سوالوں کو جنم دیا ہے اس کا اندازہ نام نہاد بلڈوزر جسٹس کی سنگینی اور اس کے قہر سامانیوں کا علم ہونے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ بلڈوزر نے حالیہ برسوں میں جو قہر برپا کیا ہے اس کا اندازہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2024کی رپورٹ اور ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کی تازہ رپورٹ کے مطالعے سے ہوتا ہے۔

ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک (HLRN) کے 2024 کے تخمینے کے مطابق مقامی، ریاستی اور مرکزی سطح پر انتظامیہ نے 2022 اور 2023 میں 1,53,820 گھروں کو مسمار کیا ہے۔اس کے نتیجے میں 7,38,438 سے زائد افراد جبراً بے دخل کیے گئے ہیں ۔ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کی رپورٹ کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں 2017 سے 2023کے درمیان بلڈوزر جسٹس سے 1.68ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نام نہاد بلڈوزر جسٹس کے قہر نے سال بہ سال اپنے قہر سامانیوں میں اضافہ کیا ہے۔2019 میں1 ,07,625، 2022 میں 2,22,686اور 2023 میں 5,15,752افراد متاثر ہوئے ہیں ۔ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2017 سے 2023 کے درمیان59 فیصد بے دخلیاں کچی آبادیوں یا زمین کی بے دخلی ، تجاوزات ہٹانے، یا شہر کی خوبصورتی کی آڑ میں کی گئی ہیں۔بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں تعزیری انہدام کے واقعات میں تیزی سےاضافہ ہوا ہے۔انگریزی میگزین دی فرنٹ لائن کی رپورٹ میں انسانی حقوق کے وکیل آکانکشا بڈکور کہتے ہیں کہ
تجاوزات کے خلاف کارروائی میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ گزشتہ چھ سات سالوں میں ہم نے غریبوں کے تئیں حکومت کے سخت اور ظالمانہ رویے میں نمایاں اضافہ دیکھا ہے۔گزشتہ دو سالوں میں 59 فیصد بے دخلیاں کچی آبادیوں یا زمین کی منظوری، تجاوزات ہٹانے یا شہر کی خوبصورتی کے اقدامات کی آڑ میں کی گئی ہیں۔اس کے نتیجے میں 2023 میں کم از کم2 ,90.330افراد جبری بے گھر ہوئے ہیں اور2022میں 1,43,034زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ایک طرف بے دخلی شہر کو خوبصورت، اسمارت سٹی اور آلودگی کے خاتمے کے نام کیا گیا ہے دوسری طرف انہدامی کارروائی کی ایک بڑی وجہ تعزیری اقدامات ہیں جو حکومتوں نے سبق سکھانے کے نام پر کیے ہیں۔بیو پی میں پریاگ راج، سہارنپور؛ ہریانہ میں نوح اور دلی میں جہانگیر پوری میں تعزیری اقدامات کے تحت انہدامی کارروائیوں کے مناظر آج بھی نگاہوں کے سامنے ہیں۔

مثال کے طور پر 20 اپریل 2022 کو ہنومان جینتی کے جلوس کے دوران جھڑپوں کے بعد شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) کے اہلکاروں نے سنٹرل ریزرو پولیس فورسیں (سی آر پی ایف) کی 12 کمپنیوں کے ساتھ تقریباً 25 دکانوں اور گاڑیوں کو مسمار کر دیا۔ نیز، جہانگیر پوری میں بنیادی طور پر مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کیا گیا یہ سب تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں کیا گیا۔ اسی طرح کھرگون میں اپریل 2022 میں رام نومی اور ہنومان جینتی کی تقریبات کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کے بعد پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تعمیر کردہ گھر سمیت مسلمانوں کے 16 مکانات اور 29 دکانوں کو منہدم کر دیا گیا۔فروری2024 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسماری بنیادی طور پر مسلمانوں کی آبادی والےعلاقوں میں کی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سکریٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ رپورٹ میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی جائیدادوں کی غیر قانونی مسماری جسے بلڈوزر جسٹس کہا جاتا ہے، ظالمانہ اور خوفناک ہے۔ اس طرح کی نقل مکانی اور بے دخلی انتہائی غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی اعلیٰ سطحوں پر اکثر انہدام کا آغاز کیا گیا ہے۔ متعدد افسران نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کے استعمال کی وکالت کی ہے۔ ان تعزیری انہداموں کو کئی ریاستوں میں ماورائے عدالت سزا کے طور پر کیا گیا ہے۔

نام نہاد بلڈوزر جسٹس کے متاثرین کا سوشل ایڈٹ میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس خوفناک نام نہاد جسٹس کے متاثرین اقلیت اور ملک کے پسماندہ طبقات ہی سب سے زیادہ ہیں۔ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں ہونے والے 44 فیصد واقعات میں مسلمان سب سے زیادہ متاثرہ ہوئے ہیں۔مسلمانوں کے بعد درج فہرست ذات اورقبائلی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کم از کم 23 فیصد واقعات میں متاثر ہوئے۔اس کے بعد17فیصد دیگر پسماندہ طبقات متاثر ہوئے ہیں۔محض پانچ فیصد متاثرین کا تعلق سماج کے نام نہاد اعلیٰ طبقات سے ہے۔یہ اعداد وشمار کئی سوالات کھڑے کرتے ہیں کہ کیا اس ملک میں غیر قانونی تجاوزات کے مجرم صرف اقلیت، پسماندہ طبقات اور قبائلی ہی ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا غیر قانونی تجاوزات میں نام نہاد اعلیٰ طبقے کے افراد ملوث نہیں ہیں؟-

سپریم کورٹ کے فیصلے کا صحیح تجزیہ کرنے اور آئین و قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا تعین کرنے کے بجائے قومی میڈیا کا ایک بڑا طبقہ عدالت کے اس فیصلے پر ہی سوال کھڑا کر رہا ہے۔ ’’بلڈوزر بابا‘‘ کے طور پر خود کو پیش کیے جانے پر فخر کرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر احتساب اور شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے اس فیصلے کی غلط تعبیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قومی میڈیا کی بے شرمی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مشہور ٹی وی اینکرز سوال پوچھ رہے تھے کہ جب عدالتوں میں حقیقی انصاف ملنے میں تاخیر ہوتی ہے تو بلڈوزر انصاف کا جواز نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر بے شرمی کی بات کیا ہوسکتی ہے۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے ہفتہ واری کالم میں مشہور صحافی تلوین سنگھ میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اس طرح کا سوال کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ جنہوں نے آگے بڑھ کر کہا کہ ’’بلڈوزر بابا‘‘ کے راج میں اتر پردیش میں مجرموں اور مافیاؤں کو کنٹرول کیا گیا ہے، انہیں مزید شرم آنی چاہیے‘‘۔آگے وہ لکھتی ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ نےشہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرے کرنے والے مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال شروع کیا تو اس وقت اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی مگر یہی وہ وقت تھا جب بلڈوزر ہمیشہ صرف مسلمانوں کے گھروں کو گراتے نظر آتے تھے تب کہیں جاکر یہ حقیقت کھلنے لگی۔

مدھیہ پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ریاستی وزیر داخلہ نے یہ اعلان کر کے ہم پر بہت بڑا احسان کیا کہ ہندو مذہبی جلوس پر پتھراؤ کرنے والوں کے گھروں کو پتھروں سے کم کر دیا جائے گا۔ یہ واحد موقع ہے جب کسی سینئر سیاسی رہنما نے ریکارڈ پر یہ اعتراف کیا کہ بلڈوزر کا استعمال سزا کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔بہتر ہوتا اگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ بھی دیتی کہ بلڈوزر انصاف کے متاثرین کو ان کے گھروں کے نقصان کا ازالہ کیا جائے لیکن کم از کم یہ کہہ کر امید جگائی ہے کہ مستقبل میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ نام نہاد بلڈوزر جسٹس کو کس طرح سیاسی ایشو بنایا گیا وہ لوک سبھا انتخابات کے دوران وزیر اعظم مودی کے اس بیان کو دیکھ لیجیے اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں ایک ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اگر ایس پی اور کانگریس اقتدار میں آتی ہیں، تو رام للا دوبارہ ایک خیمے میں تبدیل ہوجائے گا وہ رام مندر پر بلڈوزر چلائیں گے۔ انہیں یوگی سے ٹیوشن لینا چاہیے، کہاں بلڈوزر چلانا ہے اور کہاں نہیں۔مطلب صاف تھا کہ وہ مسلمانوں کے گھروں کی مسماری کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کےاہم نکات
سپریم کورٹ نے بدھ کوفیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا کہ ماورائے عدالت انہدامی کاروائی غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر کے میونسپلٹی انتظامیہ کے لیے تفصیلی رہنما خطوط بھی جاری کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ کوئی بھی انہدامی کارروائی سے قبل ان کے ذریعہ جاری رہنما خطوط پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔اگر افسران اس فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ کیا جائے گا۔

جسٹس گوائی کے لکھے ہوئے اپنے فیصلے میں بنچ نے کئی قانونی اصولوں اور آئینی تحفظات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اور ایگزیکٹو محض الزام کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دے سکتے ہیں اور سزا کے طور پر اس کی رہائش یا تجارتی املاک کو منہدم نہیں کر سکتے ہیں۔ جسٹس گوائی نے قانون کی حکم رانی کے اصول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک وسیع قانونی اصول ہے جس میں یہ بات شامل ہے کہ کوئی بھی حکومت یا افراد قانون سے بالاتر نہیں ہیں ۔یعنی قانون کے سامنے ہر کوئی برابر ہے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست کومن مانی کرنے کے بجائے قائم شدہ قانونی اصولوں کے تحت چلنا چاہیے۔ جسٹس گوائی نے اختیارات کی علیحدگی کے آئینی اصول کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹیو کا کام جرم کا تعین کرنا یا سزا دینا نہیں ہے یہ تو عدلیہ کا بنیادی کام ہے۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 21 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں واضح طور پر کہا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی زندگی یا ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے قانون کے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مکان کی تعمیر سماجی و اقتصادی خواہشات کا ایک اہم پہلو ہے اور یہ صرف ایک اثاثہ نہیں ہے بلکہ برسوں کی جدوجہد کی علامت ہے اور اس سے وقار کا احساس ہوتا ہے اور اگر یہ حق چھین لیا جاتا ہے تو اتھارٹی کو اس بات کو مطمئن کرنا ہوگا کہ یہ اقدام ناگزیر ہے ۔بنچ نے انہدامی کارروائی کو اجتماعی سزا سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی گھر کو تعزیراتی طور پر مسمارکیا جاتا ہے اور اس گھر میں ایک خاندان کے کئی افراد یا چند خاندان رہتے ہیں، صرف اس بنیاد پر کہ اس گھر میں رہنے والا ایک فرد یا تو ملزم ہے یا جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس بنیاد پر اس کے گھر کو منہدم کردیا جاتا ہے تو یہ پورے خاندان کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہوگا۔بنچ نے اپنے آپ سے سوال کیا: آیا ملزم کی شریک حیات، ان کے بچے اور والدین ایک ہی گھر میں رہتے ہیں یا ایک ہی جائیداد کے شریک مالک ہیں، ان کی جائیداد کو گرا کر سب کو کیسے سزا دی جاسکتی ہے جب کہ وہ کسی جرم میں ملوث بھی نہیں ہیں؟ صرف اس بنیاد پر کہ ان کا تعلق کسی مبینہ ملزم سے ہے؟

تاہم اب سوا ل یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک میں 17 ملین سے زیادہ افراد ایسے ہیں جو اپنے گھروں کو بلڈوز کرنے کے خطرے میں زندگی گزار رہے تھے تو کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بلڈوزر کی قہرسامانیوں کا سلسلہ رک جائے گا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ستمبر میں جب سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے عدالت کی اجازت کے بغیر انہدامی کارروائی پر عبوری روک لگائی تھی تو اس وقت بھی آسام اور گجرات میں مسلمانوں کے مکانات اور مذہبی مقامات کے خلاف انہدامی کارروائی کا سلسلہ نہیں رکا تھا۔ اگرچہ اس وقت انہدامی کارروائی کے لیے عدالت نے کوئی واضح ہدایات جاری نہیں کی تھیں مگر حکومتیں عبوری روک تک کی پاسداری کی زحمت نہیں کرسکیں۔آسام اور گجرات میں انہدامی کارروائی کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔اس لیے سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلہ کے خلاف ہمیں کسی بھی صورت میں مطمئن ہو کر بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ گجرات میں مذہبی مقامات کے خلاف انہدامی کارروائی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ قدیم مسجدوں و خانقاہوں کے کاغذات کوبروقت درست کرلیا جائے اور اگر انہدامی کارروائیاں سپریم کورٹ کے ذریعہ متعین کردہ رہنمااصول و ضوابط کے خلاف ہوتی ہیں تو ہمت ہارنے کے بجائے قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت میں احتجاج و مظاہرے بہت ہی اہم ہیں مگر جو طاقتیں جمہوریت اور عوامی رائے عامہ میں یقین نہیں رکھتیں کیا ان سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں، عوامی مظاہروں اور احتجاج کو خاطر میں لائیں گی؟

متعلقہ خبریں

تازہ ترین