کلکتہ 12اگست :
بنگلہ دیش میں اقتدار کی منتقلی اور اقلیتوں پر حملے کے واقعات پر جاری بحث کے دورا ن سی پی آئی ایم کے ریاستی سیکریٹری اور سابق ممبر پارلیمنٹ محمد سلیم نے کہا کہ حسینہ واجد کے زوال کو بڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی اقلیتوں پر ہونے والے حملے سے متعلق بھارت میں جس طرح کی خبریں آرہی ہیں اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔تاہم محمد سلیم نے کہا کہ اقلیتوں پرحملہ کے واقعات کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔
سنٹر فار پیس اینڈ پروگریسیوکے زیر اہتما م منعقد ایک مباحثہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق ممبر پارلیمنٹ محمد سلیم نے کہاکہ آج المیہ یہ ہے کہ ایک طبقہ ایسا ہے کہ جو حسینہ کی حمایت کررہا ہے۔سوال یہ ہے کہ جنوری میں ہی حسینہ نے انتخابات کے ذریعہ چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئیں ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آخر ان کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر تحریک کیوں چلی۔انہوں نے کہا کہ جب جب انتخابات اور جمہوریت کو ہائی جیک کیا جاتا ہے تو فیصلے سڑکوں پر ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج جب ہم بنگلہ دیش پر بات کررہے ہیں تو صرف ایک نقطہ نظر سے نہیں ہونی چاہیے۔
محمد سلیم نے کہا کہ آج ہم کس حیثیت سے بات کررہے ہیں ۔سارک جیسے بڑے پلیٹ فارم کو کس نے غیر موثر کیا ۔2014کے بعد سارک کے اجلاس نہیں ہورہے ہیں ۔پاکستان کے ساتھ اختلافات ہیں مگر اس کے باوجود پہلے اجلاس ہوتے تھے اور اب نہیں ہورہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں احتجاج ہوئے ہیں ، بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور اس کے نتیجے میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی اس طرح سے اقتدار کی تبدیلی ہوتی ہے تو خلفشار کے واقعات ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم تشدد کے خلاف ہیں تو صرف ہمارا تنقیدی رویہ سلیکٹیو نہیں ہونی چاہیے ۔بلکہ جہاں بھی تشدد ہورہے ہیں چاہے وہ غزہ میں ہو یا پھر کہیں بھی ہو اس کی تنقید ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم تشدد کے خلاف ہیں چاہے وہ اقلیتوں پر ہوں یا پھر سیاسی لیڈروں پر۔
انہوں نے کہا کہ اس میں سچائی ہے کہ بنگلہ دیش میں مختلف ممالک کے مفادات کام کررہے ہیں مگر یہ صورت حال اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں ہورہے ہیں اور الگ الگ ممالک کی ایجنسیاں، سول سوسائٹی اور دیگر ادارے کام کرتے ہیں ۔اس لئے ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسی طاقت تو کام نہیں کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے واقعات ہماری خارجہ پالیسی کی نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کیا بات ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہیں۔علاقائی گروبنے بغیرہم وشو گرو نہیں بن سکتے ہیں۔محمد سلیم نے کہا کہ بنگلہ دیش میں اور دیگر پڑوسی ممالک میں ہماری خارجہ پالیسی اس لئے ناکام ہوئی ہے کہ ہم ایک خاص جماعت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے نظر آئے ہیں ۔چوں کہ حسینہ کے ساتھ حکومت ہند کھڑی ہوئی تھی اس لئے حسینہ کے خلاف ناراضگی کے ساتھ بھارت کے خلاف ناراضگی بڑھ گئی ہے۔
محمد سلیم نے کہا کہ بنگلہ دیش میں ایک گروپ ہے جو بھارت کے خلاف کام کررہا ہے مگر کیا بھارت میں بنگلہ دیش کے نام پر نفرت انگیزی نہیں کی جارہی ہے۔بنگلہ دیشی کے نام پر جو نفرت انگیز ی کی جاتی ہے اس سے بنگلہ دیش میں بھارت کے نفرت میں اضافہ ہوتا ہے۔سلیم نے کہا کہ دونوں جگہ کی نفرت ایک دوسرے کی مدد کتی ہے۔محمد سلیم نے کہا کہ اگر جمہوریت کو بچانی ہے تو اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کی حفاظت کے بغیر کسی بھی ملک کی جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ واٹس اپ یونیورسٹی سے بچنے کی ضرورت ہے۔اقلیتوںکے خلاف حملے کی خبریں فرضی بھی آرہی ہیں ۔اس پروگرام سے آرگنائزر اوپی شاہ سمیت مختلف حلقوں سے وابستہ دانشوروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔یواین آئی۔نور