غزہ :ایجنسی
عالمی این جی او ایکشن ایڈ کے مطابق غزہ میں خواتین اور لڑکیوں کو غیر معمولی سطح پر تشدد کا سامنا ہے جس کی بنا پر محصور علاقہ خواتین کے لیے اس وقت دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
امدادی گروپ نے العربیہ کو ایک بیان میں کہا کہ غزہ میں ہر گھنٹے میں تین سے زیادہ خواتین جاں بحق ہو جاتی ہیں۔
ایکشن ایڈ کے مطابق غزہ میں خواتین اور لڑکیاں خوفناک شرح سے جاں بحق اور زخمی ہو رہی ہیں، خوراک، پانی اور صحت کی نگہداشت کے بنیادی حقوق سے روزانہ انکار کیا جا رہا ہے جبکہ خوف و دہشت میں دو ماہ کی زندگی گذارنے کے بعد وہ بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ اور صدمے سے گذر رہی ہیں۔
ایکشن ایڈ فلسطین کی ایڈوکیسی اینڈ کمیونیکیشن کوآرڈینیٹر ریحام جعفری نے بیان میں کہا، “غزہ اس وقت عورت یا لڑکی کے لیے دنیا کی خطرناک ترین جگہ ہے۔ اس تشدد میں بے مقصد جاں بحق ہونے والی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد ہر گھنٹے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔”
“دریں اثناء اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کا ہر دن گویا ایک مایوس کن جدوجہد ہے۔”
علاقے کے ڈاکٹروں نے تنظیم کو بتایا ہر 60 منٹ میں کم از کم دو مائیں جبکہ محصور انکلیو میں ہر دو گھنٹے میں سات خواتین جاں بحق ہو جاتی ہیں۔
حماس کے مزاحمت کاروں کی 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں دراندازی کے بعد اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا جس میں اب تک 5000 سے زائد خواتین جاں بحق ہو چکی ہیں۔
اس تنازعے میں 17,500 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سے تقریباً 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔
جنگ کے دوران حمل اور مشقت
این جی او نے کہا کہ غزہ میں تقریباً 50,000 خواتین حاملہ ہیں۔
جلد ماں بننے والی تقریباً 180 خواتین روزانہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مناسب طبی نگہداشت کے بغیر پیدائش کے عمل سے گذرتی ہیں جن کو جراثیم کش، بے ہوشی کی یا درد کش ادویات کے بغیر سیزیرین اور ہنگامی آپریشن کروانا پڑتا ہے۔
شمالی غزہ کے العودہ ہسپتال کی ایک دائی نے ایکشن ایڈ کو بتایا کہ اسرائیلی بمباری کے دوران درجنوں حاملہ فلسطینی خواتین کو دردِ زہ ہو گیا ہے۔
اسرائیلی حملوں کے دوران اپنے گھر سے بھاگ جانے والی ایک فلسطینی خاتون ایک بچے کو دودھ پلا رہی ہے جب وہ 18 اکتوبر 2023 کو جنوبی غزہ کی پٹی کے خان یونس میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام ایک مرکز میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ (فائل فوٹو: رائٹرز)
تنظیم نے ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کے حوالے سے بتایا، “غزہ پر اسرائیلی [حملوں] کے دوران ہم نے حاملہ خواتین کے کئی کیسز دیکھے جو حملوں کے تشدد سے بچ گئیں۔”
“ایک عورت کے گھر پر بمباری کی گئی تھی اور [اسے] ملبے کے نیچے سے بچا لیا گیا تھا۔ وہ اپنے پورے جسم پر کئی جگہ فریکچر کے ساتھ ہسپتال پہنچی۔ اس کے بچے کی بھی پیدائش قریب تھی اس لیے اسے آپریٹنگ روم میں لے جایا گیا۔ شکر ہے وہ اور اس کا بچہ دونوں بچ گئے اور اب خیریت سے ہیں۔ [لیکن] اس عورت کا بچے کی پیدائش کے لیے محفوظ جگہ کا حق چھن گیا۔ اس نے اپنے اور اپنے بچے دونوں کی بنیادی ضروریات تک رسائی کا حق بھی کھو دیا۔”
بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی
ایکشن ایڈ کے مطابق اسرائیل کی غزہ کی پٹی میں جارحیت کو وسیع کرنے کے بعد کم از کم 800,000 خواتین اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکی ہیں۔
جعفری نے بیان میں العربیہ کو بتایا کہ کئی خواتین اب انتہائی پرہجوم سہولیات میں رہ رہی ہیں – جن میں سے زیادہ تر میں ہر 700 افراد کے لیے غسل کی ایک جگہ اور ہر 150 افراد کے لیے ایک بیت الخلاء ہے۔
6 دسمبر 2023 کو جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح کے کیمپ میں ایک خاتون باہر بچوں کے ساتھ بیٹھی ہے۔ (رائٹرز)
ان کے دھونے کے لیے پانی بہت کم ہے یا بالکل نہیں، کوئی پردہ داری نہیں، ان کے لیے خود کو صاف رکھنے کے لیے کوئی صابن نہیں ہے اور نہ ہی سینیٹری مصنوعات ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کے مطابق غزہ کے 2.3 ملین باشندوں میں سے 80 فیصد سے زیادہ اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کے پاس محفوظ پناہ گاہ کے لیے آپشن بہت کم باقی بچا ہے یا بالکل نہیں۔
انسانی امدادی کارکن اور ماں آیا نے ایکشن ایڈ کو بتایا: “ایک عورت کے طور پر میں تکلیف میں ہوں۔ مجھے زندگی کی بنیادی ضروریات تک رسائی نہیں ہے۔ پانی نہیں ہے۔ میں نے اپنے مخصوص ایام کے دوران تکلیف اٹھائی۔ میرے پاس اس دوران صاف ہونے اور دھونے کے لیے پانی دستیاب نہیں تھا۔ میرے پاس پورے مخصوص ایام کے دوران اپنی ضروریات کے لیے سینیٹری پیڈ نہیں تھے۔
نفسیاتی نقصان
ایکشن ایڈ کے مطابق گذشتہ دو مہینوں میں غزہ میں خواتین اور لڑکیوں نے “موت اور تباہی کے ناقابلِ تصور مناظر” کا مشاہدہ کیا ہے۔
این جی او نے مزید کہا کہ بحران نے ان کو شدید نفسیاتی نقصان پہنچایا ہے۔
اسرائیلی فضائی حملے میں زخمی ہونے والے بچوں کا ردِعمل جو 17 اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے خان یونس کے ناصر ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ (اے ایف پی)
کوئی بھی جگہ محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے اس خوف سے نجات کا کوئی راستہ نہیں کہ کیا وہ اور ان کے اہل خانہ ایک اور دن دیکھنے کے لیے زندہ رہیں گے۔
جنوبی غزہ میں بے گھر ہو جانے والی ایک ماں اور انسانی امدادی کارکن یارا نے ایکشن ایڈ کو بتایا۔ “آج مجھے مزید امید نہیں ہے۔ میں پہلے سے زیادہ خوفزدہ ہو گئی ہوں۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ یہ خوف و دہشت مزید بڑھ جاتی ہے۔ میری بحیثیت ماں صرف دو خواہشات ہیں۔ پہلی یہ کہ میں اپنے بچوں سے پہلے مر جاؤں۔ میں ان کو اپنے سامنے مرتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ دوسری یہ کہ میں جلد مر جاؤں۔”
این جی او نے مستقل جنگ بندی کے مطالبات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں خواتین اور لڑکیوں کو اس وقت جس تباہ کن تشدد کا سامنا ہے، اسے ختم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
جعفری نے کہا، “پورے دو مہینوں سے یہ ڈراؤنا خواب جاری ہے جس سے غزہ کی خواتین اور لڑکیاں حیران ہیں کہ دنیا نے انہیں کیوں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ کچھ لوگ کی امید اب دم توڑنے لگی ہے۔ دنیا غزہ کی خواتین اور لڑکیوں کو مزید مایوس نہیں ہونے دے سکتی – اسے اب مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔”