Friday, October 18, 2024
homeخصوصی کالمعمر گوتم کے خلاف تبدیلی مذاہب کے الزامات :آخرپندرہ...

عمر گوتم کے خلاف تبدیلی مذاہب کے الزامات :آخرپندرہ دنوں میں پولس کو کیاشواہد ہاتھ لگے

فرحانہ فردوس
(اسکرول ڈاٹ ان اور دیگر اخبارات کے شکریہ کے ساتھ)

null
16 جون کو‘ محمد عمر گوتم‘ کو اتر پردیش کے غازی آباد کے مسوری پولس اسٹیشن نے پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا،گوتم اگلی صبح پولس اسٹیشن پہنچ گئے،دیر رات وہ گھر واپس آئے۔ان کی اہلیہ رضیہ عمر کے بقول انہوں نے تفتیش سے متعلق کچھ خاص نہیں بتایا۔صرف یہ بتایا کہ 2012 اور 2013 میں قازقستان کے دوروں سے متعلق پولس نے معلومات حاصل کی ہے۔اس کے علاوہ کینیڈا کے اسلامی اسکالر بلال فلپس اور ہندوستانی اسلامی مبلغ ذاکر نائک جو اس وقت ملائشیا میں مقیم ہیں سے تعلق سے بات چیت کی ہے۔اگلے دن پولس نے عمر گوتم ایک فہرست بھیجی جس میں ان کے کنبہ کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات سے متعلق معلومات شامل تھی اور پاسپورٹ کے ساتھ 19 جون کو اسٹیشن میں رپورٹ کرنے ہدایت دی۔ 19جون کو وہ پولس اسٹیشن گئے مگر گھر نہیں آئے۔51 سالہ”رضیہ عمر“ نے بتایا کہ ہمیں کئی دنوں تک معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہے۔پولس کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ان پر ہزاروں افراد کو تبدیلی مذہب کا الزام ہے۔انہوں نے کہاکہ ’ہمیں اس بات کا کوئی سراغ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ہمیں اتوار 20 جون کو ایک دوست کے ذریعے پتہ چلا تھا کہ لکھنو اے ٹی ایس (انسداد دہشت گردی اسکواڈ)ان سے پوچھ تاچھ کررہی ہے۔ہمیں یقین تھا کہ انہیں رہا کردیا جائے گا۔لیکن 57 سالہ گوتم اتوار کو بھی گھر نہیں لوٹے تھے۔ پیر کی صبح جب رضیہ عمر نے ٹیلی ویژن کھول کر دیکھا کہ تمام نیو ز چینلوں پر ان کے شوہر کی تصویر کے ساتھ نیوز آرہی ہے۔جس میں یہ دعویٰ کیا جارہا تھا کہ پولس نے ایک بڑے کینگ کا پردہ فاش کیا ہے جو ہزاروں افراد کو روپے کی لالچ دے کر مسلمان بنایا ہے۔نیوز چینل پر یہ خبر گردش کررہی تھی کہ عمر گوتم اور ان کے ساتھی مفتی قاضی جہانگیر قاسمی کو اترپردیش پولس کے ”انسداد دہشت گردی اسکواڈ“ نے ریاست کی غیر قانونی تبدیلی کی مذہب ایکٹ، 2020 کے سیکشن کے تحت، ہزاروں افراد کو غلط بیانی، طاقت اور دھوکہ دہی کے ذریعہ مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔22 جون کووزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کو ملزمان پر”قومی سلامتی ایکٹ“(این ایس اے) نافذ کرنے کی ہدایت دی ہے۔
https://youtu.be/ZnghczBkJgs
نیو ز پورٹل”اسکرول ان“کے رپورٹر کو اترپردیش پولس کے افسران نے بتایاتفتیش جاری ہے اور وہ ابتدائی نتائج کے بعد بھی شواہد اکٹھا کررہے ہیں۔ اتر پردیش میں امن و امان کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پرشانت کمار نے کہاکہ ”ہم ابھی بھی گرفتار دو افراد سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں“۔کمار نے دعویٰ کیا کہ یہ دونوں جبریہ طور پر اور شادیوں کی لالچ دے کر لوگوں کے مذہب کو تبدیل کیا ہے۔پولس نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک بہت بڑا ریکیٹ برآمد کیا ہے جس میں بیرون ملک اور ملک کے اندررقم لی ہے۔

ایف آئی آر میں کیا ہے؟
20 جون کو درج پہلی انفارمیشن رپورٹ کے مطابق اسکواڈ کو کچھ عرصے سے یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ ”ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر“اور مذہبی تنظیمیں دیگر غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بین الخدمت انٹلیجنس ایجنسی سے حاصل کردہ فنڈز کا استعمال کرکے ہندوستان میں لوگوں کو اپنے آبائی مذہب سے اسلام میں تبدیل کررہے ہیں۔ ایف آئی آر کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک کی آبادی کو تبدیل کرنے اور مذہبی گروہوں کے مابین دشمنی پیدا کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔اس میں مزید یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ یہ افراد اور تنظیمیں خاص طور پر بچوں، خواتین، شیڈول ذات اور شیڈول ٹرائب اورمغدور افراد کودھمکیوں، روپے اور ملازمت کی لالچ اور روپے دینے کے جھوٹے وعدے کرکے اسلام قبول کرارہی ہے۔ایف آئی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمر گوتم نے مبینہ طور پر اعتراف کیا کہ اس نے ہزاروں افراد کو اسلام قبول کیا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی شادی کا اہتمام کیا ہے۔ ایف آئی آر میں الزام ہے کہ گوتم کی تنظیم اسلامی دعو ت سنٹر کو بیرون ملک سے ایک بہت بڑا فنڈ ملا تھا۔ ایف آئی آر کا دعویٰ ہے کہ قاسمی، جو گوتم کے ساتھیوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں، غیرقانونی طور پر تبدیلی مذہب اور شادی کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ایف آئی آر میں مزید الزام عائد کیا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ کی نوئیڈا یونٹ کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماعت سے معذور بچوں کے رہائشی اسکول نوئیڈا ڈیف سوسائٹی کے کمزور طلباء کو لالچ دے کر اسلام قبول کرایا گیا ہے۔لیکن یہ معلومات کن ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں اس سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ اترپردیش کے کانپور سے تعلق رکھنے والے ایک سابق طالب علم آدتیہ گپتا کے اہل خانہ نے شکایت درج کرائی کہ مذہب کی تبدیلی کے بعد اسے جنوبی ہندوستان کی ایک ریاست میں لے جایا گیا۔ہریانہ کے گروگرام سے تعلق رکھنے والے ایک اور طالب علم منن یادو کے اہل خانہ نے بھی الزام لگایا کہ ان کی معلومات یا رضامندی کے بغیر اسلام قبول کرایاگیا ہے۔ایف آئی آر میں گوتم اور قاسمی کے خلاف تبدیلی مِذہب کی ان دونوں مثالوں کو پیش کیا گیا ہے۔جب کہ ایف آئی آرمیں نوئیڈا ڈیف سوسائٹی اور عمر گوتم کے درمیان تعلقات کے کوئی ثبوت پیش نہیں کئے گئے ہیں۔اسکرول ڈاٹ کام نے نوئیڈا ڈیف سوسائٹی کی بانی روما روکا سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ میڈیا کو جاری ایک بیان میں سوسائٹی نے کہاکہ ہمارے مرکز میں کسی بھی مذہب کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔23 جون کو ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں، نوئیڈا ڈیف سوسائٹی کے ملازم منیش کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ”گرفتار ملزمان میں سے کوئی بھی کبھی بھی سوسائٹی کا دورہ نہیں کیا۔اخباری رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ کے دو سابق اساتذہ مذہب تبدیلی کے معاملے میں پولس کے رڈار پر ہیں۔کانپور سے تعلق رکھنے والے طالب علم کے اہل خانہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ رمضان کے دوران وہ شام کو ہی کھاتا تھا۔ اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ جب ان سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس لڑکے نے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کی عمر 24سال ہے۔اہل خانہ نے میڈیا کو بتایا کہ وہ 10 مارچ کو اپنا گھر چھوڑ کر چلاگیا تھا اور 20 جون کو واپس آگیا۔

پولس کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ پولس کو اب تک عمر گوتم اور قاسمی کے خلاف مذہب تبدیلی معاملے میں کوئی خاص ثبوت نہیں ملے ہیں جس کوبنیاد بناکر ان کے خلاف کیس کو مضبوط کیا جاسکے۔لکھنو میں ہندوستانی پولیس سروس کے سابق افسر اور سماجی کارکن ایس آر داراپوری نے کہاکہ دو طالب علموں کے تبدیلی مذہب معاملے میں عمر گوتم اور قاسمی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔صرف اندازے اور شک کی بنیاد پر کیس بنایا گیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اب تک پولس کو غیر ملکی فنڈنگ اور آئی ایس آئی سے روابط سے متعلق اب تک کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پولس کے سامنے ملزم کے اعتراف کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔اگر کوئی پولس کے سامنے اعتراف کرتا ہے تو یہ عدالت میں ثبوت کے طور پر ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولس نے پہلے اسکرپٹ تیار کیا ہے اور خالی جگہیں بھر رہے ہیں۔پولس آفیسر پرشانت کمار نے کہا کہ پولس کے پاس ”بنیادی ثبوت“ موجود ہیں۔اس معاملے میں وکلاء کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں انسداد تبدیلی قانون کے جو سیکشن لگائے ہیں وہ قابل اعتراض ہیں۔ دہلی میں مقیم ایک وکیل، نتیکا کھیتان کا کہنا ہے کہ انسداد تبدیلی قانو ن میں جو دفعات لگائے گئے ہیں ان میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگنے کی وجہ سے تنقید کی جارہی ہے ۔اس قانون کو گزشتہ سال آرڈیننس کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور فروری میں اس کو ایکٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ قانون کے تحت جو شخص مذہب کی تبدیلی کا خواہاں ہے،اسے مذہب کی تبدیلی کیلئے ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لینی ہوگی۔اس قانون میں خاص طور پر بین المذاہب شادیوں پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔قانون میں کہا گیا ہے تو اگر کوئی شادی کی وجہ سے مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس شادی کو ہی غیر قانونی قرار دیدیا جائے گا۔اگر تبدیلی مذہب کے پیچھے لالچ، طاقت کا ناجائز استعمال کار فرما رہا تو اس تبدیلی مذہب پر کارروائی کی جائے گی۔قانون میں وضاحت کی گئی ہے کہ اگر تبدیلی مذہب تحفہ، کسی بھی تعلیمی ادارے میں ملازمت یا پھر مفت تعلیم، بہتر زندگی کی پیش کش کی بنیاد پر کرائی گئی ہے تویہ قابل تعزیر ہو۔ایسی صورت میں تبدیلی مذہب کرنے والے افراد کو ایف آئی آر درج کرانے کی اجازت ہوگی۔ اس طرح کے جرائم کی سزا کم سے کم پانچ سال تک ہوسکتی ہے۔اگرتبدیلی مذہب شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب سے تعلق رکھنے والے افراد کی صورت میں یہ سزا دس سال تک کی ہوسکتی ہے۔ناقدین اور قانونی ماہرین اس قانون کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ ایڈوکیٹ طلحہ عبدالرحمٰن جو ایک ایکٹ بننے سے قبل آرڈیننس کو چیلنج کرنے والی درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے وکلا میں شامل ہیں کہتے ہیں قانون کو جان بوجھ کر پھیلایا گیا ہے اور اس کی دفعات میں کسی جرم کے الزامات عائد کرنے والوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی ہے۔رحمان نے مزید کہا کہ قانون سازی ناگوار ہے کیونکہ ضلعی مجسٹریٹوں کو اضافی اختیارات دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ معاشرتی جمود کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔جولوگ ذات پات کی درجہ بندی سے نکلنا چاہتے ہیں ان کی راہیں مسدود کردی گئی ہے۔اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔مگر الہ آباد ہائی کورٹ میں یہ معاملہ زیر التوا ہے۔داراپوری کہتے ہیں کہ یہ کوئی اتفاق ہی ہے کہ عمر گوتم اور قاسمی کی تبدیلی مذہب انسداد قانون کے تحت ایسے وقت گرفتار کیا گیا ہے کہ جب ریاست میں انتخابات کو چند مہینے رہ گئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ سب بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
تفتیش کا آغاز کیسے ہوا؟
ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گوتم کا نام اس وقت سامنے آیا جب مسوری پولس اہلکار473/2021.نمبر کیس میں کچھ افراد سے پوچھ گچھ کررہے تھے۔3جون کو انیل یادو نامی ایک شخص نے درج کرایا تھا۔اس بنیاد پر وِپول وجے ورگی اور کاشی گپتا یا کاشف کوگرفتار کیا گیا۔ان دونوں پر دھوکہ دہی کے ذریعہ مذہب تبدیل کرانے ،عبادت خانوں کی توہین اور مذہبی جذبات بھڑکانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان افراد نے 2 جون کی شب غازی آباد میں ڈسنا دیوی کے مندر میں داخل ہونے کے لئے اپنی جعلی شناخت بنائی،رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے شکایت کنندہ یہ یقین کرنے پر مجبور ہے کہ یہ لوگ وہاں مندر کے سپریم پجاری یتی نارسنگنند سرسوتی کو قتل کرنے کے لئے آئے تھے۔
سرسوتی اپنے شرپسندی اور مسلم دشمنی کی وجہ سے مشہورہے۔ اس نے یکم اپریل 2021کو پریس کلب آف انڈیا میں منعقد ایک پروگرام میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اشتعال انگیز تبصرے کیے تھے۔ دہلی پولیس نے 3 اپریل کو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی لیکن اس سے تفتیش 20جون کو ہوئی ہے۔
تاہم محمد عمر گوتم اور مولانا قاسمی کے خلاف درج ایف آئی آر میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ ورگی اور گپتا کے ساتھ ان دونوں کا تعلق ہے۔ان سے پوچھ تاچھ سے کن بنیادوں پر ان دونوں کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔
عمر گوتم کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ کاشی گپتا کو نہیں جانتے، لیکن ایک بار ورگی سے مل چکے ہیں۔ رضیہ عمر نے کہاکہ میرے شوہر وی پول کو براہ راست نہیں جانتے ہیں، وہ کسی اور کے ذریعے اس سے ایک مرتبہ مل چکے ہیں۔
تبدیلی مذہب کی حقیقت
عمر گوتم کی اہلیہ رضیہ عمر اپنے شوہر پر لگائے جارہے الزامات کہ طاقت اور لالچ کے ذریعہ ان کے شوہر نے اسلام قبول کرایا ہے کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ گوتم نے 2010 میں اسلامی دعو ت سنٹر کا آغاز کیا تھا۔ غریبوں میں راشن اور کمبل تقسیم کرنے جیسے رفاہی کام کے علاوہ یہ تنظیم نے ان لوگوں کی مدد کرتی ہے جو تبدیلی مذہب کا سرٹیفکٹ بنانا چاہتے ہیں ۔یہ سرٹیفکٹ پاسپورٹ میں نام تبدیل کرنے اور بالخصوص حج پر جانے کےلئے ضرورت پڑتی ہے۔رضیہ عمر کہتی ہیں کہ بیرون ممالک سے کوئی بھی رقم موصول نہیں ہوئے ہیں ۔جب کہ اسی معاملے میں گرفتار مفتی جہانگیر قاسمی ایک رجسٹرڈ ادارہ سے تعلیم یافتہ ہے اور مذہبی لیڈر ہیں ۔اس پورے معاملے میں ان کے اہل خانہ کی جانب کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے اور نہ وہ کسی فون کال اور نہ ہی ایس ایم ایس کا جواب دے رہے ہیں ۔
دعوت سنٹر شروع کرنے سے قبل عمرگوتم نے آسام میں واقع ایک غیر منافع بخش تنظیم مرکزالمعارف میں پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر 15 سال کام کیا ہے۔مرکز المعارف آسام سے ممبر پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل کا قائم کرد ہ ادار ہ ہے۔عمر گوتم نے اتراکھنڈ میں جی بی پینٹ یونیورسٹی آف زراعت سے تعلیم حاصل کی ہے اور 1999 میں دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کی ہے۔
اس کیس کو نیوز چینلز پر پرائم ٹائم کوریج ملی ہے، اینکروں نے پولیس کے ورژن کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ گوتم اور قاسمی کی گرفتاری کی ویڈیوز مسلسل چلائیں۔ زی نیوز کے اینکر سدھیر چودھری نے یہاں تک کہ ان لوگوں کے نام اور پتے جیسی تفصیلات بھی ظاہر کیں۔جب کہ یہ اخلاقی جرم ہے۔ان لوگوں کی تفصیلات عام کیں جنہوں نے تبدیلی مذہب کی تھی اور یہاں سے سرٹیفکٹ حاصل کیا تھا۔بغیر ثبوت کے دعویٰ کیا کہ ان سب کو لالچ دے کر تبدیلی مذہب کرایا گیا ہے۔تاہم پرنٹ میڈیا کے ایک چھوٹے حلقے نے اس پورے معاملے میں پولس کے دعویٰ میں خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔
’’تبدیلی مذہب کرنے والوں کی تلاش‘‘
کچھ اطلاعات کے مطابق’’انسداد دہشت گردی اسکواڈ ‘‘نے محمد عمر گوتم اور مولانا جہانگیر قاسمی کے ہاتھوں مبینہ طور تبدیلی مذہب کرنے والوں کی تلاش کی ۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پرشانت کمار نے 25 جون کو ٹائمز آف انڈیا کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پولس نے ان دونوں سے پوچھ تاچھ کے ذریعہ ایک فہرست بنائی ہے ۔25 جون کو ٹائمز آف انڈیا میں شائع خبر کے مطابق پولس نے عبدالصمد نامی شخص کی تلاش کی ۔اترپردیش کے سہارن پور ضلع کے شتلہ کھیدا گائوں میں عبد الصمد پروین کمار کے طور پر سامنے آئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پروین کمار نے صاف صاف انکار کردیا کہ اس نے تبدیلی مذہب کی ہے۔اس نے پولیس کو دو کتابیں دکھائیں جو انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی کامیابیوں پر تصنیف کی ہیں۔
پروین کمار نے کہا کہ میں نے پولس کو صاف واضح کردیا کہ نہ میں نے تبدیلی مذہب کی ہے اور نہ مجھے کسی نے مجبور کیا ہے۔’ انہوں نے کہاکہ میں ہندو ہوں اور ہمیشہ سے رہا ہوں،” انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک شوگر مل میں ڈیولپمنٹ آفیسر اور پی ایچ ڈی اسکالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا نام بھی بیرون ملک سے رقوم لینے کے لئے شامل کیا جارہا ہے ۔
اترپردیش کے پولس عہدیدار یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ پروین کمار سے متعلق اتنے بڑے دعوے کیوں کئے گئے اور اس کی بنیاد کیا تھا۔پرشانت کمار نے دعوی کیاکہ ہم ان تمام چیزوں کی جانچ کریں گے جو سوشل میڈیا پر آرہی ہیں، لیکن ہمارے پاس بنیادی ثبوت موجود ہیں۔
ٹائمس آف انڈیا کے مطابق فہرست میں شامل دیگر افراد کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی سال قبل ہی اسلام قبول کرلیا تھااور یہ بغیر کسی دبائو کے کیا ہے۔اسی طرح کے ایک شخص نے مدھیہ پردیش کے کھر گائوں سے تعلق رکھنے والے ابراہیم خان نامی شخص نے بتایا کہ اس نے 1998 میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ ایک انشورنس ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور گذشتہ سال حج پر جانے کے لئے ایک سند حاصل کرنے کے لئے اسلامی دعوت مرکز سے رابطہ کیا تھا، مکہ، سعودی عرب میںحج پر جانے کےلئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔پولس کی فہرست میں بہار کے پٹنہ سے تعلق رکھنے والی غزالہ نام کی ایک 42 سالہ خاتون بھی شامل ہے۔اس نے 1999میں ہی اسلام قبول کیا تھا۔غزالہ نے میڈیا اہلکاروں کو بتایا کہ غیر ضروری طور پر ان کے نام کو گھسیٹا جارہا ہے۔اسی فہرست میں شامل 35سالہ عبداللہ احمد نے کہا کہ وہ اسی سال فروری میں سرٹیفکٹ کے حصول کےلئے دعوت سنٹر سے رجوع کیا تھا۔جب کہ اس نے 2016میں مجسٹریٹ کے سامنے جاکر مذہب تبدیل کیا تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=30TjqRxNYQY
محمد عمر گوتم کا کنبہ پریشان
محمد عمر گوتم کی گرفتار ی کے بعد سے ہی ان کے اہل خانہ پریشان ہیں ،اوکھلا کے بٹلہ ہائوس میں واقع رہائش گاہ میں ان کے بچے پرانی فائلوں اور دستاویز کی مدد سے قزاقستان دوروں کی تفصیل سے میڈیا کو آگاہ کررہے ہیں ۔کہ قزاقستا ن کا دورہ انہوں نے کیوں کیا تھا ۔ایک بین المذاہب فورم، کانگریس آف لیڈر آف ورلڈ اینڈ ٹریڈیشنل مذاہب کانگریس کی دعوت پر دارالحکومت، آستانہ گئے تھے۔
عمر گوتم کی اہلیہ اپنے شوہر اور خود کے مسلمان ہونے کی کہانی سے آگاہ کرارہی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ’’ہم مکمل طور پر پریشان ہیں، ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہی ہوسکتا ہے۔گوتم اور اس کی اہلیہ دونوں اترپردیش کے فتح پور میں ہندئوں کے اعلی ذات والے ٹھاکر خاندانوں میں پیدا ہوئے ۔ گوتم نے 20 سال کی عمر میں 1984 میں اسلام قبول کیا تھا۔ رضیہ کا پہلے سے ہی گوتم سے تعلق تھا1985 میں شادی کے بعد وہ بھی عمر گوتم کی طرح قبول اسلام کرلیا۔انہوں نے کہا، ”قانون ہمیں کسی بھی مذہب میں جانے کا حق دیتا ہے۔”
انہوں نے کہا، ”ہماری شادی ہندو رسموںرواج کے مطابق ہوئی تھی تھی اور اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔جب ہماری شادی ہوئی تو میرے سسرال والوں نے میرے لئے ایک مندربناکردیا لیکن بعد میںنے مذہب تبدیل کرلیا اور اس سے میرے خاندان کو کوئی فرق نہیں پڑا ہے ۔ہمارے تبدیلی مذہب کے باوجود خاندان کے ساتھ تعلقات ہیںمگر اب عمر گوتم کی گرفتاری کے بعد ہمارے خاندان کے افراد پریشان ہیں ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین