انصاف نیوز بیورو
عجوبہ خاتون نامی پولس اہلکار کے سامنے ہاتھ جوڑ کراستدعا کررہی ہے اس کے مکان کو منہدم نہ کیا جائے ۔وہ کہاں جائیں گی مگر کہاں مظلوموں کی آواز سنتی ہے وہ تو صرف حکم کی غلام ہوتی ہے ۔ایسے تو 2016میں بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی بنگالی نژاد مسلمانوں کی زندگی کو دوبھر بنانے کی کوشش کی گئی ۔این آ رسی کے نام پر ہراساں کرنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد اب غیرقانونی قبضے کے نام پر دہائیوں سے مقیم مسلمانوں کے گھروں کو اجاڑا جارہا ہے۔گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہیمانت بسواس شرمانے 5ہزار سے زائد بنگالی نژاد مسلمانوں کے گھروں کو اجاڑدیا ہے۔مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ غیر مسلموں کے مکانات چھوڑ دئیے جاتے ہیں ۔صرف مسلمانوں کے مکانات ہی ان کے نشانے پر ہے۔
19 دسمبر کو بٹدربہ میں بے دخلی مہم کے دوران تباہ ہونے والی ایک مسجد۔ بشکریہ: اسکرول ڈاٹ کام
13دسمبر کو آسام کے ناگائوں ضلع میں بٹدرباسیڈفارم پر پہلے سیکڑوں پولس وردی والے مقیم ہوئے او ر ایک ہفتے فلیگ مارچ اور علاقے میں خوف وہراس کا ماحول بنانے کے بعد 22دسمبر چشم زدن میں چار گائوں جو بنگالی نژاد مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے۔
اس سے قبل نومبر 2022 میں ہوجائی ضلع میں لمڈنگ ریزرو جنگل کے قریب ایک بڑی بے دخلی مہم چلائی گئی تھی۔ 550 سے زیادہ خاندانوں کے گھر، جن میں سے زیادہ تر بنگالی نژاد مسلمان تھے، کو مسمار کر کے تقریباً 500 ہیکٹر رقبہ کو خالی کرایا گیا تھا۔ تقریباً 1000 سیکورٹی اہلکارموجود تھے۔دسمبر کے پہلے ہفتے میں ضلع بارپیٹا انتظامیہ نے تقریباً 70 سیلاب زدہ خاندانوں کو ضلع کے کھڈونابری گاؤں میں سرکاری زمین پر مبینہ طور پر تجاوزات کرنے پر بے دخل کردیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے مکانات توڑے گئے ہیں سبھوں کے نام این آرسی میں شامل ہیں ۔یعنی وہ ہندوستانی شہری ہیں ۔
75 سالہ آمنہ خاتون اپنے گھر کے ملبے کے باہر جہاں وہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے ہیدوبی گاؤں میں مقیم تھیں۔ خاتون نے کہا کہ ان کا گھر 2012 میں اندرا آواس یوجنا کے تحت بنایا گیا تھا، جسے اب پردھان منتری گرامین آواس یوجنا کے نام سے جانا جاتا ہے، سرکاری زمین پر ہے۔ بشکریہ: اسکرول ڈاٹ کام
22دسمبر کو بارپیتا کے کنارا سترا میں تقریباً 400 بیگھہ سرکاری اراضی کو خالی کرانے کےنام پر تقریباً 40 خاندانوں کو بے دخل کر دیا گیا تھا۔ جن لوگوں کے گھروں کو خالی کرایا گیا ہے وہ خاندان70 سے 80 سال سے وہاں مقیم ہیں اور ان میں سے اکثریت حکومت کو مطلوبہ ٹیکس ادا کر رہی تھی۔ مسمار کرنے کی مہم آسام کے تمام مسلم اکثریتی اضلاع میں چل رہی ہے۔ بے دخلی کے زیادہ تر متاثرین گزشتہ 70-80 سالوں سے اپنی زمینوں پر قابض ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ کسان تھے جنہوں نے دریا کے کٹاؤ کی وجہ سے چار علاقوں (برہم پترا ریورائن آئی لینڈ) میں اپنی زمینیں کھو دی تھی۔ انہوں نے آس پاس کے علاقوں کی خالی زمینوں پر اپنی زندگی دوبارہ بسر کررہے تھے ۔کممبراسمبلی شرمن علی نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کی تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔