گزشتہ 8 دسمبر کو جب راجیہ سبھا کا اجلاس چل رہا تھا تو شیڈول میں بتایا گیا کہ کھانے کے بعد شروع ہونے والے اجلاس کا وقت 2 بجے ہے۔ یہ معمول کے مطابق نہیں تھا کیونکہ جمعہ کے روز راجیہ سبھا میں جب دوپہر کا اجلاس شروع ہوتا تھا تو اس کے لیے 2.30 بجے کا وقت رکھا جاتا تھا۔ یہ 30 منٹ کا اضافی وقت اس لیے تھا تاکہ راجیہ سبھا کے مسلم اراکین جمعہ کی نماز پڑھ سکیں۔ یعنی 8 دسمبر کو نماز کے لیے ملنے والا 30 منٹ کا اضافی بریک ختم ہو گیا۔ یہ خبر جب پھیلی تو مسلم طبقہ پریشان ہوا کہ ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف قدم اٹھایا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ جمعہ کو جب کچھ راجیہ سبھا اراکین نے بدلا ہوا شیڈول دیکھا تو صبح کے اجلاس میں ایوان بالا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ سے اس سلسلے میں وضاحت بھی طلب کی۔ ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ تروچی شیوا نے راجیہ سبھا میں شیڈول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’روایت یہ ہے کہ جمعہ کو دوپہر کا اجلاس 2.30 بجے بلایا جاتا ہے۔ لیکن آج ترمیم شدہ وَرک شیڈول میں یہ وقت دوپہر 2 بجے رکھا گیا ہے۔ جب اس طرح کا فیصلہ لیا گیا تو اراکین کو اس کی جانکاری نہیں تھی۔ ہم جاننا چاہیں گے کہ ایسی تبدیلی کیوں ہوئی؟‘‘ اس پر چیئرمین نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے گزشتہ اجلاس کے دوران ہی اس وقت میں تبدیلی کر دی تھی، اور ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ لوک سبھا میں دوپہر کا اجلاس 2 بجے سے ہی شرعو ہوتا ہے۔
دراصل راجیہ سبھا چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ کا ایوان میں کہنا تھا کہ ’’یہ آج (8 دسمبر) کے لیے نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ میرے ذریعہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے اور اس کی وجہ بتائی گئی تھی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد لوک سبھا دوپہر 2 بجے بیٹھتی ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو پارلیمنٹ کا اٹوٹ حصہ ہونے کے ناطے ممکنہ طور پر ایک ہی وقت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے میری ہدایت کے مطابق اس ایوان میں بھی دوپہر 2 بجے سے کارروائی شروع ہوتی ہے۔ یہ کوئی آج سے شروع نہیں ہوا ہے۔‘‘
جگدیپ دھنکھڑ کی وضاحت کے بعد ڈی ایم کے لیڈر ایم ایم عبداللہ نے کھڑے ہو کر انھیں بتایا کہ کھانے کے بعد کے اجلاس کے لیے دوپہر 2.30 بجے کا وقت اس لیے رکھا گیا تھا تاکہ مسلم اراکین جمعہ کی نماز ادا کر سکیں۔ ان کے بیان پر جواب دیتے ہوئے دھنکھڑ نے کہا کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں میں سماج کے سبھی طبقہ کے اراکین ہیں۔ لوک سبھا دوپہر 2 بجے بیٹھتی ہے اور اس میں ہر طبقہ کے اراکین ہیں۔ اس لیے مناسب صلاح و مشورہ کے بعد ہی میں نے راجیہ سبھا میں اسے نافذ کیا تھا اور ایوان کو مطلع کرا دیا گیا تھا۔
ایسے وقت میں جب انتظامیہ و حکومت کے ہر قدم کو مذہبی چشمہ سے دیکھا جا رہا ہے اور بھائی چارہ ختم ہو رہا ہے، راجیہ سبھا میں نمازِ جمعہ کے لیے مختص 30 منٹ کے بریک کو ختم کیا جانا بھی مسلم طبقہ کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے جو اس طرح کے معاملوں کو بہترین حل تلاش کر سکتے ہیں۔ مثلاً پارلیمنٹ کے قریب موجود مساجد کے امام نمازِ جمعہ کا وقت ایوان کے وقفہ کا خیال رکھتے ہوئے مقرر کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ائمہ نماز میں وقت کی پابندی کا بھی بہت خیال رکھ سکتے ہیں، یعنی نماز کی طوالت سے بچا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی پارلیمانی اجلاس سال بھر تو چلتا نہیں ہے، اور ان میں بھی جمعہ کا دن کم ہی پڑتا ہے۔