کلکتہ : انصاف نیوز آن لائن
مرشدآباد فرقہ وارانہ فسادات کو لے کر نیشنل میڈیا کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں نے ہندئوںکو ٹارکٹ کلنگ کیا ہے۔ اورجان بوجھ کر ہندئوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اس کے بعد مرشدآباد میںمختلف علاقے میںبی ایس ایف کے فوجی چھائونی کو قائم کرنے کی وکالت کی گئی ہے۔مرکزی حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ بنگلہ دیشی دراندازوں کی یہ سازش ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت نے اس پیشگی جانکاری کو ریاست کے شیئر کیا تھا۔اب فیکٹ فائنڈنگ مشن نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مرشدآباد میں فرقہ وارانہ تشدد جس میں تین افراد کی موت ہوگئی تھی صرف فرقہ وارانہ تصادم یا امن و امان کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ گہری منظم، سیاسی طور پراس کو آرگنائز کیا تھا ۔جس کا مقصد مذہبی پولرائزیشن کیا گیا تھا ۔مرشدآباد تشدد ریاستی بے عملی اور پولیس کے جبرکی وجہ سے انتشار کی صورت حال پیدا ہوئی۔
18 اور 19 اپریل کو، ایک 17 رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم جس میں فیمنسٹ ان ریسسٹنس (FIR)، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس (APDR)، ناری چیتنا، سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے بنائی گئی کمیٹی (CRPP) اور گونو سونگرام مونچو (مرشد آباد) شامل تھے۔مرشدآباد کے تشدد زدہ علاقے کا دورہ کرنے کے بعدیہ پورٹ مرتب کی ہے ۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی پریس ریلیز میںبتایا ہے کہ مکمل رپورٹ ابھی مکمل ہونا باقی ہے ۔پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ متاثرین، عینی شاہدین، قریبی علاقوں کے مکینوں اور پولیس اور انتظامیہ کے نمائندوں سے بات کرنے کے بعد یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ11 اپریل کو ڈھولیاں کے گھوشپارہ میں وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک احتجاجی ریلی پر پہلے پتھرائو کیا گیا اور اس کے بعد ہی ریلی منتشر ہوئی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہجوم نے آس پاس کی دکانوں میں توڑ پھوڑکی، یہ ہندوؤں کی ملکیت والی دوکان تھی۔ ٹائروں کو آگ لگا دی گئی اور ایک ہندو کی ملکیت والی مٹھائی کی دکان کو بھی آگ لگائی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمشیر گنج پولیس اسٹیشن جو جائے وقوع محض چند منٹ کے فاصلے پر تھی وہ حالات کو قابو پانے کیلئے نہیں آئی ۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ جن تین گھروں سے پتھراؤ کیا گیا، ان میں سے ایک ہندوتوا تنظیم سے وابستہ کسی شخص کا تھا، جس نے حال ہی میںدھمکی آمیز ایک ویڈیو جاری کیا تھا اور باقی دو ان کے پیروکاروں کی ملکیت تھے۔مٹھائی کی دکان کے مالک نے ٹیم کو بتایا کہ توڑ پھوڑ کی اطلاع دینے کے باوجود پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ اگلے دن، اسے اور اس کے عملے کو بی ایس ایف کے اہلکاروں نے تھپڑ مارا جب انہوں نے مبینہ طور پر اپنی دکان بند کرنے کی کوشش کی۔ ٹیم نے اطلاع دی کہ چونکہ شٹر کھلا رہا، اس لیے دوسرے دن دوبارہ دکان لوٹ لی گئی۔
اسی دن ڈاک بنگلہ موڑ پر پرامن احتجاج اس وقت تشدد پر ختم ہوا جب نقاب پوش افراد نے ‘سری ہری ہندو ہوٹل پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی۔ انہوں نے ایک اور مٹھائی کی دکان پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی، لیکن علاقے کے مسلمان دکانداروں نے انہیں روک دیا اور ہندوؤں کی ملکیت کی دکان کی حفاظت کی۔
ٹیم کی ایک اہم دریافت یہ ہے کہ 11 اپریل کو تشدد پر قابو پانے میں انتظامیہ کی ناکامی نے افواہوں کے پھیلاؤ کو ہوا دی، جس سے کمیونٹیز کے درمیان دیرینہ پرامن بقائے باہمی کو توڑا گیا اور بداعتمادی کا بیج بویا گیا۔
ہائوس نگر میں رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ پولیس اور بی ایس ایف کے اہلکاروں کے لباس میں نقاب پوش افراد نے مسلم علاقوں میں گھروں پر چھاپہ مارا، بغیر کسی وارنٹ یا وضاحت کے 17-30 سال کے نوجوانوں کو اٹھا لیا۔ ان میں سے بیشتر کو حراست میں لے کر شدید مارا پیٹا گیا، ایک ہی علاقے سے حراست میں لیے گئے افراد کی مجموعی تعداد 274 تھی۔
12 اپریل کو رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شیو مندر بازار میں مسلمانوں کی ایک دکان کو جلا دیا گیا تھا۔ بیت بونا اور جعفرآباد میں بھی حملے ہوئے اور نقاب پوش افراد نے ہنگامہ آرائی کی۔ پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ک ممبران کو کئی لوگوں نے بتایا کہ تشدد پھیلانے میں مقامی کونسلر کا ہاتھ ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے لوگ خود کو بچانے کے لیے دریا پار کر کے مالدہ بھاگ گئے۔
رپورٹ میں ایک اور اہم نکتہ کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے کہ حملہ آور نقاب پوش تھے اور کسی نے بھی اس کی شناخت نہیں کی ہے اس کے باوجود پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر میں حملہ آور کو’’مسلم شرپسند عناصر‘‘کے طور پر شناخت کیا گیا ہے قرار دیا گیا۔ متاثرین نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کے پاس بم اور تلواریں تھیں۔
اسی طرح کے حملے جعفرآباد میں ہوئے، جہاں باپ اور بیٹے، ہرگوبندو داس اور چندن داس کا گلہ کاٹ کر ہلاک کردیا گیا ۔فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی ٹیم کو رہائشیوں نے بتایا کہ جب تشدد 3-4 گھنٹے تک جاری رہا، پولیس کو پہنچنے میں پانچ گھنٹے لگے – حالانکہ جائے وقوعہ اسٹیشن سے صرف آٹھ منٹ کی دوری پر تھا۔
نقاب پوش افراد نے ٹارگٹڈ حملے کررہے تھے۔رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ وقف قوانین کے خلاف احتجاج اور حملوں کے درمیان تعلق نظر نہیں آرہا ہے۔
سوتی پولیس اسٹیشن کے تحت سجور موڑ میں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقف کے احتجاج کی وجہ سے قومی شاہراہ 12 پر سڑک بلاک ہوگئی تھی اور پولیس کی فائرنگ سے قاسم نگر کے رہنے والے اعجاز احمد کی موت ہوگئی تھی۔ بنگال پولیس نے ابھی تک اس پر کوئی بات نہیں کی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترباگن میں جھڑپیں ہوئیں اور گولی لگنے سے ایک 12 سالہ لڑکا اور دو دیگر شدید زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فساد کے دوران مخلوط آبادی میں کسی کو بھی نقصان نہیں ہوا ہے۔جب کہ مسلمانوں او ر ہندئوں کے گھروں برابر نشانہ بنایا گیا ہے۔گھر کو اس طرح نشانہ بنایا یا ہے کہ دوسرا گھر اس کی زد میں نہیں آئے۔بی ایس ایف کے نام پر جعلی طور مسلمانوں کے گھروں کو چھاپہ مارا ۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالدہ کے بشناب نگر میں پرلال پور ہائی اسکول میں ایک سرکاری ریلیف کیمپ کا دورہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، ٹیم کو پولیس اور بی ایس ایف کے اہلکاروں نے مرکزی دروازے پر روک دیا اور کیمپ میں موجود لوگوں سے بات کرنےنہیںدیا گیاہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ممبران نے کہا کہ کئی علاقوں میں پارٹی ورکروں نے انہیں کام کرنے اور لوگوں سے بات کرنے نہیں دیا ۔ جعفرآباد میں، ہندوتوا تنظیم کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں نے انہیں دھمکیاں دیں۔رپورٹ میں اہم مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل عدم موجودگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ غلط معلومات اور افواہوں نے بھی مذہبی پولرائزیشن کو تیز کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں اصل متاثرین عام لوگ ہیں – ہندو اور مسلمان یکساں ہیں، جنہوں نے گھر، ذریعہ معاش، امن اور اعتماد کھو دیا ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سوالات
نے مرشدآباد تشدد کے واقعات پر کئی سوالات کھڑے کئے ہیں ۔لوگوں نے بتایا کہ ہم نہیں جانتے کہ ان حملوں کو کس نے منظم کیا اور پولیس اور انتظامیہ جان بوجھ کر غیر فعال رہی۔کمیٹی نے یہ سوال بھی کھڑا کیا ہے کہ بٹ بونہ ، جعفرآباد اورپرلال پور کے متاثرین کو کشتی کے ذریعے کیوں نکالنا پڑا؟فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو پرلال پور ریلیف کیمپ کا دورہ کرنے سے کیوں روکا گیا؟مسلم محلوں میں جہنم واصل کرنے والے یہ فرضی بی ایس ایف اہلکار کون ہیں؟پولیس وارنٹ یا میمو کے بغیر مسلم نوجوانوں کو کیوں اغوا کر رہی ہے؟
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے 11 اپریل سے تمام واقعات کی فوری اور آزادانہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کو متاثرہ علاقوں میں امن عمل کو فوری طور پر شروع کرنے اور معمولات کو بحال کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔کمیٹی نے تمام غیر قانونی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کی فوری اور غیر مشروط رہائی اور غیر قانونی گرفتاریوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو فوری طور پر معاوضہ دیا جانا چاہیے اور بے گھر ہونے والوں کو فوری طور پر بحال کیا جانا چاہیے۔ اس میں بربریت اور لاپرواہی میں ملوث پولیس اور بی ایس ایف اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔فائرنگ کے متاثرین کی شکایات کو قبول کرنے کے علاوہ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کو فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے کے لیے انتظامی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور ان دنوں ڈیوٹی پر موجود تمام افسران کے خلاف فوری طور پر انکوائری شروع کرنی چاہیے۔