1991 کے معاشی لبرلائزیشن کے ساتھ ہی ہندو قوم پرستی یا پھر ہندو شناخت کی سیاست نے جہاں ملک کی سیاست اور سیاسی اقدار کے رخ اور آئین کے تئیں وفاداری کو کمزور کر دیا ہے وہیں اسلام مخالف جذبات میں اضافہ، فرقہ وارانہ کشیدگی اور سیاسی تشددکو بلند سطح پر پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔گزشتہ تین دہائیوں میں رونما ہونے والے اہم واقعات نے جن میں رام جنم بھومی تحریک، 1992 میں بابری مسجد کی شہادت اور اس کے رد عمل میں پیش آنے والے ملک کے طول و عرض میں فرقہ وارانہ فسادات بالخصوص 1992-93 کے ممبئی فسادات جو کئی دنوں تک جاری رہے، 2002میں گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی، 2013 کے مظفر نگر فسادات اور 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات شامل ہیں، ان فسادات نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساسات میں شدت پیدا کی ہے ۔فرقہ واریت کی بنیاد پر ملک کے شہروں میں مذکورہ واقعات اور فرقہ وارانہ سیاست نے ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزور کردیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اپنی کمیونیٹی کے کثیر آبادی والے علاقوں میں آباد ہونے کے رجحان میں تیزی آئی ہے ۔گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے پاکٹ کے طور پر آباد مسلم آبادی کو فسادات کے دوران منصوبہ بند طریقے سے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔اس کا مقصد شہر کے قدیم اور غریب محلوں میں مسلمانوں کو ہجرت کرنے مجبور کر دینا ہے۔مہاراشٹر کے ضلع تھانہ کا شہر ممبرا احمد آباد کا جوہا پارہ اور کولکاتا کا توپسیا اور راجہ بازار جیسے علاقے اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ ممبرا میں مسلمانوں کی آبادی 85 فیصد ہے ۔1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی اور آس پاس کے علاقے میں آباد افراد بڑی تعداد میں ممبرا منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ اسی طرح، حیدرآباد، میرٹھ اور احمد آباد میں منصوبہ بند فرقہ وارانہ فسادات اور تشدد کے واقعات نے مسلمانوں کو جائیداد اور کاروبار چھوڑنے اور مسلم اکثریتی بستیوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے۔60کی دہائی میں مسلم اشرافیہ اور متوسط طبقہ اپنے آبائی علاقوں سے نکل کر شہر کے صاف ستھرے اور پوش علاقے میں آباد ہونے لگے تھے مگر سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کی دردناک کے شہادت کے واقعات نے اس طبقےمیں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا اور اعلیٰ ذات کے ہندو علاقوں میں رہنے کے متحمل ہونے کےباوجود کثیر مسلم آبادی والے علاقے میں دوبارہ آباد ہونے پر مجبور ہوگئے ۔احمد آباد کا جوہاپارہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔مسلمانوں کے اس رجحان پر عام طور پر یہ بحث کی جاتی ہے کہ مسلمان اپنی مذہبی شناخت پر قائم رہنے کے اصرار اور کھانے کی عادت کی وجہ سے رضاکارانہ طور پر کثیر مسلم آبادی میں منتقل ہوتے ہیں ۔ممکن ہے کہ اس دعوے میں کچھ سچائی ہو مگر رضاکارانہ منتقلی کے اس دعوے کو اگر مختلف سروے اور تجزیاتی مطالعہ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ملک کے سیاسی ماحول اور ہنگامہ آرائی نے Ghettoization (مراعات سے محروم کردہ بستیوں) کے رجحان میں اضافہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ منتقلی رضاکارانہ ہے تو پھر آئے دن اعلیٰ تعلیم یافتہ، پروفیشنل مسلم نوجوانوں کو مکانات کرایہ پر دینے سے انکار کیوں جاتا ہے؟ہاوسنگ سوسائٹیاں مسلمانوں کے ہاتھوں سے مکانات فروخت کرنے پر پابندیاں کیوں عائد کرتی ہیں ۔مذہبی اور فرقہ وارانہ تفریق کے خلاف قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی ہے۔اہم سوال یہ بھی ہے کہ ملک کے اہم شہر میں مسلم اکثریتی علاقے بنادی سہولیات کے اعتبار سے پسماندگی کے شکار کیوں ہیں۔ شہر کے ترقیاتی پروجیکٹس میں یہ مسلم علاقے کیوں نہیں آتے ہیں؟ مسلم اکثریتی علاقے کی پسماندگی کے لیے کیا خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں؟
ملک میں مذہبی امتیازات کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں، اسلاموفوبیا نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ دائیں بازو کی انتہا پسندی نے ملک کو دوراہے پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ 2014 میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم کی حیثیت سے لال قلعہ کے تاریخی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے ملک سے فرقہ واریت اور مذہبی امتیازات کے خاتمے کے عہد کو بلند و بانگ لہجے میں دہرایا تھا۔انہوں نے ملک کے تمام طبقات کے ساتھ مل کر متحدہ بھارت کی تعمیر و ترقی کے عزم مصمم کا حلف لیا تھا۔ مودی عہد کو دس سال مکمل ہونے میں چند مہینے باقی ہیں۔ ان کے بلند و بانگ دعوے اور عزم مصمم ایک طرف ہیں اور دوسری طرف دائیں بازوں کی انتہا پسندی اپنے شباب پر ہے۔ سپریم کورٹ کی متعدد ہدایات کے باوجود ادارہ جاتی شکل میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ٹی وی نیوز چینلوں کے ذریعہ سماج پراگندہ اور زہر آلود کردیا گیا ہے۔ فرقہ واریت اور مذہبی امتیازات بھیانک شکل اختیار کرچکی ہے ۔پوری دنیا کو ’’ایک خاندان اور ایک مستقبل‘‘ نغمہ آفریں سنانے والے بھارت کے شہر ذات پات، مذہبی خطوط پر منقسم ہیں ۔امریکہ کے شہر جہاں کالے اور گوروں کی الگ الگ بستیاں ہیں بھارت میں بھی مذہبی بنیاد پر کالونیاں، ہاوسنگ سوسائٹیاں اور بستیاں آباد ہورہی ہیں۔ روزگار کے بہتر مواقع اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے شہروں کی طرف رخ کرنے والے نوجوانوں کو مذہبی بنیاد تعصب اور نفرت انگیزی کا سامنا ہے۔
ذات پات اور مذہبی خطوط پر مارکیٹ کا امتیاز ہندوستانی معیشت کا ایک مستقل مسئلہ ہے۔ آئے دن اخبارات میں مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ملک کے چھوٹے اور بڑے شہروں میں رینٹل ہاؤسنگ مارکیٹ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مغرب بالخصوص امریکہ میں نسلی امتیازات کی جڑیں کافی گہری ہیں ۔اس کے خلاف متعددد قوانین موجود ہونے کے باوجود نسلی امتیازات کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ اس لیے میٹروپولیٹن ہاؤسنگ مارکیٹ میں امتیازی سلوک سے متعلق مختلف زاویے سے سروے کرائے گئے ہیں ۔ان تحقیقات کی روشنی میں اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں بھارت میں رینٹل ہاؤسنگ مارکیٹ میں مذہبی، طبقاتی اور نسلی بنیاد پر امتیازی سلوک سے متعلق متعدد سروے اور ریسرچ ہوئے ہیں لیکن سروے اور ریسرچ کی بنیاد پر کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ جندال گلوبل یونیورسٹی سونی پت کے پروفیسر محسن عالم بھٹ اور ان کے ریسرچ اسکالر ساتھی آصف علی نے سنٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ انڈیا ہاوسنگ کے لیے سروے کرتے ہوئے مکانات کے مالکین، بروکرز اور کرایہ داروں کے ساتھ 200 سے زیادہ انٹرویوز، ممبئی اور دہلی کے 15 محلوں اور ہاؤسنگ کمیونٹیز میں ہر زاویہ کے ساتھ تحقیق و ریسرچ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امتیازی سلوک کسی معاشرے یا علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ امتیازی رویہ منظم شکل اختیار کر چکا ہے۔ آصف بتاتے ہیں کہ بعض صورتوں میں کرایہ دار کا نام غیر جانبدار ہوتا ہے، لیکن جب بروکرز اور مالکین کو پتہ چلتا ہے کہ کرایہ دار مسلمان ہے تو ان کا عمومی ردعمل ہوتا ہے کہ ’’آپ مسلمان دکھتے نہیں ہیں اور آپ کسی طرح سے نہیں لگتے کہ آپ مسلمان ہیں۔ بہت سے واقعات میں مہینے کے وسط میں بغیر کسی اطلاع کے گھر خالی کرودایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ مسلم اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور نفرت انگیز تقاریر اضافے نے عوام کی ذہنیت میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ہے ۔
مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو کرایہ پر مکانات دینے سے انکار کے واقعات ماضی میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں اس ذہنیت میں شدت آئی ہے۔ آصف علی بتاتے ہیں کہ اس قسم کے امتیازی ان شہروں میں عام ہیں جہاں ہر سال لاکھوں افراد روزی روٹی کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں، چونکہ مسلمانوں کے پاس مکانات ملکیت کم ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم محلوں کی صورت حال بھی انتہائی خراب ہے۔ اس لیے آئی ٹی سیکٹر اور دیگر کارپوریٹ کمپنیوں سے وابستہ مسلم نوجوانوں کو مطلوبہ رہائش حاصل کرنے کے لیے مالکین مکانات کے غیر ضروری اور مضحکہ خیز مطالبات بھی تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔ ایک اور تحقیق ’’اربن رینٹل ہاؤسنگ مارکیٹ: ذات اور مذہب تک رسائی‘‘ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک بہت زیادہ ہے، لیکن یہ صرف مذہبی شناخت تک محدود نہیں ہے۔ مالکین مکانات مذہبی امتیاز کے ساتھ، دلتوں اور پسماندہ طبقات کے افراد کو بھی رہائش دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دلت اور مسلمان جو کرائے پر مکان لیتے ہیں انہیں غیر منصفانہ شرائط و ضوابط تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود حفاظت سیکیورٹی کا خوف ہمیشہ دماغ حاوی رہتا ہے کہ تشدد کی صورت میں کیا ہوگا؟
بابا صاحب امبیڈکر نے نسلی تفریق سے نجات حاصل کرنے کے لیے دلتوں کو شہروں میں آباد ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب دلت شہروں میں چلے جاتے ہیں تو وہ ذات پات سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ شہری مطالعات کے ماہرین کہتے ہیں کہ شہر میں پناہ حاصل کرنے کے بعد شناخت اور آپ کہاں سے آئے ہیں یہ سب موضوع سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پڑوس میں رہنے والے کا تعلق کس مذہب اور کس طبقے سے ہے۔ تاہم مسلمان ایک طویل عرصے سے دیہی علاقوں سے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں اپنی شناخت کی وجہ سے نشانہ بننا پڑتا ہے۔ ہندوستانی شہر ذات پات اور مذہبی خطوط پر منظم ہوتے ہیں۔ ہندوستانی شہروں میں اپنی شناخت سے کوئی اچھوتا نہیں رہ سکتا۔ آپ ہندوستان میں جہاں بھی جائیں آپ کی شناخت ساتھ جاتی ہے۔ ایک اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 50 ہزار آبادی والے شہر اور دہلی و ممبئی جیسے 20 ملین آبادی والے دہلی جیسے بڑے میٹروپولیٹن شہروں کی آباد کاری کی شکل و صورت یکساں ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی؟ اس کے لیے ذمہ دار کون ہیں؟ ٹاٹا انسیٹیوٹ سوشل سائنس میں پروفیسر عبد الشعبان ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت میں کہتے ہیں کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر شہروں کی باز آبادکاری آزادی کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی تاہم 60 اور 70 کی دہائی میں ملکی سیاست میں ترقی کا مسئلہ چھایا رہا۔ روٹی کپڑا اور مکان ملک کی سیاست کا محور تھا مگر ان دو دہائیوں کے بعد اچانک ملک کی سیاست میں کلچر یا پھر شناخت کی سیاست کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ مسلمان اور ان کی تنظیمیں بھی اپنی شناخت کے تئیں حساس ہوئیں اور دوسری طرف ہندوؤں میں بھی اپنے کلچر کی حفاظت کے لیے لام بندی کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1980 کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا جو 2020 کے دہلی فرقہ وارانہ فسادات تک دراز رہا۔ ترقی کی سیاست کے بجائے کلچر کی سیاست نے فرقہ واریت کے زہر کو ایک بار پھر ابھار دیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے آپسی تعلقات میں دراڑ آنی شروع ہوئی۔ اس صورت حال کے سبب علیحدگی پسندی یا (Ghettonization) کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ ہرشخص آزادی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جتنی آزادی کے ساتھ وہ مسلم اکثریتی محلہ میں رہ سکتا ہے اتنی آزادی کے ساتھ وہ مخلوط یا ہندو اکثریتی آبادی میں نہیں رہ سکتا۔ٹی وی نیوز چینلوں کے مباحثوں نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے۔ ان بحثوں نے سب سے زیادہ ہندو نوجوانوں کو متاثر کیا ہے ۔مسلمانوں کے تئیں ان کے دل و دماغ میں خوف پیدا کردیا گیا ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے انہیں کئی صدیوں تک غلام بنا کر رکھا تھا۔مسلمان پاکستان کی شکل میں اپنا حصہ لے چکے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس صورت حال کی وجہ سے نوجوانوں کے درمیان آوٹ ریچ میں کمی آئی ہے اور ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے اور اس کی خوبیوں سے فائدہ حاصل کرنے کے رجحان میں بھی کمی آئی ہے۔
پروفیسر شعبان کہتے ہیں اس کی سب سے زیادہ قیمت مسلم نوجوانوں کو چکانی پڑرہی ہے ۔رہائشی کمپلکس کے مسائل نہیں ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی داخلہ لینے میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔اس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کے آوٹ لک اور پروگریس میں کمی آئی ہے۔اس سوال پر کہ آخر اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ۔پروفسیر شعبان کہتے ہیں کہ ہر ایک لہر کی عمر ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ نفرت قریب المرگ ہے۔ نفرت کے خلاف اکثریتی طبقے کی طرف سے آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔نوح کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد جاٹ اور راجپوت تنظیموں کی جانب سے نفرتی عناصر کے خلاف اعلان اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔اس نفرت کے خلاف جنگ میں آگے رہنے کے بجائے تحریک آزادی کی طرح سیکولر لبرل خیال برادران وطن کے ساتھ مل کر جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔پروفیسر شعبان کہتے ہیں کہ ماضی میں مسلم تنظیموں کا رویہ منفی رہا ہے ۔انہیں مثبت کردار اور سماج و معاشرہ میں اصلاحات لانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی ماہرین تعلیم کی تحقیقاتی رپورٹ اور اس کے نتائج
ملک کے دیگر طبقات کے مقابلے میں مسلمانوں میں شہری علاقوں میں آباد ہونے کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں مسلمانوں کے پاس کاشت کاری کے لیے زمین کم ہے۔تعلیم اور روزگار کے مواقع نہیں ہے وہ شہروں میں اس امیدکے ساتھ منتقل ہوتے ہیں کہ وہ یہاں آزادانہ اور سیکورٹی کے ساتھ کام کر سکیں گے۔ایک دہائی قبل دو فرانسیسی اسکالرز کرسٹوف جیفرلوٹ اور لارینٹ گیئرنے مشترکہ طور پر
Muslim In Indian Cities Tarjectories of Marginalisation
کے نام سے کتاب مرتب کی ہے جس میں ملک کے 11 شہروں ممبئی، احمد آباد، جے پور، لکھنؤ، علی گڑھ، بھوپال، حیدرآباد، دہلی، کٹک، کوزی کوڈ اور بنگلور میں رہنے والے مسلمانوں کا نسلی مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ مسلم اکثریتی محلے جو کہ دوبارہ منظم ہونے کے اس عمل میں ابھر رہے ہیں یا پھیل رہے ہیں، انہیں میڈیا، سیاسی طبقے اور ماہرین تعلیم ’’مسلم گھیتو‘‘ سے تعبیر کرکے یہ تاثر قائم کرنے اور یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان اپنی آزادانہ مرضی سے اپنی اکثریت والی بستیوں میں آباد ہوتے ہیں اور یہ ان کی خود ساختہ علیحدگی پسندی کا نتیجہ ہے ۔جو ان کی قدامت پسندی اور غیر ملنسار طرز زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ رجحان صرف مسلمانوں میں ہے بلکہ بھارت میں سماجی گروہوں کی اکثریت میں آباد ہونے کی تاریخ رہی ہے، لیکن بھارت کے مسلمانوں میں علیحدگی پسندگی کی وجوہات اتنی سادہ نہیں ہیں بلکہ سماجی، ثقافتی اختلافات کے باوجود مسلمانوں نے مشترکہ و مخلوط آبادی میں مقیم ہونے کی کوشش کی ہے مگر فرقہ واریت، نسلی و مذہبی تفریق کی شدت نے انہیں علیحدگی پسندی پرمجبور کردیا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین تعلیم اور ماہرین اقتصادیات کا ایک گروپ جس میں نووساد میں اقتصادیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈارٹ ماؤتھ پال، امپیریل کالج، لندن میں معاشیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سام اشر، ڈیولپمنٹ ڈیٹا لیب کے کریتارتھ جھا، شکاگو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر انجلی اڈوکیا اور برینڈن ٹین، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ماہر اقتصادیات شامل ہیں، نے مشترکہ طور پر بھارت کے شہروں کا تجزیہ کرنے کے بعد اسی سال جون 2023میں اپنے سروے کا پہلا حصہ شائع کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس طریقے سے امریکہ میں کالے اور گوروں کی علیحدہ بستیاں ہیں اور اسی اعتبار سے حکومت کی جانب سے سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، بھارت کے شہروں میں بھی مسلمانوں اور دلتوں کی آبادیوں کو محرومیوں کا سامنا ہے۔ ان ماہرین نے سماجی اقتصادی اور ذاتوں کی مردم شماری 2012 اور اقتصادی مردم شماری کے اعداد و شماراور 1.5 ملین آبادی کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 26فیصد مسلم آبادی ایسے محلوں میں رہتی ہے جہاں 80فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ اور17فیصد شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب 80فیصدآبادی میں رہتے ہیں ۔ماہرین نے لکھا ہے کہ وہ محلے جہاں اقلیتی اور پسماندہ گروہ رہتے ہیں انہیں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں، طبی اداروں، پانی کی پائپ لائن کی فراہمی، بجلی اور ڈھکے ہوئے نالوں جیسی خدمات کم حاصل ہیں۔
اس کے علاوہ نوین بھارتی، دیپک ملک گھن ، سمپت مشرا اور عندلیب رحمن پر مشتمل ایک اور ماہرین تعلیم نے فروری 2022میں اربن اسٹڈیز جرنل میں بھارت کے شہروں اورمردم شماری کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ بھارتی شہروں میں ذات پات یا مذہبی شناخت کی بنیاد پر الگ الگ کالونیاں قائم ہورہی ہیں ۔دلت اور مسلمانوں کو شہری رہائش میں بدترین امتیازی سلوک کا سامنا ہے، آزادی کے 75 سال بعد بھی بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ تعصب اور محدود سماجی اور معاشی نقل و حرکت دونوں برادریوں کو متاثر کرتی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کی لہروں کی وجہ سے سماجی طبقے، تعلیم اور حیثیت سے قطع نظر فسادات سے متاثرہ شہروں میں مسلمانوں کی بستیوں میں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
2021 میں شائع ہونے والے ایک مقالے Fractal Urbanis: City Size and residential segregation in Indaiمیں ان چار ماہرین تعلیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ذات پات کی بنیاد پر علیحدہ ریاست بھارت میں عام ہے۔
اسی طرح ان ہی ماہرین نے 2018میں اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ دہلی کے 30 فیصد پڑوس،کلکتہ کے 60 فیصداور راجکوٹ کے 80فیصد آبادی میں کوئی بھی دلت اور آدیواسی پڑوسی نہیں ہے۔فروری 2020 میں دہلی فرقہ وارانہ فسادات کے بعد نوین بھارتی نے’’دی پرنٹ‘‘ میں اپنے ایک مضمون لکھا تھا کہ شہری رہائشی علیحدگی بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دیتی ہے۔ سوسی ونڈ کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ دہلی اور احمد آباد میں مسلمانوں کی سب سے علیحدہ بستیاں ہیں جبکہ جے پور، کوزی کوڈ اور لکھنؤ جیسے شہروں میں مسلمانوں کی علیحدہ بستیاں کم ہیں ۔نوین بھارتی نے لکھا ہے کہ جے پور اور لکھنؤ میں گزشتہ کئی دہائیوں میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے ہیں۔
کاشف الہدیٰ اور کامران نہر کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہونے نوین بھارتی نے لکھا ہے کہ 2012 میں نئی دہلی میں رجسٹرڈ تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جائزہ لیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ 70 فیصد ہاؤسنگ سوسائٹیز میں کوئی مسلمان نہیں ہے۔مختلف رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر سوسائٹیاں پہلے دن سے ہی یہ پالیسی بناتی ہے کہ انہیں مسلمانوں کو مکانات نہیں دینے ہیں ۔خاص طور پر اگر زمیندار کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہو تو مسلمانوں کو مکانات ملنے کے امکانات سب سے کم ہو جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہر کے ایک ہی علاقے کے الگ الگ حصوں میں پینے کے پانی اور سیوریج کی سہولیات میں فرق ہے۔ ایک ہی وارڈ میں سہولیات کی فراہمی میں فرق ہے۔ پڑوس کے ایک حصے میں پائپ والا پانی ہو سکتا ہے اور دوسرے حصے میں پائپ والے پانی تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ معیار میں بھی فرق ہے۔ شہر کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کمزور طبقات پر مشتمل آبادی میں صرف 2 تا 3 گھنٹے پانی کی فراہمی ہوتی ہے جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں اس سے کہیں زیادہ پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔
آخر اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
ایک ہی آبادی میں سہولیات کی فراہمی میں عدم توازن کا گھیٹو نائزیشن سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔ جادو پور یونیورسٹی میں شعبہ سیاست کے پروفیسر عبدالمتین کہتے ہیں کہ شہری آبادی کی تقسیم کو فرقہ واریت کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ کالونی اور ہاوسنگ سوسائٹی میں مسلمانوں کی عدم موجودگی کی وجہ مسلمانوں کی کمزور معاشیات ہے۔بینک مسلمانوں کو قرض دینے سے کتراتے ہیں ۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ امتیازی سلوک روک کی تھام کے لیے کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہاوسنگ سوسائٹیوں کو من مانی اور مذہبی و نسلی تفریق کرنے کی آزادی مل جاتی ہے۔ مہاراشٹر ملک کی واحد ریاست ہے جہاں امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے رئیل اسٹیٹ (ریگولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ) ایکٹ کے تحت ایک عدم امتیاز کی شق شامل ہے مگر وہ بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہوتی ہے۔جبکہ مہاراشٹر رئیل اسٹیٹ (ریگولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ) ایکٹ میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تین سال تک قید کی سزا اور بھاری جرمانہ شامل ہے۔اس ایکٹ میں پرائیوٹ ہاوسنگ سوسائٹی کو اس قانون پر عمل درآمد کا پابند نہیں بنایا گیا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے قوانین کو ملکی سطح پر نافذ کیا جائے۔
ہاوسنگ سوسائٹیوں کی من مانی کی وجہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی ہے۔زرتشتی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کا ایک پارسی ممبر غیر پارسی کو اپنا اپارٹمنٹ بیچنا چاہتا تھا۔ ہاؤسنگ سوسائٹی نے عدالت میں کہا کہ اس نے سوسائٹی کے بائی لاز کی خلاف ورزی کی ہے اور ممبر کسی غیر پارسی کو اپارٹمنٹ فروخت نہیں کر سکتا۔ سوسائٹی نے دلیل دی کہ آئین کے تحت، انہیں آرٹیکل 19(1)(c) کے تحت ایسوسی ایشن بنانے کا بنیادی حق حاصل ہے اور وہ کسی ایسے شخص کی رکنیت سے انکار کر سکتے ہیں جو پارسی نہیں ہے۔ 2005 میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے کوآپریٹو سوسائٹی کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سوسائٹی کو آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے، لہذا ممبر آرٹیکل 15 کے خلاف اپنا پلاٹ کسی غیر پارسی کو فروخت نہیں کر سکتا۔
آئین کا آرٹیکل 14، آرٹیکل 15 واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی کے ساتھ مذہب، ذات پات یا رنگ وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔تو پھر سوال یہ ہے کہ اس طرح کی تفریق کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ اس لیے ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مسلمانوں و دلتوں کے خلاف برتے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ماہر تعلیم نوین بھارتی کہتے ہیں کہ دلتوں اور مسلمانوں کو معاشرے، کارپوریٹ انڈیا، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر، درس و تدریس اور سیاست میں بھرپور نمائندگی اگر دیدی جاتی ہے تو رئیل اسٹیٹ میں مذہبی تفریق کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔