بنگلور(انصاف نیوز آن لائن)
روتی اور بلکتی مسلم لڑکیاںکالج کے پرنسپل کے سامنے گڑگڑا کر درخواست کررہی ہیںکہ صرف اس وجہ سے وہ حجاب پہنے ہوئے ہیں اس لئے انہیں کالج میں داخل ہونے سے نہیں روکا جائے۔امتحانات کو محض دو مہینے باقی ہیں اگر انہیں کلاسیس کرنے نہیں دیا گیا تو ان کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔
کالج کے پرنسپل نے حجاب پہننے کی وجہ سے ان لڑکیوں کو کالج میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
اس واقعہ پر سابق مرکزی وزیر و کیرالہ سے ممبر پارلیمنٹ ششی تھرور نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ہندوستان کی طاقت رہی ہے کہ ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق لباس اور کھانے کا انتخاب کرتا تھا۔اگر حجاب کی اجازت نہیں تو سکھوں کی پگڑی کا کیا ہوگا؟ ہندو کی پیشانی پر نشان؟ عیسائی کی مصلوب؟ تعلیمی ادارے روبہ زوال ہیں ۔انہوں نے لکھا ہے کہ لڑکیوں کو اندر آنے دو انہیں پڑھنے دو۔ انہیں فیصلہ کرنے دیں۔
کرناٹک میں اس طرح کا یہ دوسرا واقعہ ہے ۔اس سے قبل یکم جنوری کو اڈپی میں طالبات کو کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
کالج کے داخلی دروازے پر حجاب پہنے طالبات کے ایک گروپ کو روکنے کے چند گھنٹے بعد، ریاستی حکومت نے جمعرات کو کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ تعلیمی ادارے دو برادریوں کے درمیان جنگ کا میدان بن جائیں۔کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے کہا کہ تعلیمی ادارے ایک مقدس مقام ہیں اور ہر طالب علم کو برابر محسوس کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ نہیں چاہتے ہیں کہ تعلیمی ادارے دو برادریوں کی جنگ کا میدان بن جائیں۔ یہ ایک مقدس جگہ ہے اور ہر طالب علم کو مساوات کا احساس ہونا چاہیے۔ ہم نے واضح موقف اختیار کیا کہ یہ اداروں کے احاطے میں نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی حکومت ایک کمیٹی بنائے گی جو اگلے تعلیمی سال تک حتمی رپورٹ دے گی اور ریاست اس پر سخت موقف اختیار کرے گی۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان میں کئی لڑکیاں پہلے حجاب نہیں پہنتی تھی ۔اب پہننے پر اصرار کررہی ہیں۔
کرناٹک کے دیگر کالجوں میں بھی حجاب کی مخالفت کاانتظامیہ کی جانب سے شروع ہوگیاہے۔ اب ایسی ہی خبر کنڈا پورہ کے کالج سے آئی ہے اور وہاں کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ کرناٹک کی زیادہ تر کالج کمیٹیوں میں ریاست کی حکمراں جماعت کے ایم ایل اےہیں۔ کالج پرنسپل کا کہنا ہے کہ انہیں بی جے پی ایم ایل ایز کی بات مان کر کالج میں حجاب پر پابندی لگانی پڑ رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ حجاب پر پابندی کا تعلق پانچ ریاستوں بالخصوص یوپی انتخابات سے نہیں ہے، کیونکہ اگر یوپی یا دیگر ریاستوں میں حجاب کی حمایت میں تحریک چلی تو بی جے پی کو یوپی کو پولرائز کرنے کا ہتھیار مل جائے گا۔ یوپی میں بی جے پی کو ایس پی سے براہ راست مقابلہ میں سخت چیلنج کا سامنا ہے-
کر کالج کے پرنسپل رام کرشنا نے خود طالبات کو روکا اور ان سے کہا کہ اگر وہ کلاس رومز کے اندر حجاب پہننے کا ارادہ رکھتی ہیں تو کلاس میں نہ آئیں۔ اس کے بعد طالبات نے یہ جاننے کی مانگکی کہ اچانک حجاب پہننے پر پابندی کیوں لگائی گئی۔ کیونکہ پہلے ایسا کوئی اصول نہیں تھا۔ طالبات نے دلیل دی کہ وہ کافی عرصے سے حجاب پہن کر کالج آ رہی ہیں اور انہیں اجازت دی جانی چاہیے۔ لیکن اسے داخلے سے منع کر دیا گیا تھا۔
رام کرشنا نے طالبات سے کہا کہ وہ انہیں تعلیم کے حق سے محروم نہیں کر رہے ہیں، بلکہ وہ کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے چیئرمین اور کنڈا پور کے ایم ایل اے ہلدی سرینواس شیٹی کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔ پرنسپل نے کہا کہ شیٹی نے انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ کسی بھی قسم کے اضافی لباس کی اجازت نہ دیں۔
واضح رہے کہ بھدراوتی کے ایم وی گورنمنٹ کالج میں اسی طرح ’بھگوا گمچھا‘پہن کر حجاب کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ شیموگا ضلع کے بھدراوتی میںایم ویسویشورایا گورنمنٹ آرٹس اینڈ کامرس کالج میں بدھ کو کچھ ہندو طلباء نے مسلم طالبات کے حجاب پہنے کی مخالفت کرہوتے ہوئے بھگوا شال میں کلاس روز میں حصہ لیا۔ احتجاج کرنے والے طلبہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حجاب اور برقعے کی اجازت ہے تو کلاس رومز میں زعفرانی شالیں بھی لے جانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
اس کا کنکشن انتخابات سے ہے
کرناٹک میں حجاب کے احتجاج میں اچانک اضافے سے پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات سے جوڑا جارہاہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں کہ یوپی انتخابات میں بی جے پی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ وہاں ہندو ووٹروں کا پولرائزیشن نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی کی مشکل بڑھ گئی ہے، ایسے میں کرناٹک کے کالجوں میں حجاب پر پابندی لگا کر وہ مسلم تنظیموں کو بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ یوپی میں پولرائزیشن ہو سکے۔
لوگوں نے سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے ہیں کہ کرناٹک کے کالجوں کو سکھ طلباء کو پگڑیاں پہن کر آنے سے روکنا چاہئے۔ جب سکھ طالبات کو پگڑی پہن کر آنے کی اجازت ہے تو پھر حجاب پہن کر آنے والی لڑکیوں کو کیوں روکا جا رہا ہے