محمد سالک (انڈین فارم):ترجمہ نور اللہ جاوید
کچھ دن قبل میں اور میرے ایک دوست دہلی کی زندگی سے ایک شام چرا کر اپنے گھر کے چھت کے فرش پر بیٹھ کر کھلے آسمان اور درخت کو دیکھنے لگے ۔میرے دوست نے حال ہی میں ایم این سی ایس میں ایک کام کی شروعات کی ہے، وہ اس بارے میں بتارہاتھا کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے دفتر کا ماحول اس کےلئے کس قدر اجنبی ہے۔ اس نے بتایا کہ ہرایک شہری مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم سےغافل ہے۔جب کہ ہرصبح لنچنگ کی ایک نئی ویڈیو ، یا نفرت انگیز تقریریا نسل کشی والے کارٹون دیکھنے کو ملتے ہیں ۔لیکن میں دفتر جاتا ہوں اور لوگوں کو اس بات پر بحث کرتے ہوئے پاتا ہوں کہ کون سی جگہ بہترین سوشی بنتا ہے اور کون سی جگہ بہترین چیز کیک بنتاہے۔وہاں خفیہ سانتا ہورہا ہے۔وہاں لوگ ورزش کےلئے جارہے ہیں ۔میں اپنے دفتر کے ارد گرد دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ کونسی جگہ ہے ؟۔یا کسی اور دور میں تو نہیں پہنچ گیا ہوں؟۔
ہم ان دوستوں کو لے کر فکر مند ہیں جو فرقہ وارانہ مقامات پر کام کرتے ہیں،ان کےساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کو ہمیشہ ان کے مذہبی عقائد کی فکر ہوتی ہے؟گویا ایک بے حس جگہ پر کام کرنا نعمت مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ہم یہ سوچ کر کانپ جاتے ہیں کہ جو مسلمان غیر رسمی شعبے سڑک پر دوکان چلاتے ہیں ، رکشہ چلاتے ہیں انہیں ہرروز کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا؟۔ایک پرنٹ صحافی ہونے کی حیثیت سے میں نے انگریزی نیوز رومز میں کام کیا ہے، میں اس طرح کے تجربات سے بڑی حد تک محفوظ رہا ہوں۔ میں نے صحیح اور حقیقی معنوں میں سیکولر ایڈیٹرز کے تحت کام کیاہوں۔دوسروں نے بعد میں محسوس کیا کہ صرف مروجہ دفتری کلچر کی وجہ سے سیکولر تھے – وہ نظریہ کے لحاظ سے حیرت انگیز طور پر ڈھیلے ثابت ہوئے۔
اس وقت جب میں اپنے خیالات کو لکھنا شروع کیا ہے، مجھ میںغصے کی لہر دوڑنے لگی ہے ۔میں اپنے جذبات کو معتدل رکھنے کی کوشش کررہا ہوں ،یہ قانون کے خوف کا نتیجہ ہے یا پھر آزادی کے ساتھ اپنی رائے کے اظہار کرنے کے نتائج کا احساس ہے۔ یہ کنٹرول اور جبر کا پہلا نشان ہے،اس کی وجہ سے میری آواز کو محدود ہوجاتی ہے اور میرے الفاظ کے حدود کو پہلے ہی طے کردیتا ہے۔اس طرح الفاظ کی پیدائش سے قبل ہی حقوق کےلئے آواز بلند کرکے جذبے میں کمی آجاتی ہے۔یہ تقریباً ناقابل یقین ہے کہ کس طرح قانون اورحق پرمبنی گفتگو کرنے والوںکو محتاط کردیتی ہے اور اس کے نتیجے میں انصاف کو ختم ہوجاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب میں ہندوستانی ریاست کے وعدوں پر یقین کرتا تھا، لیکن سالوں اور بہت سے دردناک واقعات کے بعد میں نے از سرنو واقعات کو دیکھنے لگا ۔جب ہندوستانی ریاست وجود میں آیا تو یقیناً اس کو سیکولر ریاست بننے کے کافی امکانات تھے۔لیکن بھارتی ریاست نے اپنے آپ کو جو کچھ بننے دیا، کئی بار جان بوجھ کر، توقف کیا لیکن کبھی بھی اپنے جرائم کا کفارہ نہیں دیا، صرف یہ تجویز کیا کہ ابتدائی تشخیص غلط تھے اور شاید ایک بے بنیاد امید پر مبنی تھے۔ ترقی پسند آئین کے باوجود بھارت سیکولر ریاست کبھی بھی نہیں بن سکا۔اس کے برعکس اب بھارت’’ اکثریتی ریاست‘‘ بن چکا ہے ہے۔
ہندوستانی ریاست اپنے مسلم شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اس کا کوئی اگر استعارہ ہے تو وہ فروری 2020 میں دہلی میں رونما ہونے والے تشدد کے دوران 23 سالہ فیضان پر پولیس تشدد کا ہے۔ وہ شخص زمین پر گرا ہوا ہے، دوسرے مسلمان مردوں کے ساتھ، درد سے کراہ رہا ہے، اور پولیس والے اسے لاٹھیوں سے مارتے ہوئے قومی ترانہ گانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ فیضان بعد میں مر جاتا ہے، بظاہر ریاست کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ان کی قبر پر انصاف کا پھول نہیں چڑھ سکا ہے۔
1962میں ’’دی نیویارک‘‘کےلئے لکھتے ہوئے سیام فام امریکی مصنف جیمز بالڈون نے ’’میرے ذہن میں ایک خطہ کا خط‘‘کے عنوان سے مضمون لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ان کے پاس جج، جیوری، شاٹ گن، قانون تھا ۔ ایک لفظ میں’’طاقت‘‘ لیکن یہ مجرمانہ طاقت تھی، اس سے لوگوں کو خوف زدہ کرتے تھے ، انہیں عزت حاصل نہیں تھی۔اور وہ بہرصورت بے نقاب ہوچکے تھے‘‘۔
مجھے فیضان کی والدہ کا چہرہ نظر آتا ہے اور یاد آتا ہے۔ مجھے 2002 میںقطب الدین انصاری کی آنکھوں میں خوف اور رحم کی درخواست نظر آتی ہے ۔ کرناٹک میں اس خاتون کی آنکھوں میں آنسونظر آتا ہے جسے اسکول میں داخل ہونے کے لیے اپنا برقع اتارنے پر مجبور کیا گیا تھا جہاں وہ کئی برسوںسے پڑھا رہی تھی۔وہ مسلمان قیدی کے چہرے یاد آتے ہیں ہیں جنہوں نے بغیرکسی جرم کے برسوں قید کی زندگی گزاری ہے۔جب مسلمانوں کو دعا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ان کی آنکھوں میں درد نظرآتا ہے۔
فروری 2020 میں دہلی فسادات کے دوران ایک ہجوم ایک مسلم نوجوان کی پٹائی کرتے ہویے۔ : رائٹرز۔
نیلی سے ہاشم پورہ، بھاگلپور سے گجرات تک، میں نے دیکھا، اور مجھے یاد ہے۔ میں دھرم سنسد اور بُلّی بائی میں ریاست کی بے عملی، اور گڑگاؤں میں جمعہ کی نماز پر پابندیاں، اور تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کے ساتھ بدسلوکی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح پولیس فورسیس نے میری مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میںاحتجاج کررہے طلبا کو معذو ر اور اندھاکردیا ہے۔وہ مقامات جو کبھی زندگی اور ہنسی سے گونجتی تھی تشدد اور ہنگامہ آرائی کی یاد دہانیوں میں تبدیل کر دیاگیا ہے۔ اور میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ آزاد ہندوستان میں 1992میں بابری مسجد کے انہدام کے واقعے میںمسلمانوں کے لیے انصاف کے واحد سب سے بڑے سوال پر ریاست مکمل طور پرناکام ہوچکی ہے۔جب فیصلہ آیا تو مجھے بہت دھوکہ ہوا محسوس ہوا۔
میرے لیے، ہندوستانی عدلیہ حقوق اور آزادیوں کی محافظ تھی مگر وہ ملک کے تمام اداروں میں سب سے زیادہ پست ثابت ہوئی ہے۔ جج کا قلم مسلمانوں پر گولی چلانے، ان پر بمباری کرنے اور ان کے خلاف نسل کشی کرنے والوں کی ضمانت کے احکامات پر دستخط کرنے کے لیے بڑی تندہی کے ساتھ حرکت کرتا ہے، لیکن شاذ و نادر ہی مسلمانوں کوریاست یا پھر اکثریتی طبقےکے مظالم اور مسلمانوں پر ہوئے مظالم سے انصاف فراہم کرنے کےلئے چلتے ہیں۔حکمرانوںکے بولے ہوئے الفاظ ’’ طرز زندگی، امکانات کی بالادستی، اجتماعی ضمیر، ناانصافی اور جبر کو دوام بخشنے والے اونچے ڈھانچے کی بنیاد بن گئے ہیں۔انصاف مطلق اور ہرایک کو فراہم کی جانی چاہیے۔
میں جانتا ہوں کہ فوری انصاف آسان نہیں ہے، اس کے حصول میں کچھ وقت لگتا ہےلیکن جب انصاف ملے تو اس سے دل مطمئن ہوجانا چاہیے۔انصاف ہی وہ چیز ہے جو آپ کو ایک جگہ سے پیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ آپ کبھی بھی ایسی جگہ سے محبت نہیں کر سکتے جو آپ کو انصاف نہیں دیتی ہے۔ اس احساس کے ساتھ میں سمجھ گیا ہوں کہ اتنے سالوں میں میں خود کو تنہا کیوں محسوس کیا ہوں۔
این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں کے ذریعے، سنیما کے ذریعے، اخبارات کےذریعہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس ملک میں انصاف ملتا ہے ۔لیکن یہ وہ چیز تھی جسے میں نے محسوس نہیں کیا۔ پورا ماحولیاتی نظام مجھےایسی چیز دیکھنے پر مجبور کررہی ہے جو موجود نہیں ہے ۔اگر یہ باہر اور باہر جابرانہ فریم ورک ہوتا تو میں اسے جلد دیکھ لیتا۔ لیکن یہ وہ ٹکڑے تھے جنہوں نے مجھے الجھایا، میرے خیالات کو اتنی دیر تک الجھا ئے رکھا۔
گیس لائٹ کرنے کی پوری کوشش نے لاکھوں دوسرے مسلمانوں کی طرح مجھے ایک ایسے شخص میں تبدیل کر دیا ہے جو اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے فطری طور پر معذرت خواہ ہے۔اپنے آپ کو باقی مسلمانوں سے ممتاز کرنے کی اتنی سخت کوشش کر رہا ہوں، ملاؤں کی تنقید کرنے کا موقع شاذ و نادر ہی ضائع کرتا ہوں، ضرورت سے زیادہ صاف ستھرا لباس پہن کر، لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں ایک پڑھے لکھے گھرانے سے آیا ہوں، اپنے سیکولر رنگوں کو مستول پر کیلوں سے باندھتا ہوں، آئیڈیا آف انڈیا کے خیال سے اپنی محبت کا اکثر اظہار کرتا ہوں، اور کبھی بھی بی جے پی پر تنقید نہیں کرتا ہوں ساتھ ہی اویسی کو برا بھلا کہنے سے بھی نہیں چوکتا ہوں ۔ہمیشہ اس فکر میں غلطاں رہتا ہوں کہ مجھے کس طرح سمجھا جارہا ہے اور یہ تھکا دینے والاعمل ہے۔
ہر وقت میں پوری کوشش اور محنت لوگوں کو خوش کرنے میں صرف کرتا ہوں ،لیکن کیا میںاس کامیاب ہوں؟اکثرافراد انتخابی، سماجی اور سیاسی طور پر میرے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کی واضح حمایت کرتے ہیں ۔ میں ان کے بنائے ہوئے دقیانوسی تصورات سے لڑتے ہوئے ان کے وضع کردہ ’’اچھے مسلمان‘‘کے سانچے کے مطابق زندگی نہیں گزارنا چاہتا، اور ان کی منظوری حاصل کرنے کے لیے ساتھی مسلمانوں کو مسلسل بس کے نیچے نہیں پھینک سکتا ہوں۔مجھے یہ سمجھ ہے کہ ان لوگوںکوتعلیم دینا میری ذمہ داری نہیں ہے ۔جو معصوم سوالوں کا لباس پہن کر اپنے نرم تعصب کے ساتھ ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی نفرتوں میں نہ پڑے تو انہیں خود کوشش کرنی چاہیے۔
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ مجھے نہ پرواہ ہے اور نہ اس سے کوئی فرق پڑتا کہ ہندوستان کس سمت جا رہا ہے؟۔ میں بھائی چارے کی تبلیغ نہیں کرنا چاہتا یا ملک کی جامع ثقافت کو بچانے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا، جیسا کہ کچھ مسلم اشرافیہ مجھ سے چاہتے ہیں۔ مجھے اس تجویز میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی ہے۔ مسلمان بیوروکریٹ اور جرنیل اور بزدل مصنف، نئے زمانے کے زمیندار، سبھی اپنی مرضی کے مطابق کوشش کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ان کےلئے میری نیک تمنائیں ہیں۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ایسا کرنے کا حوصلہ کمیونٹی کے بارے میں گہری سمجھ اور فکر سے پیدا نہیں ہوا ہے، بلکہ ان کی اپنی حیثیت اور ثقافتی ورثہ اور ریاستی طاقت میں ان کے چھوٹے حصے کو محفوظ رکھنے کی خواہش سے پیدا ہوا ہے۔
آزادی کے بعد کی دہائیوں میں، ایک دوست کے دادا نے بتایا کہ کس طرح سرکاری دفاتر میں مسلم ملازمین سے طنزیہ انداز میں کہا جاتا تھا کہ ’’ابھی ہم نے آپ کو پاکستان دیا ہے پھر مانگنے آگئے‘‘۔تقسیم ہند کے بعد اس بیانیے کو مزید تقویت دی گئی ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جو اکثریت کو اس وقت بے چین کردیتی ہے جب وہ ایک غیر معذرت خواہ مسلمان کو اپنے حقوق اور مساوی شہریت مانگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ میرے دادا دادی اور والدین نے انصاف تک مساوی رسائی کا مطالبہ کرتے ہوئے احساس جرم محسوس کیا ہوگا، لیکن میں ایسا نہیں کرتا۔ میں وہی چاہتا ہوں جو میرا ہے، اور میں اسے مکمل طور پر چاہتا ہوں۔
کبھی کبھی،، میں سوچتا ہوں کہ کیا مجھے یہ چھوڑ دینا چاہیے؟ کیا میں بھاگ جاؤں ؟ جو چھوڑ نہیں سکتے ان کا کیا ہوگا؟ کیا مجھے رہنا چاہیے اور لڑائی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے؟ کیا سلامتی کا حصول جائز عمل نہیں ہے؟ جن دوستوں کے بچے ہیں وہ فکر مند ہیں کہ ان کے بچوں کو اسکولوں میں کس نفرت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس بات کو چھوڑ دیں کہ وہ کس قسم کے ملک میں بڑے ہو کر رہنے کے لیے تیار ہوں گے۔ وہ اپنے والدین کے بارے میں بھی سوچتے ہیں، جو شاید نہیں جا سکتے یا نہیں جانا چاہتے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو 40 کی دہائی میں ہیں، جو کہتے ہیں کہ ان کا سب سے بڑا افسوس یہ ہے کہ انہوں نے موقع ملنے پر ہندوستان نہیں چھوڑا۔
میں صرف اس لیے واپس رہنا چاہتا ہوں کہ میرا تعلق یہاں ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے 30 سال یہاں گزارے ہیں، اور یہ صرف یہی جگہ ہے جو میری سماجی بھوک کو پورا کرتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جبری اور رضاکارانہ نقل مکانی کتنی تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ ہر کوئی جسے میں جانتا ہوں یہاں رہتا ہے، میرے رشتہ دار، میرے دوست، وہ لوگ جن کی میں تعریف کرتا ہوں، وہ لوگ جن سے میں نفرت کرتا ہوں۔ یہ میری دنیا ہے. میں جانتا ہوں کہ جب دھوپ ہوتی ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے، میں جانتا ہوں کہ بارش ہونے پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں سے خود کو اکھاڑ پھینکنا اور ایسی جگہ جانا جہاں مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میں جاگنے پر کیسا محسوس کروں گا، ایک خوفناک سوچ ہے۔ مجھے واقعی نہیں لگتا کہ میں کوڑے سے پاک سڑکوں اور جدید ترین نکاسی آب سے حیران رہوں گا۔ میں دنیا کو سینیٹری انسپکٹر کی نظر سے نہیں دیکھتا۔
یہ ایک لمبی رات ہونے والی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کب جاگوں گا۔ لیکن میں صرف امید کرتا ہوں کہ جاگوں کا ایک ایسی صبح کےلئے جو انصاف کی ایک لمبی اور گرجنے والی بارش کے ساتھ نمودار ہوگی۔