Thursday, November 21, 2024
homeاہم خبریںمسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں دیں؟

مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں دیں؟

فلاحی اسکیموں کے نام پر مسلمانوں کو طعنہ غیر جمہوریت مزاج کی عکاس-ایک طرف مسلمانوں کو کنارہ لگانے کی کوشش ۔دوسری طرف ووٹ نہیں دینے کی شکایت ۔ حیرت انگیز ہے

نوراللہ جاوید
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کومنظر عام پر آئے ایک مہینے مکمل ہوچکے ہیں اور مرکزمیں تیسری مرتبہ نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی تشکیل بھی ہوچکی ہے ۔ تاہم انتخابات کے نتائج پر تجزیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے- ٹی وی چینلوں پر بالخصوص بی جے پی حامی نیوز اینکروں نے پوری شدو مد کے ساتھ مسلم ووٹروں کے رحجانات پر سوال اٹھارہے ہیں ۔ ان کے مطابق گزشتہ دو انتخابات 2014اور 2019میں مسلم ووٹ بینک جوکافی حد تک بے اثر ہوگیا تھا ۔ مگر2024کے انتخابات میں مسلم ووٹرس کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔دوسرا سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مودی حکومت کے مسلمانوں تک رسائی اور فلاحی اسکیموں کے باوجود مسلمانوں نے ووٹ کیوں نہیں دیا ۔ مسلم ووٹ کے اثر انداز ہونے کے موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے مگر دوسرے سوال پر انصاف پسندتجزیہ نگاروں نےبھی توجہ نہیں دی ہے۔ نتائج کے بعد جنتادل یو کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے دیویش چند ٹھاکر نے کہا کہ چوں کہ مسلمانوں اور یادو نے انہیں ووٹ نہیں دیا ہے اس لئے ان کا وہ کوئی ذاتی کام نہیں کریں گے۔ دیویش چندٹھاکر اپنے اس بیان پر ہنوز قائم ہیں اور نتیش کمار نے بھی اس پر کوٹی نوٹس نہیں لیا ۔ ٹھاکر کے اس بیان کی حمایت میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر گری راج بھی سامنے آئے اور انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ مسلمان ہمیں ووٹ نہیں دیتے ہیں ۔ اس ک بعد سے ہی نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ فلاحی اسکیموں اور مودی کی کوششوں کے باوجود بھارت کا مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتاہے؟-

المیہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر ٹی وی چینلوں پر جو مباحثے ہورہے ہیں وہ معروضیت سے خالی ہیں ۔ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعدپہلے مودی کی مخالفت میں اور اس کے بعد مودی کی حمایت میں مورچہ سنبھالنے والے ظفر سریش والا کا انڈیا نیوز کو دیا گیا ایک انٹرویو بہت ہی وائرل ہورہا ہے۔ جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کے دوسری صف کے لیڈروں کی بیان بازی کی وجہ سےمسلمانوں نے بی جے پی کوووٹ نہیں دیا ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مودی کی کوششوں کو بی جے پی کے دوسری صف کے لیڈروں اور سوشل میڈیا کے کارکنان نے پانی پھیر دیا ہے۔۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2012کے گجرات اسمبلی انتخابات میں30فیصد مسلمانوں نے مودی کو ووٹ دیا تھا ۔سریش والا یہ کن بنیادوں پر دعوی کررہے ہیں کہ اس کا ہم آگے تجزیہ کریں گے۔تاہم یہ سوال اہم کہ اس ملک کے ووٹرس صرف فلاحی اسکیموں کے استفادہ کی بنیاد پر ووٹنگ کرتے ہیں ۔یا پھر علاقائی، سماجی اور ْجاتی بنیاد پر ووٹنگ کرتے ہیں ؟تیسرا سوا ل یہ ہے کہ کیا بی جے پی کی شکست صرف مسلم ووٹروں کی وجہ سے ہوئی ہے

ان تینوں سوالات کے تجزیے میں ہی اس سوال کا جواب بھی پوشیدہ ہے کہ مسلمان مودی اور بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے ہیں ؟۔ دراصل بھارت متنوع تہذیب و ثقافت اور زبان اور مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے۔ چناں چہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک بھارت کے شہریوں کے ووٹ دینے کا رجحا ن علاقائی ،گروہی ، سماجی وجوہات کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔جنوبی ہند کے ووٹرس جن بنیادوں پر ووٹنگ دیتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ شمالی ہند کے ووٹروں کا رجحان وہی ہو۔ اس کے علاوہ بھارت کے ووٹرس برادری اور گروہی بنیاد پر بھی ووٹ دیتے ہیں اور ہرایک جات سے تعلق رکھنے والے اپنے مفادات کی بنیاد پر ووٹنگ دیتے ہیں ۔بلاشبہ بی جے پی نے 2014کے بعد مذہب کی بنیادہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں انہیں کامیابی ملی ہے ۔ چناں چہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2022کے اترپردیش کے انتخاب میں کہا تھا کہ اس مرتبہ 80مقابلہ 20فیصد ہے ۔ یعنی 80فیصد ہندو اور 20فیصد مسلمان ۔ اسی طرح مغربی بنگال میں 2019کے پارلیمانی اور 2021کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے دلت برادری متوا اور راج بنشی کو ووٹ بینک بنانے کی کوشش کی اور اس کا انہیں فائدہ بھی ملا۔ہر فرد ووٹ دیتے وقت مختلف عوامل کو ترجیح دیتے ہیں ۔جس میں سماجی اصلاحات اور روزمرہ کے مسائل بھی شامل ہوتے ہیں ۔کبھی کبھی ووٹرس وقار کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں ۔بھارت کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے سامنے کئی بنیادی سوالات رہے ہیں جس میں مذہبی شناخت، سیکورٹی اور ترقی کے یکساں مواقع اہم ایشوز رہے ہیں ۔پولیٹیکل سائنسٹسٹ ہلال احمد نے بھارت میں مسلم ووٹروںکے رحجانات تفصل سے روشنی ڈالی ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ مذہبی شناخت کے تحفظ کا ایشو ہمیشہ غالب رہا ہے۔اس صورت حال میں یہ سوال ہی غیر اہم ہے کہ فلاحی اسکیموں کے باوجود مسلمانوں نے ووٹ کیوں نہیں دیا ؟۔ یہ اس لئے بھی غیر اہم ہے کہ صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ ملک کی بڑی اکثریت نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ ان کے سامنے بہت سارے بنیادی ایشوز تھے اس لئے ووٹ نہیں دیا ۔ تو پھر مسلمانوں پر غداری کا الزام کیوں؟۔ بی جے پی لیڈرو ں کے بیانات کی بنیاد پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اب حکومتیں وفاداری کی بنیادی پر اسکیمیں چلائیں گی ۔ تو پھر آئین کے نام پر حلف کی معنویت باقی رہے گا۔ کیوں کہ آئین غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کرتا ہے تو لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح سوچ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔

مگر سوال یہ بھی اہم ہے کہ فلاحی اسکیمیں جس کا بی جے پی اور ان کے حامی بار بار حوالہ دے رہے ہیں اس کا بھی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمانت بسوا شرماجو فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی ہندو اور مسلم کی سیاست کرے یا نہ کریں ہم تو کرتے ہیں ۔ ہیمانت بسوا شرما دوسری طرف لگاتار مسلمانوں کے خلاف بیان بازی اور اجاڑنے کی کوشش بھی کررہے ہیں ۔ اس کے بعد بھی انہیں امید ہے کہ مسلمان انہیں اس لئے ووٹ دیں کہ حکومت کی فلاحی اسکیموں سے مسلمان بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ سرکاری اسکیموں میں آسام کے مسلمانوں کے ساتھ کئے جارہے بھید بھائو پر ہم تفیصلی رپورٹ شائع کرچکے ہیں ۔ اسی طرح مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے 2008 میں اقلیتوں کیلئے شروع کی گئی اسکالر شپ اسکیم میں جوکٹوتی کی ہے اس پر بھی گزشتہ شماروں میں تفصیل قارئین کے سامنے رکھ چکے ہیں ۔ کس طرح مودی حکومت نے وزارت اقلیتی امور کے تحت اقلیتی طلبا کے اسکالر شپ پروگرام میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی ہے۔۔

تعلیم کسی بھی کمیونیٹی کی سماجی و اقتصادی ترقی کا سب سے طاقتور ذریعہ ہوتا ہے۔ زندگی کے بیشتر شعبوں میں پسماندگی کے شکار اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے تعلیمی ترقی سب سے ضروری ہے ۔ چناں چہ 2017 میں مرکزی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے نیتی آیوگ نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئےایک پالیسی دستاویز جاری کرتے ہوئے موجودہ پروگراموں کے نفاذ کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی سفارش کی تھی۔ مودی حکومت نے ان سفارشات پر عمل کرنے کا وعدہ بھی کیا مگر دوسری مدت 2019میں اقتدار میں آنے کے بعد مودی حکومت نے وزارت اقلیتی امور کو غیر اہم بنانا شروع کردیا۔ گزشتہ چند سالوں میں مذہبی اقلیتوں کے لیے دو اہم تعلیمی اسکیموں کو بند کر دیا ہے، ایک اسکیم کا دائرہ کم کر دیا ہے اور اقلیتی امور کی وزارت کے متعدد پروگراموں کے اخراجات کو آہستہ آہستہ کم کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں 2019 اور 2022 کے درمیان مرکزی اسکیمو ں سے فائدہ حاصل کرنے والے افراد میں کمی آئی ۔


پارلیمنٹ میں پیش کردہ تازہ ترین اعداد و شمار سے انکشاف ہوتا ہے کہ آخری بجٹ میں مذہبی اقلیتوں کے لیے چھ تعلیمی اسکیموں پر حکومت کے اخراجات میں تقریباً12.5فیصد کی کمی واقع ہوئی، جب کہ مستفید ہونے والوں کی تعداد میں 7 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔2023-24کے بجٹ میں اقلیتی امور کے وزارت کے بجٹ 5,020.5کروڑ روپے سے3, 790کروڑ روپے تک کمی دیکھی گئی۔ خاص طور پر، 2022-23 کے تخمینوں پر نظر ثانی کر کے 2,612,66کروڑ روپے کردیا گیا جو کہ تقریباً 48فیصد فنڈز کے کم استعمال کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

گزشتہ 20 سالوں میں، مرکزی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کو تعلیمی بااختیار بنانے کے لیے تقریباً 10 اسکیمیں شروع ہوئیں اور آج صورت حال یہ ہے کہ بیشتر اسکیموں کے فنڈز میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کرکے بے اثر کردیا گیا ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے نافذ کیے گئے پہلے مرکزی سیکٹر پروگراموں میں سے ایک پری میٹرک اسکالرشپ ابتدائی طور پر پہلی جماعت سے لے کر 10ویں جماعت کے اقلیتی طلباء کیلئے شروع کی گئی تھی۔ اس اسکیم کے تحت منتخب امیدوارکو ایک ہزار روپے سے 10,700درمیان دیا جاتا تھا اور اس اسالر شپ کیلئے 30فیصد لڑکیوں کیلئے مختص تھا۔ گزشتہ سال اسکیم کو کلاس 1 سے 8 تک بند کر دیا گیا ہے، اس کی نظر ثانی شدہ شکل میں صرف کلاس 9 اور 10 کے طلبا کو اس اسکیم کےتحت اسکالر شپ دیا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت کے مطابق چوں کہ پہلی جماعت سے لے کر 8ویں جماعت تک آر ٹی ای ایکٹ احاطہ کرتی ہے۔ وزارت خزانہ نے مرکزی بجٹ 2023-24 میں اسکالرشپ کے فنڈز میں 900 کروڑ روپے سے زیادہ کی کمی کی ہی۔ جو گزشتہ سال کے 1,425کروڑ روپے سے 433 کروڑ روپے کر دی گئی۔ سابقہ یوپی اے حکومت کے دوران مولانا آزاد نیشنل فائونڈیشن کی شروعات کی گئی تھی ۔اس کے تحت ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے ریسرچ اسکالرز کو پانچ سال کے لیے مالی امداد فراہم کی جاتی تھی۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ذریعہ تسلیم شدہ اداروں سے۔ اسکیم کے تحت، جونیئر ریسرچ فیلوز (JRF) کو پہلے دو سالوں کے لیے 31,000روپے کی گرانٹ ملتے تھے جبکہ سینئر ریسرچ فیلوز (SRF) کو بقیہ مدت کے لیے35,000وپے ماہانہ ملتے تھے ۔ مگر اس پروگرام کو بند کردیا گیا ۔ یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC)، اسٹاف سلیکشن کمیشن (SSC) اور اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن (SPSCs) کے ذریعہ منعقدہ ابتدائی امتحانات کی تیاری کرنے والے اقلیتی طلباء کی مدد کیلئے اڑان اسکیم شروع کی گئی تھی مگر آخری بجٹ میں نئی اڑان اسکیم کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے گئے تھے۔ اسی طرح مودی کے دور حکومت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی جہاں بڑی تعداد میں اقلیتی طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں کہ فنڈ میں کٹوتی کی گئی ہے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ مودی حکومت کس فلاحی اسکیموں کی بات کررہے ہیں ۔ جب تعلیمی جو ترقی کی اساس ہے اس کو نظر انداز کئے جانے کے بعد کونسی فلاحی اسکیمیں بچ جاتی ہیں جس کی بنیاد پرمسلمانوں کو بی جے پی کے حق میں ووٹ دینا چاہیے۔ ایک دہائی قبل انسی ٹیوٹ آبجیکٹیو اسٹڈیز نےاپنے خصوصی مطالعے میں بتایا تھا کہ سرکاری اسکیموں سے استفادہ کرنے والوں میں سب سے کم تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔

ایس پی ای سی ٹی (SPECT)فاؤنڈیشن ایک غیر منافع بخش آرگنائزیشن، نے دس ایسے اضلاع جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہے میں ترقیاتی کاموں کا آڈٹ کیا۔ آڈٹ رپورٹ جس کا عنوان ہے’’دس اقلیتی اضلاع میں مسلمانوں کا پسماندگی: سیاسی گفتگو میں مساوات کا سوال‘‘(Marginalization of Muslims in ten Minority Concentration Distrcts ‘:Bringing the Equity Question Back Into the Political Discourse )
اس رپورٹ میں ان اضلاع میں اقلیتوں کو درپیش سماجی اقتصادی چیلنجوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ملک کے سرحدی علاقوں میں مبینہ طور پر ’’بنیاد پرست اسلام کے عروج‘‘ کےتھیوری کو چیلنج کیا گیا ہے۔آڈٹ میں جن دس اضلاع پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ان اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً14.1ملین ہے۔ جو کہ اضلاع کی مجموعی آبادی کا 52 فیصد ہے۔ ان اضلاع کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے بی جے پی عمومی طور پر ان اضلاع کو غیر قانونی دراندازی کے نام پر نشانہ بناتی رہی ہے۔

ان اضلاع بہار میں ارریہ، پورنیا، کشن گنج، اور کٹیہار؛ آسام میں دھوبری اور کوکراجھار، اتر پردیش میں شراوستی اور بلرام پوراور مغربی بنگال میں مالدہ اور مرشد آباد شامل ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق دس منتخب اضلاع میں مسلم آبادی ملک کے دیگر خطوں کے مقابلے بنیادی وسائل اور سہولیات سے محروم ہے۔ جو مسلمانوں کے ساتھ ترجیحی سلوک یا ’’خوشی‘‘ کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔یہ اعداد وشمار اس مرروجہ بیانیہ کو چیلنج کرتا ہے کہ مسلمانوں کو دوسری کمیونٹیز کے مقابلے میں سازگار سلوک اور مواقع ملتے ہیں۔
رپورٹ میں بہار کے چار اضلاع کی خراب سماجی اقتصادی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان اضلاع میں ریاستی اوسط سے کم شرح خواندگی ہے اور اسکولوں میں طالب علم-استاد کا تناسب بھی ریاستی اوسط سے نمایاں طور پر زیادہ ہے جو ناکافی تعلیمی انفراسٹرکچر کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹ میں سرکاری اسکیموں کی تقسیم میں اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کو بھی بے نقاب کیا گیا۔ قابل ذکر کم آمدنی والی آبادی کے باوجود، ان اضلاع میں پردھان منتری گرامین آواس یوجنا (PMGAY) کے مستفید ہونے والوں میں سے صرف 20.31فیصد مسلمان تھے۔جو کہ مسلم آبادی کی کل اوسط سے17.4کم ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ان اضلاع میں مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (MGNREGA) کے تحت کام کی مانگ 2014-15 اور 2020-21 کے درمیان ریاستی اوسط سے زیادہ تھی۔ COVID-19 وبائی مرض نے پہلے سے ہی سنگین صورتحال کو مزید بڑھا دیا۔

رپورٹ میں اتر پردیش کے دو اضلاع میں مسلمانوں میں آبادی سے متعلق تھیوری پر نظر رکھا گیا ہے۔ شراوستی میں، 2001-11 کے درمیان آبادی میں اضافہ (DPG) 5.2تھا، جو گزشتہ دہائی سے32.23کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ بلرام پور میں دیگر اضلاع کے مقابلے ڈی پی جی میں معمولی اضافہ ہوا۔ دونوں اضلاع میں خواندگی کی سطح ریاستی اوسط سے کم ہے، بلرام پور میں 49.51اور شراوستی میں37.89فیصد ہے جبکہ ریاست کی اوسط57.25ہے۔ NFHS-5 کے اعداد و شمار سے مزید پتہ چلتا ہے کہ بلرام پور میں صرف17.8فیصد خواتین نے دس یا اس سے زیادہ سال کی تعلیم مکمل کی ہے، جبکہ ریاست کی اوسط 39.3فیصد ہے۔ شراوستی میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ بھی خراب ہے، جو اتر پردیش کے غریب ترین ضلع کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آڈٹ میں شامل آسام کے دو اضلاع میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کوکراجھار میں فعال لوئر پرائمری اسکولوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ دھوبری اور کوکراجھار دونوں میں بنیادی ڈھانچہ اور صحت کے نتائج خراب ہیں۔ مغربی بنگال کے اضلاع مالدہ اور مرشد آباد میں جہاں مسلمان بالترتیب51اور 66فیصدآبادی پر مشتمل ہیں، بی جے پی نے بنگلہ دیش سے دراندازی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی آبادی کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم، رپورٹ اشارہ کرتی ہے کہ دونوں اضلاع میں دہائیوں میں آبادی میں اضافہ منفی تھا، جس سے بی جے پی کا پروپیگنڈہ کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ رپورٹ میں ان اضلاع میں تعلیم اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی خراب حالت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔’

مذہبی شناخت کا سوال ہمیشہ سے مسلمانوں کیلئے حساس رہا ہے۔ چناں چہ گزشتہ چند سالوں میں مودی حکومت نے مسلمانوں کے مذہبی شناخت کو مجروح کرنے کی کوشش کی ۔ مذہبی و لسانی اقلیتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے ہمیشہ فلاحی اسکیموں پر مذہبی او لسانی شناخت کے تحفظ کے سوال کو ترجیح دی ہے۔ اس لئے یہ سوال تو کیا ہی جانا چاہیے کہ مودی حکومت نے مسلمانوں کا دل جیتنے کیلئے کیا کیا اقدمات کئے ہیں ؟ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کی تنگ دلی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں اس نے صرف سیٹ مالاپورم سے مسلم امیدوار دیا ۔ مسلم اکثریتی سیٹوں پر بھی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ دوسرے یہ کہ پورے انتخابات میں مسلمانوں کے خلاف بیانات سے ماحول کو گرم رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس میں مودی سب سے آگے تھے۔ان کے بیشتر انتخابی تقاریر میں مسلمان نشانے پر تھے ۔ جب سردار ہی نفرت انگیز تقاریر کرے گا تو پھر دوسرے لیڈروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ چناں چہ امیت شاہ سے لے کر راج ناتھ سنگھ ،یوگی آدتیہ ناتھ اور ہیمانت بسوا شرما تک ہراایک مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہے ۔ اس کے باوجود مسلمانوں سے ووٹ کی امید سمجھ سے بالاتر ہے-ایک طرف مسلمانوں کو کنارہ لگانے کی کوشش ۔دوسری طرف ووٹ نہیں دینے کا شکوہ۔حیرت انگیز ہے�

ووٹ ہر ایک شہری کاحق ہے وہ اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی اور گروہی ، طبقاتی مفادات اس کے پیش نظر ہوتا ہے۔ بلاشبہ فلاحی اسکیمیں ووٹروں کا اعتماد جیتنے میں ہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ بنگال اس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔مگر فلاحی اسکیمیں ہمیشہ کارگرنہیں ہوتی ہے۔ فلاحی ماڈل کے بدولت طویل مدت تک اقتدار میں رہنے والے نوین پٹنائک کی بیجو جنتادل اقتدار سے باہر ہوچکی ہے اور لوک سبھا میں ایک بھی ممبر کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ بی جے پی نے ہندتو کی سیاست کے ذریعہ نوین پٹنائک کی فلاحی ماڈل کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔ اس انتخاب کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی بھی کمیونیٹی کے وجود اور اس کی شناخت پر حملہ کرکے اس کی حمایت حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ لہذا مسلمانوں کو طعنہ دینے کے بجائے بی جے پی اور اس کے حامیوں کو گریبان جھانکنا چاہیے ۔مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا سلوک رہا ہے۔ 2024کا لوک سبھا انتخابات کو اس لئے بھی یاد رکھا جائے گا دس سالوں تک وزارت عظمی جیسے عہدہ جلیلہ پر فائز شخص کس طرح ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو دشمن اور شیطان ثابت کرنے کیلئے تابڑ توڑ کوشش کی مگر وہ ناکام ہوگیا۔ ظفر سریش جیسے خودساختہ دانشوروں کو مسلمانوں کو مشورہ دینے کے بجائے اپنے سیاسی گروکو آئینہ دکھانا چاہیے۔اگرگجرات کے 30فیصد مسلمانوں نے 2012کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھاتو پھر اس کے بعد کیا مودی کے رویے میں تبدیلی آئی تھی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک مودی وزیر اعلیٰ رہے کہ گجرات میں اقلیتی طلبا کیئے اسکالر شپ پروگرام نافذ نہیں کیا جاسکا۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین