Friday, December 13, 2024
homeاہم خبریںشادی کے نام پر دولت کی نمائش سیاست، کارپوریٹ اور مذہب کا...

شادی کے نام پر دولت کی نمائش سیاست، کارپوریٹ اور مذہب کا گٹھ جوڑکا بدنما چہرہ

نوراللہ جاوید
ایشیا کے سب سے امیر آدمی مکیش امبانی کے چھوٹے بیٹے کی شادی کی تقریبات آخر کار اختتام کو پہنچیں ۔ٹی وی نیوز چینلوں سے لے کر سوشل میڈیا اور دیگر عوامی ڈومین پر اس شادی کی تقریبات کے ویڈیوز چھائے رہے ۔اس سال مارچ سے ہی امبانی کے بیٹے کی شادی کی تقریبات کا سلسلہ جاری رہا۔اس میں صرف بالی ووڈ کے اداکار ،کاروباری اور سیاسی شخصیات ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے اہم ترین شخصیتوں نے شرکت کی۔ جس میں عالمی فن کار اور سابق سربراہان بھی شامل ہیں۔حیرت انگیز طور پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شادی کی یہ اعلی شان تقریبات ’’عالمی سطح پر ہندوستان کے بڑھتے ہوئے قد کی طاقتور علامت ہے‘‘۔دنیا بھر سے اہم شخصیات کی شرکت بھارت کی اقتصادی، سیاسی، فکری اور سائنسی صلاحیت کو نمایاں کرتی ہے‘‘۔

امبانی کے بیٹےکی شادی کے دوران حکومت کے ذریعہ فراہم کی جانے والی سہولتیں، سیکیورٹی انتظامات، ائیر پورٹ بالخصوص جام نگر میں آرمی ایئرپورٹ کو کسی قانونی ضابطہ کے صرف شادی کی تقریبات کے لیےسیول ائیرپورٹ میں تبدیل کردیا گیا۔امبانی کے بیٹے کی شادی کی وجہ سے ممبئی کے شہر کے ایک حصے کو مکمل طور پر مفلوج کردیا گیا تھا۔امبانی کی رہائش گاہ سے لے کر جیو کلچر سنٹرتک کے درمیان جتنے بھی دفاتر تھے وہاں چھٹیاں کردی گئی تھیں اور’ ورک فرام ہوم‘ کی ہدایت دی گئی ۔سیکڑوں پولیس والوں کو تعینات کر دیا گیا تھا۔ حکومت کارپوریٹ کے سامنے سرنگوں ہوچکی تھی ۔شادی کے نام پر دولت کی نمائش اور طاقت کے ارتکاز کا مظاہرہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔اس شادی میں وہ افراد بھی شریک ہوئے جو حال ہی میں لوک سبھا انتخابات میں دل کھول کر اڈانی اور امبانی کے سامنے مودی اور ان کی حکومت کے سرنگوں ہونے کا گلہ کررہے تھے۔راہل گاندھی اور گاندھی خاندان کے ماسوا تمام ممتاز سیاست داں اس میں شریک ہوئے۔ مکیش امبانی بذات خود سونیا گاندھی کو شرکت کی دعوت دینے پہنچنے تھے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ 14مہینوں سے منی پور میں خلفشار ہے ۔وزیر اعظم مودی کو منی پور کا دورہ کرنے کی فرصت نہیں ملی مگر وہ اڈانی کی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔

اس شادی پر کتنے ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اعداد و شمار جاننے کے خواہش مند افراد کے لیے دل چسپی کا باعث ہوسکتا ہے مگر سوال اس سے بڑا ہے کہ اس طرح کی بے ہودہ نمائش دراصل بھارت میں دولت اور سہولیات کی چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کی نشان دہی کرتی ہیں ۔آکسفیم کے مطابق سال 2000 میں ملک میں نو ارب پتی تھے۔ اب ملک میں دو سو ارب پتی ہیں، جن کے پاس مجموعی طور پر تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی دولت ہے۔ فوربس کے مطابق یہ ملک کی 2023 کی مجموعی گھریلو پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔دولت کا ارتکاز ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں بہت سے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے یا اس کے آس پاس رہتے ہیں۔یہ صورت یال انتہائی عدم مساوات کی آئینہ دار ہے۔ہندوستان میں دولت اور عدم مساوات کے بارے میں ایک حالیہ مطالعہ جس کا سب ٹائٹل ہے’’دی رائز آف دی بلینیئر راج‘‘میں کہا گیا ہے کہ ارب پتیوں کی کل دولت 1990 کی دہائی میں قومی آمدنی کے پانچ فیصد سے کم تھی۔مگر 2022میں قومی آمدنی کا پانچواں حصہ ہوگیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارتی معاشرہ میں ہرفرد اپنی صلاحیت اور استطاعت سے کہیں زیادہ شادی بیاہ پر رقم خرچ کرتے ہیں ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر ریلائنس جیسی کمپنی کا مالک اپنے بیٹے کی شادی کروڑوں روپے خرچ کررہا ہے تو اس میں حرج کیا ہے؟ ایک اور دلیل دی جارہی ہے کہ جیسا کہ تخمینہ لگایا جارہا ہے کہ اس شادی پر جو پانچ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں، اس کا فائدہ معیشت کو بھی اس طرح ہوا ہے کہ منجمد روپیہ مارکیٹ میں چلاگیا ہے۔اس سوال کا جواب ماہرین معیشت ہی دیں گے مگر اس دلیل کو عقل تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔دولت کے ارتکاز کے خاتمے کا مطلب اسراف نہیں بلکہ دولت کی مساویانہ تقسیم کا اصل مفہوم یہ ہے کہ تمام طبقات کو یکساں مواقع ملیں تاکہ وہ بھی ترقی کر سکیں۔ اس شادی کی وجہ سے چند ہزار افراد کو جو چند مہینوں کے لیے روزگار ملا ہے اس سے بےروزگاری کا خاتمہ تو نہیں ہوتا ہے۔

تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے مودی حکومت کا پہلا بجٹ اگلے چند دنوں میں آنے والا ہے ، نیتی آیوگ، حکومت کے اقتصادی ماہرین جیسا کہ مشورہ دے ہیں کہ تیسری سب سے بڑی معاشی طاقت بنانے کے انفراسٹرکچرپر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس لیے امید کی جارہی ہے نرملاسیتارمن کے بجٹ میں اس پر زیادہ توجہ دی جائے گی ۔اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ انفراسٹرکچر ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے مگر یہ باورکرانا کہ صرف انفراسٹرکچر سے ہی ملک کی ترقی ہوسکتی ہے، نظریہ ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔نج کاری کے نام پر ملک کے تمام شعبےچند پرائیوٹ ہاتھوں میں دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

زراعت پر کارپوریٹ دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں ۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ ایسا کوئی بجٹ آتا ہے جس سے کارپوریٹ کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس کے خلاف تنقید کون کرے گا۔کیا اپوزیشن کی بنچوں پربیٹھے وہ لیڈر جنہوں نے امبانی کے بیٹے کی شادی میں شرکت کی، کیا وہ پارلیمنٹ میں آواز بلند کرسکیں گے؟ کیا کوئی سوال کرے گا کہ امریکہ کی سخت ہدایات کے باوجود روس سے سستے داموں کچے تیل کی خریداری کا فائدہ امبانی خاندان کو کیوں پہنچایا گیا۔روس سے تیل خریدنے کی قرارداد ملک کی سردہ کمپنیوں کے بجائے ریلائنس نے پیش کی اور اس نے ان ممالک کو تیل فراہم کیا جو جنگ کی وجہ سے روس سے تیل نہیں خرید رہے تھے۔ایک رپورٹ کے مطابق محض چند سالوں میں اس سودے سے ریلائنس نے دنیا کے کئی ممالک کےمجموعی جی ڈی پی سے زیادہ کی آمدنی کی۔روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے اگر امریکہ کوئی کارروائی کرتا تو اس سے عام شہری متاثر ہوتے ہیں مگر کم داموں میں تیل کی خریداری کا فائدہ ریلائنس کو پہنچایا جارہا ہے۔شادی کی ہنگامہ آرائی کے دوران ریلائنس نے جیو کے ٹیرف میں 40فیصد تک اضافہ کردیا جس کا سیدھا اثر عوام پڑا ۔کہا جارہا ہے کہ اس اضافی آمدنی سے محض چند مہینوں میں ریلائنس شادی پر خرچ ہونے والی رقم کی بھرپائی کرلے گا۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ بھرپائی کس کی قیمت پر کی گئی ہے۔

اس شادی میں ہندوؤں کے مذہبی رہنماؤں نے بھی شرکت کی جو کہ تشویش ناک ہے۔ تشویش ناک اس معنی کہ مذہبی و روحانی شخصیات کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سماج اور معاشرہ کی صحیح رہنمالی کریں۔جب یہ مذہبی شخصیات ہی اس طرح کے دکھاوے ، فضول خرچی اور راہ و رسم کا حصہ بن جائیں گی تو اس سماج کو صحیح راہ کون دکھائے گا۔قانون کے باوجود اس ملک میں ہرسال درجنوں لڑکیاں جہیز کے لالچ اور سسرالوں میں ظلم و تشدد سے تنگ آکر اپنے جانیں دے دیتی ہیں ۔ جہیز مخالف قانون بے اثر ہے۔ ہرکوئی امبانی نہیں ہے ۔ظاہر ہے کہ وہ اپنی شان و شوکت کے لیے لڑکی والوں پر بوجھ ڈالے ہی گا۔سیاست ، کارپوریٹ اور مذہبی لیڈروں کا یہ گٹھ جوڑ نہ صرف ملک کی معیشت کے لیے خطرناک ہے بلکہ سماج اور معاشرہ کے لیے بھی خطرہ ہے۔سیاسی لیڈر، حکومت کی کارپوریٹ کے سامنے خود سپردگی اور ان کے مفادات کے لیے عوامی مفادات کو ترجیح دینے کی پالیسیوں کے خلاف بولنے کے حوصلے سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس معنی میں راہل گاندھی کی تعریف کی جانی چاہیے کہ انہوں نے اس طرح نمائش اور استحصالی نظام سے دوری اختیار کی ہے ۔یہی وہ چیز ہے جو آج راہل گاندھی کو ملک کے دیگر سیاست دانوں سے الگ بناتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین