Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںانتہائی دائیں بازو کے عروج کے یورپ کی سیاست پر اثرات

انتہائی دائیں بازو کے عروج کے یورپ کی سیاست پر اثرات

جو صورت حال جاری ہے، اس کے مطابق جون میں جب بلاک کے 40 کروڑ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے تو یورپ کی چھوٹی جماعتیں 25 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔

نینا ڈوس سانتوس

رواں ماہ رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ میں ہونے والی کانفرنس میں یورپ کی قدامت پسند جماعتوں کے رہنما پہلی نظر میں فاتح نظر آئے۔

دو سال قبل ہونے والے اپنے آخری اجلاس کے بعد رجعت اور اعتدال کے ملے جلے نظریات رکھنے والا بازو مضبوط ہوا اور یورپی یونین کے بڑے حصے میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بلاک کے اہم اداروں میں اس کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ 

یورپی یونین کے قدامت پسند ارکان، یورپی پیپلز پارٹی کی شکل میں مل کر مہم چلا رہے ہیں اور یورپی پارلیمنٹ کے آئندہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں، جس کی صدارت اس وقت مالٹا کی رجعت اور اعتدال پسندی کے امتراج پر مبنی بیانیے کی مالک رابرٹا میٹسولا کر رہی ہیں۔

دریں اثنا یورپی کمیشن کی سربراہی کے لیے ان کی امیدوار ارسلا وان ڈیر لیئن کو دوسری مدت کے لیے منتخب کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ صورت حال ایسے دور کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں رجعت اور اعتدال پسندی کے نظریے کی فطری طور پر توجہ معیشت اور سلامتی پر ہے۔ یہ نکات ووٹروں کے موجودہ خدشات میں سب سے آگے ہیں۔

اس کے باوجود نمایاں کارکردگی کے ساتھ ایک بڑی گتھی موجود ہے یعنی یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی حمایت میں اضافے کے ماحول میں، سیاسی منظر نامے پر موجود مخالف سے کس طرح نمٹا جائے۔

اس ماہ عوامی سیاست کا نظریہ رکھنے والی پارٹی کے ابھرنے سے پرتگال کے رجعت اور اعتدال پسند بازو کو اکثریت حاصل کرنے سے روکنے میں مدد ملی، باوجود اس کے کہ اس نے موجودہ سوشلسٹ حکمرانوں کو شکست دی۔ نتیجے کا مطلب کمزور حکومت ہو سکتا ہے، جسے نئے قوانین منظور کروانے کے لیے عبوری مراعات دینا پڑیں۔

سویڈن میں، جہاں انتہائی دایاں بازو 2022 سے حکمران اتحاد کا حصہ ہے، یہ رجحان پوری طرح جاری ہے، جس کا ثبوت امن و امان کے معاملے میں حالیہ کریک ڈاؤن اور امیگریشن پر سخت مؤقف ہے۔

سلوواکیہ اور ہنگری میں عوامیت پسند رہنما اتھارٹی کے مالک ہیں۔ وہ کئی سال تک باقاعدگی کے ساتھ اہم تازہ مسائل پر یورپی یونین کے اتحاد کو چیلنج کرتے رہے۔

برسلز میں قائم سیاسی حکمت عملی بنانے والی تنظیم ’کمپین لیب‘ کے بانی جیری زیگورٹس کا کہنا ہے کہ ’یورپ کا سیاسی مرکز یقینی طور پر دائیں بازو کی جانب جھک رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ اسے پہلے ہی (انتخابی) مہموں میں دیکھ رہے ہیں، جن میں موجودہ ماحول اعتدال پسندوں کو نقل مکانی اور دفاع پر زور میں اضافے، تحفظ، معاشی اور سوشل سکیورٹی جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔‘

مختصر یہ کہ انتہائی دائیں بازو کی بات پہلے ہی سنی جا رہی ہے اور جلد ہی وہ بڑی تعداد میں دکھائی دیں گے خاص طور پر یورپی پارلیمنٹ میں۔

جو صورت حال جاری ہے، اس کے مطابق جون میں جب بلاک کے 40 کروڑ شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے تو یورپ کی چھوٹی جماعتیں 25 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔

یورپی پارلیمنٹ کے ایسے ارکان ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور یورپی یونین کی مشرق کی جانب توسیع کے ارادوں میں رکاوٹ بن سکتے ہیں تاکہ ایک دن یوکرین، مولدووا اور مغربی بلکانی ریاستوں کو یورپی یونین کا حصہ بنایا جا سکے۔

لیکن زاگورٹس کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ انتہائی دائیں بازو کے دھڑے اب بھی اتنے متحد ہیں کہ جوں کی توں صورت حال کو مسلسل چیلنج کرنے کے لیے اکٹھے ہو سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ جماعتیں اہم معاملات پر ایک دوسرے کی سخت مخالفت کر سکتی ہیں جیسے کہ روس سے کیسے نمٹا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ یوکرین کے حامی ہیں جبکہ کچھ کھلے عام کریملن کی حمایت کرتے ہیں۔‘

یورپ میں انتہائی دائیں بازو کا عروج کوئی تعجب کی بات نہیں۔ درحقیقت ایسا کچھ عرصے سے جاری ہے۔

بخارسٹ میں رجعت مائل اعتدال پسند عہدے دار نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں پر الزام عائد کیا کہ وہ اس مسئلے کا سبب بنے، جب انہوں نے 2016 میں اپنی تحریک ’ان مارچ‘ کی بنیاد رکھی۔

عہدیدار نے کہا: ’انہوں (میکروں) نے ہر کسی کے لیے اعتدال کے میدان کو تباہ کیا اور ہمیں مسئلے سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دیا۔‘

دوسروں کا اعتدال ہے کہ عوامی سیاست کی کشش ہمیشہ رہے گی اور وہ ان مسائل کا آسان حل پیش کرتی ہے، جن سے روایتی جماعتیں نمٹنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ مصارفِ زندگی کے بحران اور کووڈ 19 سے پیدا ہونے والے حالات نے اس تبدیلی کو تیز کر دیا ہے۔ متوسط طبقے کے رائے دہندگان کو سماجی و اقتصادی سیڑھی سے نیچے اور غیر نمایاں عناصر کے ہاتھوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔

یہاں تک کہ یورپ کے کسان، جن کے ذریعہ معاش کو ماضی میں یورپی یونین کی مشترکہ زرعی پالیسی کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا، اب بنیاد پرستوں کو گلے لگا رہے ہیں۔

تاہم جیسے یورپ کی رجعت مائل معتدل جماعتیں اس خطرے کو بے اثر کرنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کی پالیسیوں کو اپنانے کی کوشش کر سکتی ہیں، اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے کچھ زیادہ جارحانہ اقدامات ووٹروں کو دور کر رہے ہیں۔

اس طرح یہ جماعتیں اعتدال کی جانب مزید جھکتی جا رہی ہیں۔

فرانس کی سیاسی جماعت نیشنل ریلی کی رہنما میرین لی پین نے نام نہاد فریگزٹ کے اپنے منصوبوں کو ترک کر دیا ہے اور حال ہی میں روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کی ہے، حالاں کہ وہ کبھی روسی صدر ولادی میر پوتن کی کھلی مداح تھیں۔

دریں اثنا جرمنی کی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی قیادت نے فوری طور پر ایک خفیہ اجلاس کی خبروں سے خود کو دور کر لیا جس میں کچھ ارکان نے ’معاشرے کا حصہ بننے میں ناکام رہنے‘ افراد کو ملک بدر کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہاں تک کہ گیرٹ ولڈرز، جنہوں نے حال ہی میں نیدرلینڈز میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن حکومت بنانے سے قاصر ہیں، بظاہر انہیں احساس ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے لوگ عملی طور پر کسی ملک کو چلانے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے باہر رہ کر دباؤ ڈالنے میں بھی اتنے ہی بااثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس کے باوجود، یورپ میں دائیں بازو کی تحریکوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اہم ہے کیوں کہ یہ دنیا کے جمہوری ممالک کے سب سے بڑے گروپوں میں سے ایک میں کام کرنے کے طریقے کو تبدیل کر رہا ہے۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا کے دیگر حصوں میں آمریت پنپ رہی ہے۔

اس تبدیلی کے اثرات دیر پا ثابت ہو سکتے ہیں لیکن یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

نینا ڈوس سانتوس ایوارڈ یافتہ بین الاقوامی براڈکاسٹر اور صحافی ہیں، جو پہلے سی این این کی یورپ ایڈیٹر تھیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین