Thursday, November 21, 2024
homeخصوصی کالمملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کا زوال

ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کا زوال

ورکشپ ایکٹ 1992کو چیلنج کرنے والی عرضی کی سماعت پر سپریم کورٹ نے اپنے ہی سابقہ فیصلے کو نظرانداز کردیا سپریم کورٹ میں مقدمات کی تقسیم اور منتقلی اور بنچوں کی تشکیل پر سینئر وکلا نے سوالات کھڑے کئے

نوراللہ جاوید
سیاسی اتار چڑھاو، ہنگامہ آرائی اور عام انتخابات کی دستک کے ساتھ سال 2023 اختتام پذیر ہے۔ تاہم سال کے آخری ہفتے سے قبل پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران جو واقعات رونماہوئے اور جس طریقے سے اپوزیشن کے ممبران پارلیمنٹ کو تھوک میں معطل کیا گیا وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔پارلیمانی جمہوریت کی تاریخ میں ایسے واقعات بہت ہی کم پیش آئے ہیں کہ جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 146سے زائد ممبران کو معطل کردیا گیا ۔اپوزیشن کے بغیر پارلیمنٹ کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمانی جمہوریت کے لیے اپوزیشن کی موجودگی ناگزیر ہے۔ بحث و مباحثہ ، اپوزیشن کے اعتراضات پر جوابات دیے بغیر پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا بل اکثریت کی بنیاد پر پاس ہوکر قانون تو بن جائے گا مگرہمیشہ اس قانون کے اخلاقی جواز پر سوالیہ نشان لگا رہے گا ۔ معطل ہونے والے ممبران پارلیمنٹ کو اپنے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کی ترجمانی سے محروم کرنا ایک غیر جمہوری عمل ہے۔اپوزیشن کی غیر موجودگی میں نصف درجن سے زائد بل جن میں تین نئے فوجداری بلز شامل ہیں جن میں’’ راج دروہ‘‘ کی جگہ دیش دروہ(ملک مخالف) کا قانون لاکر پولیس اور انتظامیہ کوبے مہار اختیارات دیے گئے ہیں ۔ بی ایس این بل میں پولیس کو جج کا درجہ دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ ایک ایسے وقت جب ملک بھر کی جیلوں میں حکومت کی پالیسی کی مخالفت کرنے والے سیاسی اور سماجی کارکنان سیکڑوں کی تعداد میں بند ہیں اور انہیں ضمانت نہیں مل رہی ہے ،اگر یہ اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اس طرح کے قوانین سے ملک کی جیلیں اقلیت، دلت اور پسماندہ طبقات سے بھر جائیں گی تو یہ صرف خدشات نہیں ہیں بلکہ اس کے پیچھے سچائی ہے۔ ٹیلی کام سے متعلق تین بل بھی پاس کیے گئے ہیں ۔ان بلوں کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ صحافت ، انٹرٹینمنٹ اور انٹرنیٹ پر کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کو بے مہار اختیارات حاصل ہوجائیں گے ۔اسی طرح سپریم کورٹ کی ہدایت کو نظرانداز کرکے من پسند الیکشن کمیشن کے عہدیدارکی تقرری سے متعلق بل بھی پاس کرکے قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے۔یہ تمام بل کوئی معمولی نہیں ہیں ان کا تعلق براہ راست عوام سے ہے ۔ان بلوں کو چور دروازے سے پاس کرانے کی کوشش بذات خود حکم راں جماعت کی سوچ و فکر اور جمہوریت کے تئیں ان کی عدم وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ ان بلوں کے مستقبل میں اثرات کیا مرتب ہوں گے؟ سوال حکومت کی اخلاقیات اور پارلیمانی جمہوریت کے مستقبل کا بھی ہے۔ اپوزیشن کے بغیر پارلیمنٹ کے تصور کی پذیرائی وہ بھی کر رہاہے جس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور ان نئے قوانین کی وجہ سے وہ خود اس کی زد میں آسکتا ہے۔مگر ایک پارٹی اور ایک شخص کے عشق میں وہ اس قدر اندھا ہوچکا ہے کہ اس کو آگے کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔المیہ صرف یہ نہیں ہے کہ 2023کا اختتام پارلیمانی نظام کے زوال اور عوامی جمہوریت کی جگہ جمہوری آمریت اور اکثریت نواز جمہوریت لے رہی ہے بلکہ المیہ یہ ہے کہ بھارتی جمہوریت کے ستون ایک ایک کرکے منہدم ہورہے ہیں ۔ایک طرف پارلیمنٹ زوال کا شکار ہے جہاں قوانین بحث و مباحثہ کے بغیر ہی منظور ہورہے ہیں ۔وہیں قوانین سازی کے پارلیمانی طرز اور طریقہ کار کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔اہم سے اہم بلوں کو چند منٹ کی بحث اور بھارت ماتا کے نام پر پاس کردیا جاتا ہے۔جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا میں اپوزیشن اور حکومت مخالف آوازوں کے لیے جگہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ جانبداری ، غیر معروضیت اور پروپیگنڈہ اس کا طرہ امتیاز بنتا جارہا ہے۔ مگر جمہوریت کے دوسرے اور تیسرے ستون عدالت اور ایگزیکٹیو کی صورت حال بھی بہت کچھ اچھی نہیں ہے۔ایگزیکٹیو مکمل طور پر سیاست کے تابع ہوچکا ہوچکا ہے۔آزاد اور خودمختار ادارے اپنی آزادی سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔عدلیہ جمہوریت کا سب سے بڑا ستون ہے۔اگر وہ اپنی جگہ درست اور فعال رہتا ہے تو دیگر خرابیوں پر قابو پانے کی امید کی جاسکتی ہے۔مگر 2023 میں عدلیہ کی کارکردگی بالخصوص سپریم کورٹ کے فیصلے ، ججوں کی بحالی، روسٹرم کی تقسیم اور دیگر معاملات کو دیکھا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ بھارت میں نظام انصاف زوال کی طرف گامزن ہے اور 2023 عدلیہ کی آزادی پر قدغن اور جانبدار ی کے اعتبار سے بدترین سال ثابت ہوا ہے جس کے لیے المیہ جیسا لفظ بھی ناکافی ہے۔

2023کے آغاز میں سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے معاملہ میں اپنا پلڑا پوری طرح حکومت کے حق میں ڈال دیا حالانکہ 2016 میں نوٹ بندی کے نفاذ کی وجہ سے لاکھوں افراد کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑااور ملک کی معیشت کو اس قدر شدید دھچکا لگا کہ ملک ابھی تک اس سے ابھر نہیں پایا۔ جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ، درجنوں افراد کی جانیں گئیں جبکہ ملک کو اس پوری مشقت سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔حکومت کی نیت پر سوال کھڑے کیے بغیر کم سے کم اس بات کی جانچ تو ہونی ہی چاہیے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ کن حالات میں لیا گیا۔ کیا اتنے بڑے اقدامات سے قبل کابینہ کی منظوری ،وزارت خزانہ اور ریزرو بینک آف انڈیا کو اعتماد لیا گیا ؟ عدالت عظمیٰ نے تو اس پورے معاملے کی تہہ میں گئے بغیر ہی حکومت کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ اسی طرح سال کا اختتام جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات دفعہ 370ہٹانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو جواز بخشنے سے ہواہے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بی جے پی کے لیے سیاسی و نظریاتی اعتبار سے یقیناً ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے اور ایک طرح سے یہ اس کی نظریاتی فتح ہے مگر عدالتوں کے فیصلے سیاسی فائدے اور نقصان، کسی کمیونیٹی کے جذبات کے احترام کے تناظر میں نہیں ہوتے بلکہ قانون ، آئین اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور انہیں بنیادوں پر فیصلوں کا تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دفعہ 370پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملک کے نامور ماہرین قوانین اور خود سپریم کورٹ کے سابق ججز سوالات کھڑے کررہے ہیں؟سوال صرف ان دوفیصلوں کا بھی نہیں ہےبلکہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کی کارکردگی ، اہم مقدمات میں تاخیر، مقدمات کی تقسیم کے تعلق سے جوسوالات کھڑے کیے گئے ہیں ان کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے نامور انگریزی اخبارات میں شائع ہونے والےمضامین بالخصوص مشہور قانون داں اورسابق مرکزی وزیر قانون کپل سبل کا مضمون We Are Witnessing Undeclared Emergency Court are Silent اور مشہور وکیل دوشینت دوبے کا انڈین ایکسپریس میں شائع شدہ مضمون A Coloser look at one yeare Cji chandar chude اور آرٹیکل 14ڈاٹ کام میں سوربھ داس کی طویل رپورٹ Contrary To SC’s Rules Of Assignment At Least politically sensitive case Moved to one judge in 4 month اور دفعہ 370پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر مشہور وکیل فالی ایس نریمن کے مضمون Where the Supreme Court went wrong on Article 370کو پڑھا جائے اور پھر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس روہنٹن فالی نریمن (فالی ایس نریمن کے صاحبزادے ہیں)کے حالیہ خطاب کے تناظر میں ان مضامین کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات بالخصوص مقدمات کی لسٹنگ اور ججوں کے تبادلے میں حکومت کی دخل اندازی بڑھتی جارہی ہے۔اسی مہینے 8دسمبر کوججوں کی تقرری میں تاخیر سے متعلق مقدمہ کو جسٹس سنجے کشن کول کی سربراہی والی بنچ سے اچانک ہٹادیا گیا ۔اس کی خبر خود انہیں نہیں تھی۔ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن کے ذریعہ توجہ دلانے پر انہوں نے کہا ’’ یہ ہم نے نہیں کیا ہے۔ممکن ہے کہ چیف جسٹس اس سے باخبر ہوں گے اور کچھ معاملات میں خاموش رہنا ہی بہتر ہے‘‘۔

جنوری 2018 میں، سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججوں نے جس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گوگوئی بھی شامل تھے، پریس کانفرنس کرکے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشراکے ماسٹرآف روسٹر پر سوالات کھڑے کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی حکومت کے خلاف اہم مقدمات مخصوص بنچ کو بھیجے جارہے ہیں اور سینئر ججوں کی بنچ کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔پانچ سال بعد ججوں کے درمیان مقدمات کی تقسیم کا معاملہ دوبارہ سر اٹھانے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل دشینت دوبے نے حال ہی میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ سینئر ججوں سے مقدمات چھینے جارہے ہیں اور دوسری بنچوں کو تفویض کیے جارہے ہیں۔ایڈووکیٹ دشنیت دوبے نے اپنے اس خط میں ان مقدمات کا حوالہ دینے سے گریز کیا ہے تاہم آرٹیکل 14ڈاٹ کام میں سوربھ داس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ 2017کے ہینڈ بک میں وضع کردہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سینئر ججوں کے پاس سے اہم مقدمات کو لے کر 8اہم مقدمات کو بہت ہی جونیئر جج جسٹس بیلا ترویدی کی عدالت میں بھیجا گیا ہے۔ہینڈ بک کہتی ہے کہ کیسز کو سینئر جج کے سامنےاس وقت تک برقرار رکھا جائے جب تک وہ ریٹائرڈ نہیں ہو جاتے ہیں ۔ان کی عدم دستیابی کی صورت میں اسی طرح کے کیس کی سماعت کرنے والے جج کے سامنے مقدمہ رکھا جائے۔ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد یک طرفہ انہدامی کارروائی پر از خود نوٹس لینے والے ہریانہ اور پنجاب ہائی کورٹ کے جج کے پاس سے اس مقدمہ کو کس کے اشارے پر ہٹایا گیا ۔ضمانت کو بنیادی حق بتاتے ہوئے چیف جسٹس چندر چوڑ کے دور میں گزشتہ ایک سال سے عمر خالد اور دہلی فسادات میں گرفتارہونے والے افراد کی درخواست ضمانت پر سماعت کیوں نہیں ہورہی ہے۔باربار تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے۔آخر کار یہ صورت حال ملک کو کس طرف لے جارہی ہے ۔سپریم کورٹ کا آزادی سے محروم ہوجانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔بلکہ جسٹس روہنٹن نریمن کے الفاظ میں ’’اگر آپ کے پاس آزاد اور بے خوف جج نہیں بچے ہیں تو نمسکار کرلیجیے کہ کچھ نہیں بچا ہے۔اصل میں میرے مطابق یہ دیوار آخر کار ڈھے جائے توہم ایک نئے اندھیرے غار میں داخل ہوجائیں گے۔تو کیا اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے کہ بھارت کی جمہوریت ایک اندھیرے اور تاریک غار میں داخل ہوچکی ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہے؟

آرٹیکل 370پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات کی بی جے پی اول دن سے مخالف رہی ہے اور اس کے بنیادی ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔یہ سوال بھی مکمل طور پر سیاسی نوعیت کا ہے کہ جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات سے ملک کوکیا نقصان ہورہا تھا اور اس کو ہٹائے جانے سے کیا فائدہ ہوا ہے۔گزشتہ چار دہائیوں سے جموں و کشمیر میں فوج کو بے شمار اختیارات حاصل ہیں اس کے باوجود سیکیورٹی اور علیحدگی پسند تحریکیں ختم نہیں ہوئی ہیں ۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ 370کو ہٹائے جانے کے بعد وادی میں سرمایہ کاری کتنے بڑے پیمانے پر ہوئی؟ حکومت کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کو یقینی بنانے میں گزشتہ چارسالوں میں ناکام کیوں رہی؟ تاہم سوال قانونی پہلووں کا ہے۔ مرکزی حکومت نے جس طریقے سے دفعہ 370کا خاتمہ کیا ہے کیا اس کو اس کے اختیارات حاصل ہیں؟ حکومت نے ریاستی اسمبلی کی رائے کو نظرانداز کرکے ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کن بنیادوں پر کیا ہے؟گزشتہ چار سالوں سے جموں و کشمیر میں انتخابات کیوں نہیں ہوئے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن سے سپریم کورٹ کو نمٹنا چاہیے تھا۔سپریم کورٹ سے یہ توقع شاید ہی کسی کو رہی ہوگی کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ 370کو بحال کردے گی مگر یہ امید سپریم کورٹ جیسی اعلیٰ عدلیہ سے تھی کہ وہ کم سے کم اہم آئینی سوالات کا جواب تلاش کرے گی اور منسوخی کے حق میں قانونی اور اخلاقی طور پر قائل کرنے والے دلائل کو سامنے لایا جائے گا۔کم از کم جموں و کشمیر سے ریاست کا درجہ چھین کر مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کر نے کی قانونی پہلوؤں پر بات کی جائے گی۔ماضی میں یہی سپریم کورٹ ہی تھی جس نے اندرا گاندھی کے جولائی 1969 میں 14 پرائیوٹ بینکوں کو قومیانے اور مئی 1970 میں پرائیو پرس سسٹم کو ختم کرنے کے اندرا گاندھی حکومت کے فیصلوں کو خارج کردیا تھا۔اگرچہ اندرا گاندھی حکومت نے آئینی ترمیم کرکے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا مگر اس وقت سپریم کورٹ کم سے کم یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی کہ وہ حکومت کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

مشہور وکیل فالی نریمن نے انڈین ایکسپریس میں اپنے مضمون میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوال کھڑا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مرکز نے جو کچھ کیا وہ میری نظر میں نہ تو آئین کی دفعات کے مطابق تھا اور نہ ہی وفاقیت کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ہے۔آئین ہند 1950 کے آرٹیکل 370 کو 1954 کے صدارتی حکم نمبر 48 کے ساتھ پڑھاجانا چاہیے۔آرٹیکل 3 کا اطلاق سابقہ ریاست جموں و کشمیر پر اس شرط کے ساتھ کیا گیا تھا کہ اس کا رقبہ (جو 1950 میں 39,145مربع میل تھا – جس کا تینوں فیصلوں میں سے کسی میں بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے) کو ایگزیکیٹو کے ذریعہ کم نہیں کیا جائے گا، نہ ہی پارلیمنٹ جموں و کشمیر ریاستی اسمبلی کی رضامندی کے بغیر کام کر سکتی ہے،جب کہ مرکزی حکومت نے ریاست کی تقسیم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کارقبہ 22,836مربع میل کردیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔یہ سب جموں و کشمیر کے عوام کے علم میں لائے بغیر کیا گیا ہے۔آرٹیکل 370 کے شق نمبر 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاستی اسمبلی کی سفارش کے بغیر آرٹیکل 370میں ترمیم نہیں کی جا سکتی ہے۔لہٰذا آرٹیکل 370 کے تحت صدر کا اختیار (جو درحقیقت مرکز کا اختیار ہے) پورے آرٹیکل 370 کو غیر فعال قرار دینے کا اختیار، صرف اس صورت میں نافذ العمل ہوگا جب ریاست جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے سفارش کی ہو۔فالی نریمن نے لکھا ہے کہ عدالت کا یہ کہنا کہ صدر جمہوریہ ریاستی اسمبلی کی سفارش کے پابند نہیں ہے دراصل یہ آئین کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔مرکزی فیصلے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ نہ صرف براہ راست آرٹیکل 370 (3) کے خلاف ہے بلکہ AIR 1961 S.C. 1596 میں رپورٹ کردہ پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ کے فیصلوں کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔اس لیے میرا نتیجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا موجودہ فیصلہ، چاہے سیاسی طور پر قابل قبول ہو، آئینی طور پر درست نہیں ہے۔ ایڈووکیٹ ایس فالی نریمن کے صاحبزادے و سابق جج سپریم کورٹ جسٹس ہنٹن فالی نریمن نے بھی اسی طرح کے سوالات کھڑے کیے ہیں ۔

سپریم کورٹ میں مقدمات کی تقسیم سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟

سپریم کورٹ کے قوانین کے مطابق کیسوں کی تقسیم اور بنچ کی تشکیل چیف جسٹس کا استحقاق اور ان کی صوابدید پر مبنی ہوتا ہے۔جنوری 2018 میں سپریم کورٹ کے چارسینئر ججوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا کے ذریعہ کیسوں کی تقسیم میں غیر جانبداری اور اہم مقدمات خصوصی بنچ کے حوالے کیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے ایک نئی بحث شروع کی تھی۔اس کے بعد سپریم کورٹ میں اصلاحات لانے اور کیسوں کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کے مطالبات میں تیزی آگئی ۔بعد میں سپریم کورٹ میں اس تعلق سے ایک مقدمہ بھی دائرکیا گیا مگر سپریم کورٹ کی بنچ نے درخواست کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ماسٹرآف روسٹر چیف جسٹس کا استحقاق ہے۔عدالتی نظام میں شفافیت کے حامیوں کا مطالبہ ہے کہ کالجیم کے طرز پر بنچ کی تشکیل اور مقدمات کی تقسیم کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ۔تاہم اس سمت میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔صوابدیدی اختیار کے غلط استعمال پر نظر رکھنے کے لیے کوئی رہنما خطوط نہیں ہیں لیکن کون سے مقدمات کس بنچ اور کس جج کے سپرد کیے جائیں، اس کے لیے ’’سپریم کورٹ ہینڈ بک آن پریکٹس اینڈ پروسیجر 2017‘‘ میں کچھ رہنما خطوط اور اصول و ضوابط طے کیے گئے ہیں ۔اس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی مقدمہ پہلے سینئر ترین ججوں کے سپرد کیا جائے گا ۔ان کی عدم دستیابی پر ان کے بعد والے سینئر جج کو تفویض کیا جائے گا ۔دوسرایہ کہ ایک بنچ سے دوسری بنچ میں مقدمات کی منتقلی غیر ضروری طور پر نہیں کی جائے گی۔اس وقت تک کوئی بھی مقدمہ دوسری بنچ کو منتقل نہیں کیا جائے گا جب تک جج ریٹائرڈ نہیں ہو جاتے۔سینئر وکیل اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے اپنے مضمون میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے تشویش ظاہر کی کہ زیر سماعت حساس کیسز ایسی بنچ پر منتقل کیے جاتے ہیں جس نے پہلے اس معاملے کی سماعت نہیں کی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل وشنیت دوبے نے29 نومبر 2023 کو انڈین ایکسپریس میں شائع شدہ اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ’’سپریم کورٹ میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ بنچوں کی تشکیل اور مقدمات کی تقسیم میں بہت کچھ خامیاں ہیں۔ اس کے نتیجے میں انصاف بعض اوقات متزلزل ہو جاتا ہے‘‘۔6 دسمبر کو چیف جسٹس آف انڈیا کو لکھے گئے اپنے خط میں ایڈووکیٹ دوشنیت دوبے نے سپریم کورٹ کی ہینڈ بک پریکٹس اور کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاہے کہ ’’یہ آپ کی قیادت میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے ادارے کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ادارہ سب کے لیے قابل احترام ہے۔ یہ احترام ہر لحاظ سے ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اس پر فوری طور پر غور کریں اور اصلاحی اقدامات کریں‘‘۔

سوربھ داس نے ’’آرٹیکل 14 ڈاٹ کام میں شائع شدہ اپنی رپورٹ میں 8ایسے حساس و سیاسی نوعیت کے مقدمات کی نشان دہی کی جس میں سپریم کورٹ 2017کے ہینڈ بک میں وضع کردہ قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ گزشتہ چار مہینوں میں سپریم کورٹ کی جج جسٹس بیلا ایم ترویدی کی عدالت میں ایسے مقدمات منتقل کیے گئے جو قاعدے کے مطابق انہیں منتقل نہیں کیے جانے چاہیے تھے۔31 اگست 2021 کو سپریم کورٹ کے جسٹس کے طور پر حلف لینے والی 63 سالہ ترویدی اس وقت کل 34 ججوں میں سے 16 ویں سینئر ترین جج ہیں اور بنچ کی قیادت کرنے والے 17 پریسائیڈنگ ججوں میں سے ایک ہیں۔ترویدی گجرات ہائی کورٹ کی پہلی خاتون جج ہیں جو سپریم کورٹ تک پہنچی ہیں۔2001سے 2014تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہنے والے نریندر مودی کی حکومت میں وہ سکریٹری قانون تھیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ سوال کھڑے کیے جارہے ہیں کہ حساس نوعیت کے کیسس بغیر کسی وجہ اور اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھے بغیر جسٹس بیلا ترویدی کی عدالت میں منتقل کیوں کیے گئے ہیں۔ان 8کیسوں میں بھیما کوریگاؤں کیس کے ملزم مہیش راوت کی ضمانت کا معاملہ ستمبر میں جسٹس انیرودھا بوس کے حوالے کیا گیا ۔ انہوں نے اس سال کے شروع میں اسی معاملے میں گرفتار کیے گئے ورنن گونزالویس اور ارون فریرا کو اسی کیس میں ضمانت دی تھی۔ بوس سپریم کورٹ کے ججوں کی سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر ہیں اس کے باوجود یہ کیس ان کی عدالت سے لے کر 16ویں نمبر کی سینئر جج بیلا ترویدی کی عدالت میں منتقل کیا گیا ۔

نوجوان سماجی کارکن اور جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کی درخواست ضمانت عرصہ دراز سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔سیاسی کارکن عمر خالد کی درخواست ضمانت جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے وہ سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کے بھی خلاف ہے۔ابتدائی طور پر خالد کی درخواست جسٹس اے ایس بوپنا کے سامنے پیش کی گئی تھی جو فی الحال جسٹس بوس کے بعد سنیارٹی میں ساتویں نمبر پر ہیں۔ 9 اگست کو بنچ کے ساتھی جج جسٹس پرشانت کمار مشرا نے خود کو اس کیس سے الگ کرلیا۔18اگست کو درخواست ضمانت جسٹس بوپنا کی بنچ سے (حالانکہ جسٹس بوپنا نے کیس کو منتقل کرنے سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا تھا) جسٹس بوس کی سربراہی والی بنچ کو منتقل کیا گیاجس کا جسٹس بیلا ترویدی بھی حصہ ہیں ۔تاہم 12 اکتوبر کو خالد کی عرضی جسٹس بوس کی بنچ سے جسٹس ترویدی کی قیادت والی بنچ کو منتقل کی گئی ۔اس بنچ میں جسٹس دیپانکر دتا شامل ہیں۔عمر خالد نے جسٹس ترویدی کے سامنے یہ معاملے اٹھانے کی کوشش مگر بنچ نے کیس کی سماعت اگلے مہینے تک ملتوی کر دی۔

اکتوبر میں خالد نے الگ سے ایک عرضی دائر کی جس میں یو اے پی اے کے کچھ دفعات کے آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ۔یو اے پی اے کے کچھ دفعات پر تریپورہ کیس میں پہلے ہی زیر سماعت ہے۔چوں کہ اسی طرح کے معاملات چیف جسٹس اور جسٹس کھنہ کی عدالت میں زیر التوا ہیں ۔اس لیے قواعد کے مطابق عمر خالد کی اس درخواست کی سماعت چیف جسٹس کی عدالت میں ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ ہینڈ بک کےکورم بائی فائلنگ کاؤنٹر کے قاعدہ نمبر ایک کے تحت ایک جیسے معاملات یا پھر ملتے جلتے معاملات ایک ساتھ منسلک کے جائیں گے ۔جب خالد کا کیس 20 اکتوبر کو پہلی بار درج ہوا تو بنچ نے خالد کے چیلنج کو زیر التواء معاملات کے ساتھ ٹیگ کرنے کا حکم دیا۔

اکتوبر 2021کے تیسرے ہفتے میں تریپورہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ۔اس فسادات کی رپورٹنگ کرنے والے کئی صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا گیا ہے UAPA کے تحت مقدمہ درج کرنے کی کارروائی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی عدالت میں ہو رہی تھی۔ان کے ساتھ ٹیگ کی گئیں درخواستیں یو اے پی اے کی بعض دفعات کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتی ہیں، جو جسٹس سنجیو کھنہ اور چیف جسٹس کے سامنے زیر التوا تھیں۔تاہم یہ تمام معاملات، 29 نومبر 2023 کو، دیگر 15 سینئر ججوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، جسٹس ترویدی کی سربراہی والی بنچ کے سامنے دوبارہ پیش کیے گئے۔جب اس معاملے کی پیروی کرنے والوں میں سے ایک سینئر ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے اس کی نشاندہی کی توجسٹس ترویدی نےکہا کہ یہ معاملات ہمارے سامنے ہیں۔ہم سننے کے پابند ہیں۔ اگر آپ کو کوئی تحفظات ہیں تو آپ چیف جسٹس آف انڈیاکے سامنے ذکر کر سکتے ہیں۔

انصاف میں تاخیر انصاف دینے سے انکار کے مترادف

انصاف دینے کے معاملے میں عدالتوں کا ریکارڈ انتہائی خراب رہا ہے۔جب کہ سپریم کورٹ نے بار بار زندگی اور آزادی کے بنیادی حق کے تحفظ کے لیے ضمانت کی درخواست پرفوری سماعت کو ضروری قرار دیا ہے لیکن گرفتاری کے تین سال اور تین ماہ بعد عمر خالد ، شرجیل امام اور دہلی فسادات کے معاملےمیں گرفتار دیگر ملزمین بغیر ضمانت یا مقدمے کے قید ہیں ۔عمر خالد کی درخواست ضمانت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے مختلف ججوں کے درمیان اچھل رہی ہے جس میں سات مہینوں کے دوران کیس 10 بار درج ہونے کے باوجود دلائل کی کوئی سماعت نہیں ہوئی۔ ریاست کی طرف سے تاخیری حربوں، التوا اور نظام الاوقات میں تبدیلی کی وجہ سے عمر خالدکی درخواست ضمانت پر سماعت نہیں ہورہی ہے۔ 12 جولائی 2023 کی بات ہے جب جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے کہا کہ یہ ایک معاملہ ہے جس میں ایک یا دو منٹ لگ سکتے ہیں مگر پولس انتظامیہ ہزاروں صفحات پر مشتمل چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے وقت مانگ کر مقدمہ کی سماعت موخر کرنے میں کامیاب رہی۔اس کے بعد سے ہی اس معاملے کی سماعت تاخیر کا شکار ہے۔

2020کے دہلی فسادات کی سازش کیس میں دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے 9مسلمانوں کی درخواست ضمانت دہلی ہائی کورٹ میں 11 سے 19 مہینوں سے زیر التوا ہیں ۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے ان ناکامیوں سے زندگی اور آزادی کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔دہلی پولیس نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ 1967 (یو اے پی اے) کے تحت ایک مشترکہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر نمبر 59) میں 20 افراد پر فرد جرم عائد کی۔ان ملزمان میں سے 9افراد جن میں 8 مرد اور 1 خاتون شامل ہیں سلیم، شرجیل امام، عبدالخالق سیفی، گلفشاں فاطمہ، میران حیدر، سلیم ملک، شفا الرحمان، شاداب احمد، اور اطہر خان زیریں عدالتوں سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد جیل میں ہیں۔ ضمانت سے انکار کو چیلنج کرنے والی ان کی درخواستیں بھی 11 سے 19 ماہ سے دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔اگرچہ جسٹس سدھارتھ مرڈول اور جسٹس رجنیش بھٹناگر پر مشتمل خصوصی بنچ نے اپریل 2022 سے تین درجن سے زائد مرتبہ ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔ جنوری اور مارچ 2023 کے درمیان چھ درخواستوں کی سماعتیں مکمل کیں اور فیصلے محفوظ کر لیے ۔ جولائی 2023 کو سپریم کورٹ کی کالجیم نے جسٹس مردول کے بطور چیف جسٹس منی پور ہائی کورٹ میں تبادلے کی سفارش کی۔ جسے مرکزی حکومت نے تین ماہ بعد 16 اکتوبر کو منظور کیا ۔بعد میں جسٹس بھٹناگر کا راجستھان ہائی کورٹ میں تبادلہ ہوگیا۔جسٹس سریش کمار کیت اور جسٹس شلیندر کور کی ایک نئی بنچ اب نو مقدمات کی دوبارہ سماعت کرے گی، جس سے قید کی مدت مزید طویل ہوگئی ہے۔ یکم نومبر 2023 کو، جسٹس کیت اور کور نے جنوری اور فروری 2024 میں دوبارہ سماعت کے لیے تاریخیں طے کی ہیں-آرٹیکل 21 کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی زندگی یا ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔چوں کہ یہ آرٹیکل بنیادی حق کا حصہ ہے اس لیے قانون کا تقاضا ہے کہ ضمانت کے معاملوں کی تیز رفتار ٹرائل ہومگر عدالت مسلسل اس حق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ اس بنیادی حق کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے تو انصاف کی امید کس سے لگائی جاسکتی ہے۔دراصل مودی دور حکومت میں جس طریقے سے ججوں کا تبادلہ اور کالجیم کی سفارشات پر عمل کرنے میں تاخیری حربہ آزمایا گیا ہے اس سے عدالت کی آزادی پہلے ہی مجروح ہوگئی ہے۔ججوں کی تقرری کے عمل میں دخل اندازی کرنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد مودی حکومت مسلسل کالجیم اور ججوں کے تبادلے اور سفارشات پر عمل کرنے سے گریز کررہی ہے۔المیہ یہ ہے کہ اس پوری صورت حال میں سپریم کورٹ کا اپنا رویہ بھی انتہائی ناقص اور قابل اعتراض ہے۔

عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ 1992پرغیرذمہ دارانہ رویہ

15دسمبر 2023کو سپریم کورٹ نے شاہی عیدگاہ متھرا کا سروے کرانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔اس سال کے شروع میں گیانواپی مسجد کا سروے کرانے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی مداخلت کرنے سے انکار کردیا تھا۔الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے گیانواپی مسجد وارانسی اور شاہی عیدگاہ متھرا کی انتظامیہ نے ورشپ ایکٹ 1992کو بطور ثبوت پیش کیا۔۔ یہ قانون خاص طور پر آزاد بھارت میں عبادت گاہ کے مذہبی کردار میں کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا۔ 2020میں بی جے پی لیڈر اشونای کمار اپادھیائے نے اس ایکٹ کو ہی چیلنج کردیا ہے۔گزشتہ تین سالوں سے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور مرکزی حکومت جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس قانون کا دفاع کرتی اس نے عدالت کی باربار یاددہانی کے باوجود اپنا جوابی حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے اور اب اگلے مہینے جنوری میں اس معاملے کی سماعت ہونی ہے۔قانونی ماہرین مانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے تاخیر سے نچلی عدالتوں کو اس ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں ورشپ ایکٹ 1992کو منظور کیا گیا تھا۔یہ ایکٹ کسی ایک مذہب یا فرقے کی عبادت گاہ کو دوسرے مذہب کے لیے اس میں تبدیل کرنے کوجرم قرار دیتا ہے۔یہ ایکٹ عبادت گاہوں کے کردار کو منجمد کرتا ہے۔اس ایکٹ سے15 اگست 1947 تک موجود تمام عبادت گاہوں کی حیثیت کو برقرار رکھا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے 2019 کے بابری مسجد ملکیت تنازع کے فیصلے میں اس ایکٹ کے دائرہ کار کی وسعت کی توثیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ایکٹ نے ریاست پر ہر عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد کی ہے۔15 اگست 1947 تک موجود تمام عبادت گاہوں کو اس کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے گا۔یہ ایکٹ بھارتی سیاست کے سیکولر فطرت کے تحفظ کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔آئینی بنچ نے سپریم کورٹ کے 1994 کے فیصلے کاحوالہ دیتے کہا تھا کہ اس ایکٹ کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ’’تاریخ اور اس کی غلطیوں کو حال اور مستقبل پر جبر کرنے کے آلات کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا‘‘۔2019 کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھج کہ عدالت ہندو عبادت گاہوں کے خلاف مغل حکم رانوں کے اقدامات سے پیدا ہونے والے دعوؤں کو قبول نہیں کرے گی۔ بابری مسجد کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے اس ایکٹ کی توثیق کرچکی ہے اور عدالتی نظیر ہے کہ جب کوئی آئینی بنچ کسی ایکٹ کی توثیق کرتی ہے تو اس کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سماعت بڑی بنچ میں ہی ہوسکتی ہے۔مگر اس معاملے عدالتی نظیر کو نظرانداز کرتے ہوئے اس ایکٹ کو چیلنج کرنے والی بی جے پی لیڈر کی عرضی پر دو ججوں کی بنچ میں 12 مارچ 2021 کو سماعت کا آغاز ہوا۔اس بنچ میں سابق چیف جسٹس ایس اے بوبڈے بھی شامل ہیں۔ایس اے بوبڈے بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ سنانے والے آئینی بنچ کا حصہ تھے اور انہیں نے بھی اس ایکٹ کی توثیق کی تھی۔گیانواپی مسجد سروے کی ہدایت کے خلاف عرضی کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جو ریمارکس دیے وہ چونکا دینے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سروے کا مقصد مسجد کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ جاننے کے لیے ہے کہ 15اگست 1947سے قبل مسجد کی کیا حیثیت تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا ورشپ ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں اور مساجد کے سروے کرانے والی عرضیوں کو یہ کہہ کر مسترد کردیا جاتا کہ اس ایکٹ کی سپریم کورٹ پہلی ہی توثیق کرچکی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین