حریر:ابھے کمار
اتوار کے روز پریاگ راج میں جو کچھ بھی ہوا وہ بھارت کی جمہوریت کا ایک سیاہ دن تھا۔ اس دن اقتدار کا سراسر غلط استعمال کیا گیا۔ یہ کاروائی قانون اور آئین کا گلا گھوٹنے کے مترادف تھی۔ اب کھُلے طور پر لوگوں کا دھرم ، مذہب اور ذات دیکھ کر، یو پی حکومت فیصلہ لے ر ہی ہے ۔ جے این یو کی سابق طالبہ اور ایکٹوِسٹ آفرین فاطمہ کے گھر کو جس طرح بلڈوزر کی مدد سے توڑ کر کچھ ہی گھنٹوں کے اندرملبے میں تبدیل کر دیا گیا، وہ اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے ۔ یو پی کی بی جے پی سرکار سیکولرازم کی جگہ ہندو راشٹر کے نظریہ کے مطابق کام کر رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے پوری طرح سے مسلم مخالف ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے۔عدالت بھی خاموش ہے۔ میڈیا دن رات نفرت پھیلا رہا ہے۔محکوم طبقات کا یقین سسٹم سے اٹھنے لگا ہے۔ایک سازش کے تحت یوگی سرکار بلند مسلم آوازوں کو خاموش کرنا چاہتی ہے ۔ وہ ہر طرح سے ان آوازوں کو دبا دینا چاہتی ہے، جوان کے ظلم و جبر کے خلاف بولنے کی ہمت رکھتی ہیں۔ یوگی سرکار کی آمرانہ حکومت کی اور کیا مثال ہوگی کہ اہانت رسولؐ کے معاملے میں جو لوگ ملوث ہیں ان کو پکڑنے کے بجائے وہ بے قصور مسلمانوں کو مار پیٹ رہی ہے، انہی کو گرفتار کر رہی ہے اور ان کے گھروں کو منہدم کر رہی ہے۔ کیا اترپردیش میں مظلوموں کو اپنے مسائل کو لے کر احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں ہے ؟
جو لوگ بھی مسلم سماج سے اپنے حق کے لیے لڑنے آگے آرہے ہیں ان کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کی پوری زندگی برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی شبیہ ایک شدت پسند اور ملک مخالف جرائم پیشہ کی بنا کر پیش کی جارہی ہے۔ آخر نا انصافی کا یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ مسلم سماج کے اندر ناخواندگی دیگر مذہبی طبقات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس سماج سے آفرین فاطمہ اور ان کی جیسی دیگر لڑکیاں جب ساری مشکلات سے لڑتے ہوئے کالج اور یونیورسٹی پہنچی ہے اور اپنے ملک اور ملت کے مسائل کو لے کر آگے بڑھتی ہے ، تو ان پر ظلم و جبر کیوں ڈھایا جاتا ہے؟ کیا ان کو ایک ذمہ دار بھارتی شہری ہونے کے فرائض ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، صرف اس لیے کہ ان کا تعلق کسی خاص مذہب سےہے؟
شرجیل امام، عمر خالد، میران حیدر، آفرین فاطمہ جیسے لیڈرآج اسی فرقہ پرست ذہنیت کے شکار ہیں ۔ حکومت میں بیٹھے فرقہ پرست عناصر کی یہی کوشش رہتی ہے کہ جب بھی کوئی طاقتور آواز محکوم طبقات سے نکلے ان کو کسی نہ کسی بہانے عوام کی نظروں میں ملک مخالف ثابت کر دیا جائے اور پھرکسی نہ کسی کیس میں ان کا نام ڈال کر جیل بھیج دیا جائے تاکہ دبے کچلے سماج سے کوئی اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی بات خواب میں نہ سوچ پائے اور ظلم ، جبر ، استحصال اور نا انصافی کا یہ کاروبار یوں ہی چلتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آفرین فاطمہ کے پراگ راج واقع مکان کو اچانک سے پولیس نے منہدم کر دیا۔آج اس کا پریوارر بے گھر ہو گیا ہے۔ ان کے والد پرتشدد بھڑکانے کا الزام لگایا گیا اور انہیں گرفتار کیا گیا ۔ آفرین کی خطا یہی ہے کہ وہ بولنا جانتی ہے، وہ باتوں کو سمجھتی ہے، اس کے دلوں میں ملک اور ملت کا درد ہے۔ اور وہ مسلمان بھی ہیں۔
آفرین فاطمہ کو میں جے این یو کے دنوں سے جانتا ہوں۔ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی تحریکوں میں کافی سرگرم رہی ہیں۔ کچھ ہی دنوں کے اندر آفرین کی مقبولیت کیمپس میں کافی بڑھ گئی۔ اس سے پہلے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لسانیات میں گریجویشن کی پڑھائی مکمل کی تھی ۔سال 2019میں انہوں نے جے این یو طلبہ یونین کا انتخابات بھی لڑا تھا۔حالانکہ طلبہ سیاست سے اُن کی آشنائی بہت پہلے ہو گئی تھی۔ سال 2018 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ویمنس کالج کی وہ طلبہ یونین کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ آفرین کی فکر اور سرگرمی کی وجہ سے علی گڑھ کے اندر موجود دقیانوس مردوں اور کالج انتظامیہ کو بھی بڑی دقت ہوتی تھی۔ غلطی اس میں آفرین کی نہیں تھی بلکہ وہ وہاں مرد بالادستی کے خلاف آواز بلند کر رہی تھی۔ بات یہ تھی کہ علی گڑھ کی لڑکیوں کو اپنے ہاسٹل سے باہر نکلنے پر بہت ساری پابندیاں عائد تھیں۔ اگر ان کو اسپتال بھی جانا ہوتا تھا تو ان کو پہلےانتظامیہ سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ ا ن سب پابندی کی وجہ سے علی گڑھ کی طالبات کافی ناراض تھی۔ ان مسائل کو آفرین نے اپنے انتخابات کے دوران اٹھایا اورطالبات کے لیے برابر کے حقوق کا مطالبہ کیا۔
یہ بات صحیح ہے کہ آفرین اپنے مشن میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائیں ، مگر ان کی وجہ سے اور بدلے ہوئے ماحول کو دیکھتے ہوئے لڑکیوں کو علی گڑھ یونیورسٹی انتظامیہ نے تھوڑی بہت رعایت دی تھی۔ اس دواران انہوں نے علی گڑھ میں خواتین کی قیادت سے متعلق ایک بڑاپروگرام بھی کرایا ، جس میں کچھ مردوں نے خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ اگر صحیح طور سے دیکھا جائے تو بلند آواز والی مسلم خواتین کی دشمن فرقہ پرست اور مردوں کی بالادستی میں یقین رکھنے والا سماج دونوں ہوتا ہے۔ فرقہ پرست ان کو مظلوم ، انپڑھ، لاچار، بیمار اور کمزور ، شدت پسندکےطور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جبکہ سماج کے مرد انہیں گھروں میں قید کر کے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے اوپر حملہ دو طرفہ ہے۔
جے این یو میں بھی ان کو فرقہ پرستوں کے ساتھ ساتھ دقیانوس طبقہ کی بھی مخالفت جھیلنی پڑی۔ مگر انہوں نے جواب دینے کے بجائے کام کرنے میں زیادہ یقین رکھا ۔ بہت جلد ان کی شناخت کیمپس میں قائم ہو گئی اور آفرین نے ا پنے قول اور فعل سےطلبہ کا دل جیتا۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کونسلر کا انتخاب جیت کر یہ دکھلا دیا تھا کہ اُن کے اندر سیاسی قیادت کی بڑی اہلیت ہے۔ جو لوگ جے این یو کو قریب سے جانتے ہیں اُن کو یہ بات معلوم ہے کہ یہاں کے طلبہ انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کو لیفٹ يا رائٹ کے سہارے کی ضرورت پڑتھی ہے۔ ان کی مدد کے بغیر کسی بھی طالب علم کو انتخابات جیتنا بڑامشکل کام ہوتا ہے۔انتخابات کے دوران تقریر کر کے شاباشی بٹور ناایک بات ہے، اور انتخاب میں فتحیاب ہونا دوسری بات ہوتی ہے۔ اس لیے آفرین فاطمہ کی اس کامیابی کو غیر معمولی کارکردگی کہی جا سکتی تھی۔
جے این یو میں آفرین طلبہ کی تنظیم فرٹرنٹی کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں اور ان کی حمایت کرنے والوں میں مسلمانوں کے علاوہ دلت طلبہ کی بڑی تعداد تھی۔ جے این یو ہی نہیں ، کیمپس سے باہر بھی آفرین ان مسائل کو لے کر زیادہ فعل رہی ہیں، جو ملک کے کمزور طبقات کے مفاد سے منسلک رہے ہیں۔جب بھی بات مسلمان، دلت يا کسی بھی محکوم طبقات سے متعلق ہوتا ہے، آفرین فاطمہ اُٹھ کھڑی ہوتی تھی۔ ہمیں یاد ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں فاطمہ نے دیگر مسلم خواتین کی طرح ملک اور ملت کو بچانے کے لیے سڑکوں پر اتر آئی تھی۔ آج ان ہی سب خوبیوں کی وجہ سے وہ اور ان کا پورا خاندان فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہے۔
اس مشکل کے وقت ہمیں اور بھی زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہمیں نہ صرف آفرین فاطمہ کی مدد کے لیے آگے آنا ہے، بلکہ ہمیں آفرین کی لڑائی کو ان تمام مسلمانوں کی گرفتاری سے بھی جوڑ کر دیکھنا ہے۔ ہمیں عدالتی اور قانونی راستہ کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سڑکوں پر بھی اترنے کی ضرورت ہے مگر اس بات کو بھی پہلے طےکرنا ہوگا کہ کسی طرح ہم پولیس اور حکومت کے جابرانہ کارروائی سے خود کو کیسے بچائیں گے۔ یہ ملک سے ہندو اور مسلمان دونوںمحبت کرتے ہیں۔ جو لوگ شدت پسندی اور نفرت کی سیاست کرنے والے ہیں ، ہم ان کو کبھی بھی ان کے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دینا ہے۔ آج ضررت اس بات کی ہے کہ تمام سیکولر طاقتیں اپنے سابقہ اختلاف کو فراموش کر ملک کو فرقہ پرستوں کے چنگل سے بچانے کے لیے آگے آئیں اوراس تحریک میں آفرین فاطمہ کا ایک بڑا او ر مثبت رول ادا کر سکتی ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)