Thursday, May 15, 2025
homeاہم خبریںہندتو کا معاشی ماڈل ناکامی کے دہانے پر--عالمی یوم مزدور کے موقع...

ہندتو کا معاشی ماڈل ناکامی کے دہانے پر–عالمی یوم مزدور کے موقع پر خصوصی پیش کش

جیسے جیسے عالمی معاشی نظام بدل رہا ہے اور مودی کے سیاسی منصوبے کو اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا ہے، ہندوتوا کے معاشی ماڈل کی صلاحیت بے نقاب ہوتی جارہی ہے۔

دیباشیس چکرورتی

نریندر مودی کی قیادت میں تشکیل پانے والا ہندوتوا کا معاشی ماڈل اپنے موروثی تضادات اور کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔مودی نے اپنے معاشی ماڈل کو ابتدائی دور میں (2014) جارحانہ نو لبرل ازم اور ثقافتی قوم پرستی کے امتزاج کے طور پر پیش کیا ۔مگر مودی کے معاشی ماڈل نے عدم مساوات، بے روزگاری اور سماجی بدامنی کو بڑھاوا دیتے ہوئے سرمایہ دار اشرافیہ کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ اس بحران کا سیاسی و معاشی تجزیہ ہندوتوا کی معاشی پالیسیوں کے ساختی خدوخال کو اجاگر کرتا ہے۔کارپوریٹ سرمائے سے مودی کے معاشی ماڈل کی وابستگی، غیر یقینی محنت پر انحصار، اور معاشی محرومی کو چھپانے کے لیے مذہبی قوم پرستی کا استعمال۔ عالمی معاشی تبدیلیوں اور مودی کے سیاسی ایجنڈے پر بڑھتے ہوئے اندرونی و بیرونی دباؤ کے باعث، ہندوتوا کے معاشی ماڈل کی حدود اب واضح ہو چکے ہیں۔

ہندوتوا کا معاشی ڈھانچہ، جو ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ جیسے نعروں کے ذریعہ پیش کیا گیا۔ بنیادی طور پر کرونی سرمایہ داری کے لیےمحض ایک آلہ کار ہے۔ مودی حکومت نے مبینہ طور پر اڈانی اور امبانی جیسے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی حمایت میں کاروبار نواز پالیسیاں نافذ کی، مزدوروں کے تحفظات کو کمزور کرتے ہوئے محض چند ہاتھوں میںدولت کے ارتکاز کو نمایا کیاں ہے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتی بے روزگاری، اجرتوں میں تعطل، اور غیر رسمی مزدوروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔اس صورت حال کو مارکسسٹ اصطلاح میں ’تصرف کے ذریعے جمع‘ کی کلاسیکی علامات سے منسوب کیا جاتا ہے۔

مودی کے دور حکومت میں میں جی ڈی پی کی بلند شرح نمو کے باوجود معاشی فوائد غیر مساوی طور پر تقسیم کئے گئے ۔ ملک کے محنت کش طبقےنے خصوصاً دیہی علاقوں میںقوت خرید میں کمی کا سامنا کیا۔ نوٹ بندی، اشیا و خدمات ٹیکس(GST) کی ناقص عملداری، اور کوویڈ-19 بحران سےنمٹنے میں ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے محنت کش طبقے میںقوت خرید میں کمی شدت اختیار کرلی۔صنعتی ترقی اور روزگار کو فروغ دینے کے بجائے، ہندوتوا معاشیات نے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ان حالت میں معیشت کا بڑا حصہ ڈی صنعت کاری کا شکار ہوا ۔

2020-21 کے کسانوںکے احتجاج نے ہندوتوا کی معاشی حکمت عملی کے تضادات کو مزید اجاگر کردیا۔ مودی حکومت کے تین زرعی قوانین زراعت کو کارپوریٹائز کرنے، ریاستی تحفظات ختم کرنے، اور کسانوں کو نجی سرمائے کاروںکے رحم و کرم پر چھوڑنے کی کوشش تھتی۔ یہ اقدامات نو لبرل معاشی نسخوں کے مطابق تھے، لیکن ان تین زرعی قوانین نے ایک وسیع بغاوت کو جنم دیا اور اس بغاوت کی قیادت زیادہ تر چھوٹے اور پسماندہ کسانوں نے کی۔ ان مظاہروں نے مودی کی معاشی پالیسیوں سے دیہی ہندوستان کی گہری بیگانگی کو عیاں کردیا ۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ ثقافتی قوم پرستی کے ذریعہ محنت کش طبقے کے جدو جہد کو محدود کرنے کی ہندتو قوتوں کے پاس صلاحیت نہیں ہے۔

ہندوتوا کے معاشی ماڈل پر مارکسی تنقید اجاگر کرتی ہے کہ مودی کی قیادت میں ریاست کس طرح بورژوازی کے مفادات کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ ہندو قوم پرستی کے ذریعے عوام کی توجہ ہٹاتے ہوئے، حکومت نے ایسی پالیسیاں نافذ کی ہیں جو چند منتخب سرمایہ داروں کے لیے دولت کے ارتکاز کی راہ ہموار کرتی ہے۔کسانو ں کے شدید مزاحمت کے بعد زرعی قوانین کو واپس لینا ایک نادر لمحہ تھا جب طبقاتی جدوجہد نے ہندوتوا کے غالب بیانیے کو چیلنج کیا۔

مودی کے دور میں، مہتواکانکشی دعوؤں کے باوجود ہندوستان کی عالمی معاشی حیثیت کمزور ہوئی ہے۔ ابتدائی طور پر چین کے مقابلے میں ابھرتی طاقت سمجھا جانے والا ہندوستان معاشی جمود، سفارتی ناکامیوں، اور آمرانہ رجحانات کے باعث عالمی فورمز پر پسپائی کا سامنا کررہا ہے۔ چین کے مینوفیکچرنگ متبادل کے طور پر ہندوستان کے اقدامات کرنے کا عہد ناکافی انفراسٹرکچر، نوکرشاہوں کی لاپروہی، اور غیر یقینی ریگولیٹری ماحول کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی، اور عالمی کمپنیاں ہندوستان کی غیر متوقع پالیسیوں سے محتاط ہوگئیں۔ ’میک اِن انڈیا‘ مہم ٹھوس صنعتی ترقی میں ناکام رہی، کیونکہ سرمایہ کار ویتنام اور انڈونیشیا جیسی مستحکم اور ہنرمند معیشت \راغب ہوگئیں۔بڑھتی معاشی عدم مساوات اور گہرے فرقہ وارانہ تقسیم نے ہندوستان کے طویل مدتی استحکام میں سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید کم کیا ہے۔
مودی کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے مغربی اتحادی جو کبھی ہندوستان کو چین کے مقابلے میں جمہوری متبادل سمجھتے تھے وہ وبھارت سے دور ہوگئے۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اختلاف رائے کی سرکوبی، اور ریاستی سرپرستی میں فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹس نے ہندوستان کی عالمی شبیہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ مودی QUAD جیسے اسٹریٹجک اتحادوں میں اہم رہے ہیں، ہندوتوا کی نظریاتی سیاست اور مغرب کے لبرل جمہوری اقدار کے درمیان بڑھتا ہوا نظریاتی تصادم واضح ہو رہا ہے۔

ہندوستان کو سرمایہ کاری کیلئے ایک پرکشش منزل کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں کے باوجود مودی کے تحفظ پسند معاشی اقدامات، جیسے ٹیرف میں اضافہ اور غیر ملکی ای کامرس کمپنیوںپر پابندی، نے اہم تجارتی شراکت داروں، بشمول ریاستہائے متحدہ اور یورپی یونین کو دور کر دیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کی سفارتی طاقت میں کمی آئی ہے۔ خاص طور پر نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔اس کی وجہ سے بھارت کے علاقائی اثر و رسوخ کو مزید کمزور کر دیاہے ہیں۔ مارکسی تجزیہ اس بحران کو ہندوستان کی منحصر سرمایہ دارانہ ترقی کے وسیع تر فریم ورک کے تناظر میں دیکھتے ہیں ، جہاں نو لبرل عالمگیریت پائیدار ترقی یا سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مودی کی سیاسی حکمت عملی کا مرکزی ستون مذہبی قوم پرستی رہی ہے، جو معاشی بدحالی کے باوجود عوامی حمایت کو مؤثر طریقے سے متحرک کرتی ہے۔ بڑے پیمانے پر مندر منصوبوں، مسلم مخالف بیانات، اور اقلیتوں کے خلاف جابرانہ پالیسیوں کے ذریعے، بھارتیہ جنتا پارٹی نےعوام کو پولرائز کیا ہے۔تاہم معاشی شکایات میں اضافہ کے بعد مودی کی سیاسی حکمت عملی کے کامیابی کے امکانات محدود ہورہے ہیں ۔

شہریت (ترمیمی) ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن (این آر سی) جیسی پالیسیوں کے خلاف ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ ہندوتوا کی ثقافتی سیاست طبقاتی تضادات کو غیر معینہ مدت تک دبا نہیں سکتی ہے۔ محنت کش طبقہ، مذہبی شناخت سے قطع نظر، معاشی مشکلات کا شکار ہے، جنہیں علامتی اشاروں یا فرقہ وارانہ پولرائزیشن سےبہت دنوں تک خاموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اپنی موجودہ شکل میں، ہندوتوا کوئی یک سنگی وجود نہیں ہے، بلکہ مختلف سماجی قوتوں کا اتحاد ہے، جس میں اعلیٰ ذات کے اشرافیہ، چھوٹے تاجر، اور شہری طبقہ شامل ہے۔معاشی بدحالی کے گہرے ہوتے ہی اس اتحاد کے اندر تضادات سامنے آرہے ہیں۔ او بی سی اور دلتوں کے درمیان عدم اطمینان کا ماحول پہ، جو بی جے پی کے ووٹروں کی بنیاد کا ایک اہم حصہ ہیں، خاص طور پر اہم ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی بدانتظامی کے خلاف چھوٹے تاجروں اور متوسط ​​طبقے کے ہندوؤں کی طرف سے حالیہ ردعمل ہندوتوا کی حمایتی بنیاد کے اندر اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے آغاز کا اشارہ دیتا ہے۔

جیسے جیسے ہندوتوا کا معاشی ماڈل کمزور پڑ رہا ہے، مودی حکومت نے تیزی سے آمرانہ اقدامات کا سہارا لیا ہے – پریس کی آزادی کو کنٹرل کرنے کی کوشش ، اختلاف کرنے والوں کو گرفتار کرنا، اور مبینہ طور پر انتخابی عمل میں ہیرا پھیری کرنا۔ صحافیوں سے لے کر مزدور کارکنوں تک اپوزیشن کی آوازوں کو دبانا ایک ایسی حکومت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اپنی گرتی ہوئی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتی ہے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے جمہوری طریقے کو ترک کرنے پر آمادہ ہے۔ہندوتوا کی رفتار کا ایک مارکسی اندازہ بتاتا ہے کہ جیسے جیسے معاشی بحران بڑھتا جائے گا، ریاست عوام کے رائے کا احترام کرنے کے بجائے جبر پر زیادہ انحصار کرے گی۔ ریاستی اداروں کو منظم طریقے سے کمزور کرنے کے ساتھ انتخابی اکثریت پسندی سے آمریت کی طرف منتقلی پہلے ہی جاری ہے۔

ہندوتوا کی بالادستی کے باوجود، مزاحمتی تحریکیں – کسانوں سے لے کر طلباء اور مزدور یونینوں تک – اس کی حکمرانی کو چیلنج کرتی رہیں۔ محنت کش طبقہ غیر فعال شکار نہیں ہے بلکہ ہندوستانی سیاست کے مستقبل کی تشکیل میں ایک سرگرم رول ادا کرہے ہی۔ اگر ترقی پسند قوتیں مؤثر طریقے سے ایک متبادل معاشی نظریہ پیش کر سکتی ہیں تو اقتدار پر ہندوتوا کی گرفت کمزور ہو سکتی ہے۔ہندوتوا کے معاشی ماڈل کی ناکامی سماجی انصاف کے لیے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حزب اختلاف اس لمحے سے فائدہ اٹھائے گی، یا ہندوتوا اس سے بھی زیادہ جابرانہ شکل اختیار کرے گا؟ سرمائے اور محنت کے درمیان، آمرانہ قوم پرستی اور جمہوری مزاحمت کے درمیان جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ہندوتوا کا معاشی بحران کوئی الگ تھلگ نہیں بلکہ ایک ساختی ناگزیر ہے۔ اس کی نو لبرل پالیسیوں نے طبقاتی تضادات کو بڑھا دیا ہے جبکہ مذہبی قوم پرستی پر اس کے انحصار کو کم ہوتے ہوئے نتائج کا سامنا ہے۔

مودی کی گرتی ہوئی عالمی حیثیت ہندوتوا کی طویل مدتی عملداری کو مزید کمزور کرتی ہے۔ ہندوستان کے سامنے انتخاب بالکل سخت ہے: خارجی قوم پرستی اور معاشی اشرافیہ کے راستے پر چلتے رہیں یا ایک نیا ترقی پسند متبادل بنائیں۔ معاشی انصاف اور سماجی آزادی کی جدوجہد ہمارے دور کا واضح چیلنج ہے۔

بشکریہ دی ٹیلی گراف
دیباشیس چکربرتی ایک سیاسی مبصر اور کامن ویلتھ فیلو (یو کے) ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین